Daily Roshni News

ساری کائنات کا خالق و مالک اور رازق آللہ تعالٰی کی ذات اقدس ہے۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ساری کائنات کا خالق و مالک اور رازق آللہ تعالٰی کی ذات اقدس ہے، وہ بلا تفریق مذہب و ملت، ذات پات، کے سب کو زندگی کے وسائل عطا فرماتا ہے، یہ اسکی شان عظمت و کریمی ہے کہ وہ اپنے  ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کو برابری سے نوازنا ہے، اللہ تعالٰی کا یہ وصف تفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ اس سارے نظام کے پس پردہ  اسکی کیا حکمتیں اور مشیت ہے، اللہ تعالٰی نے اپنی پہچان کے لئے کائنات سمیت  انسان کو  تخلیق کیا، اللہ کی صفات کا نام دین ہے اور یہی اسلام ہے اور ان صفات کا حصول کسی بھی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ ان صفات کے حصول کیلئے سوائے روح کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں ہے، روح اللہ کا امر ہے ، اس کا علم روحانیت، تصوف، spirituality یا علم الاسماء کہلاتا ہے ، کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی سب  روح کی وجہ سے حرکت میں ہیں،  علم الاسماء آدم علیہ السلام کو سکھائے گئے ہیں اور آدم کی ہر اولاد کو بطورِ ورثہ منتقل ہو رہے ہیں دنیا میں موجود ہر مرد و عورت آدم وحوا کا روپ ہے اور دنیا کا ہر علم اللہ تعالیٰ کی صفت “العلیم” سے مظہر بنتا ہے اور علم کا کوئی بھی مذہب و ملت، ذات پات، مسلک و فرقہ نہیں ہوتا ، مثلاً انجینرنگ عیسائی نہیں ہوتی، ڈاکٹری یہودی یا پارسی نہیں ہوتی، مصوری ہندو، سکھ یا بدہ مت نہیں ہوتی، کوئی بھی کھیل  مثلا کرکٹ، فٹبال، ہاکی، ٹینس مسلمان، مجوسی ، بدھ مت یا سکھ نہیں ہوتا ، MBA یا BBA کھیتولک، برہمن یا سنی وہابی نہیں ہوتا ،  PHD یا M.Phil پروٹسٹنٹ، کھتری، شودر، جعفری یا دیوبندی نہیں ہوتی. M.A یا B.A کی ڈگری سید، راجپوت، پٹھان، مغل یا شیخ نہیں ہوتی، جس طرح ہر انسان دنیا میں  رہ کر مادیت کا کوئی بھی علم سیکھ سکتا ہے اسی طرح نوع انسانی کا ہر فرد تصوف یا روحانیت کا علم سیکھ سکتا ہے’ کیونکہ روح ہی مادی نظام کو متحرک کرتی ہے،  اگر جسم کے اندر سے  روح نکل جائے تو نہ بندہ نماز پڑھ سکتا ہے نہ روزہ  رکھ سکتا ہے، نہ صدقہ و خیرات دے سکتا، نہ۔بت یا آگ کی پوجا کر سکتا ہے،  نہ ہی شراب پی سکتاہے، نہ چوری کر سکتا ہے اور نہ ہی ڈاکٹری’ انجینئرنگ ‘ وکالت، اداکاری و مصوری کرسکتا ہے، دنیا میں ہر بندے کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور ہوتی ہے لیکن کسی بھی صلاحیت کا کوئی مذہب و قوم، ذات پات، مسلک و فرقہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے حصول کا ایک اپنا نظام اور طریقہ کار ہے، جب کوئی انسان ذوقِ وشوق اور اپنے باطنی رحجان سے کوئی صلاحیت ، علم یا فن حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ ارتکاز توجہ سے بندے کے اندر منتقل  ہو کر اجاگر ہو جاتا ہے ، ہر انسان کے باطن کا  اللہ تعالیٰ سے ہر وقت، ہر لمحہ ایک تعلق استوار ہے جو مخلوق کو اس کے خالق کی طرف کسی نہ کسی طرح متوجہ کرتا رہتا ہے ، مخلوق کا اپنے خالق کے ساتھ رابطے کا نام تصوف یا روحانیت ہے، یہ صلاحیت ہر انسان اور ہر مخلوق کو حاصل ہے اس کا کسی مذہب ، قوم ، مسلک ، فرقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس طرح کسی صلاحیت، فن، علم کو سیکھنے اور حاصل  کرنے کے طریقے، آصول اور قواعد و ضوابط اور استاد ہوتے ہیں بلکل اسی طرح روحانی علوم کے بھی اصول وضوابط طریقے اور استاد ہوتے ہیں جو کسی بھی سالک کے اندر درجہ بہ درجہ علوم منتقل کرکے روحانی انسان بنا کر  فی الارض خلیفہ کے مرتبے پر فائز کرتے ہیں، ایک بات ذہن میں رہے  پنڈت، راہب، مولوی، پادری، ربی, پارسی، گرو یا مذہبی انسان بننا الگ علم  ہے، روحانی علم  الگ صلاحیت ہے

Loading