سیاست کا مقابلہ طاقت سے نہیں سیاست سے ہی ہو سکتا ہے، طاقت جتنی بھی استعمال کر لی جائے اس سے کسی کی سیاست کو دبایا یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس اصول کی کار فرمائی ہم بھٹو، ضیاء آویزش میں دیکھ چکے، طاقت ہونے کے باوجود جنرل ضیاء بھٹو کی سیاست ختم نہ کر سکے، نواز شریف کی سیاست کو جنرل مشرف کی طاقت مات نہ دے سکی اب بھی عمران خان کی سیاست کو طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اس آفاقی اور ابدی اصول کی موجودگی میں بھی یہ توقع کی جا رہی ہے کہ جیلوں، سزائوں اور گرفتاریوں سے انصافی سیاست ختم ہو جائے گی، ہرگز نہیں ان اقدامات سے اسے بڑھوتری ملے گی۔ عمران خان کو جب بھی شکست ہو گی سیاست کے میدان میں ہو گی مگر فی الحال اس کے مقابلے کی سیاست کوئی کر ہی نہیں رہا۔ عمران خان اکیلا ہی سیاست کر رہا ہے باقی تو اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔
عمران خان کی سیاست کا محور اس کا بیانیہ ہے، اب اگر کسی کو عمران کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ عمران سے بہتر اور زیادہ موثر بیانیہ لائے، ایسا ابھی تک تو ہو نہیں سکا۔ عمران خان کے اس بیانیے کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کا مرکزی کردار ضرور ہے، اب ریاست خان بجائے اس کے کہ عمرانی بیانیے کا توڑ کرے وہ سوشل میڈیا پر ناراض رہتا ہے حالانکہ سوشل میڈیا تو صرف وسیلہ ہے اصل چیز تو بیانیہ ہے اسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے ریاست کا نزلہ سوشل میڈیا پر گرتا ہے عمران ریاض خان ہو یا اسد طور انکی گرفتاری سراسر زیادتی ہے ان گرفتاریوں سے تو یہ لگتا ہے کہ ہماری طاقتور ریاست اتنی کمزور ہو گئی ہےکہ عمران ریاض یا اسد طور سے بھی ڈر رہی ہے۔
اگر عمران ریاض اور اسد طور کچھ غلط کر رہے ہیں تو اس کا جواب بھی سوشل میڈیا پر دیا جائے۔ ریاست کے پاس تو ان دونوں افراد سے کہیں زیادہ وسائل، مال و دولت اور طاقت ہے۔ میڈیا کا توڑ میڈیا سے ہی ہو سکتا ہے گرفتاریوں اور دھمکیوں سے نہیں بعینہ جیسے سیاست کا مقابلہ صرف سیاست سے ہو سکتا ہے، میڈیا پر ان پابندیوں سے میرے ذہن میں ملامتی اور صوفیانہ شاعری کی روایت میں لکھا یہ شعر گونج رہا ہے
ساڈے بولن تے پابندیاں،ساڈےسر لٹکے تلوار
میری ناقص رائے میں بولنے پر پابندیوں سے ریاست مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتی ہے پابندیوں سے افواہیں اور سازشی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ عام لوگوں کا ریاست اور مین سٹریم میڈیا پرسے اعتماد اٹھ جاتا ہے، لوگ ریاست اور حکومت کی اچھی باتوں اور اقدامات پر بھی یقین نہیں کرتے بلکہ انہیں گمان ہوتا ہے کہ یہ سب جھوٹا پراپیگنڈہ ہے۔ آپ یاد کریں کہ مارشل لائوں کے ادوار میں جب قومی میڈیا پر پابندیاں ہوتی تھیں تو لوگ سچی خبروں کیلئے بی بی سی سنتے تھے اور کئی لوگ تو ریاستی میڈیا سے اس قدر ناراض ہوتےتھے کہ وہ بھارتی آکاش وانی کو ترجیح دیتے تھے۔ خدا خدا کر کے اور پاکستانی میڈیا کی جدوجہد سے بالآخر ہم اس نہج پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کے حالات پاکستانی میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعے سے ہی لوگوں تک پہنچ رہے ہیں اگر یہ پابندیاں اور گرفتاریاں جاری رہیں تو لوگوں کا پھر سے نیشنل اور سوشل میڈیا پرسے ایمان اٹھ جائے گا اور وہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنے لگیں گے۔
صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے حوالے سے کئی تحفظات موجود ہیں، بالخصوص ’’فیک نیوز‘‘ کا چیلنج سب سے گھمبیر ہے ریاست کو بھی اس پر تحفظات ہیں لیکن اسے چاہئے کہ فیک نیوز کو روکنے کیلئے طاقت اور دبائو کی بجائے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرے۔
میڈیا کا ادنیٰ کارکن ہونے کے حوالے سےمیری تجویز ہے کہ بین الاقوامی اور ملکی طورپر میڈیا کو پرائیویٹ تصدیقی مراکز کھولنے چاہئیں، ان تصدیقی مراکز کا ریاست سے کوئی تعلق نہ ہو نہ ہی ادارے اسکے کام میں مداخلت کریں یہ پرائیویٹ مراکز خبروں اور رپورٹوں کی فیکٹ چیکنگ کے بعد تصدیقی اجازت دیں اور اپنا سرٹیفکیٹ جاری کریں اس سے سوشل میڈیا کی ساکھ اور اس پر چلنے والی خبروں پر اعتماد سازی میں اضافہ ہو گا یہ تصدیقی مراکز بالکل اسی طرح ہوں جس طرح ISOسرٹیفکیٹ جاری کئے جاتے ہیں جس میں تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ کمپنی یا ادارہ بین الاقوامی اصول و ضوابط کا پابند ہے اس لئے اس سے تجارت اور لین دین کیا جاسکتا ہے، اس تصدیقی عمل سے سوشل میڈیا کے بارے میں جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں وہ کم ہونگے اور آج کا بے مہار سوشل میڈیا بھی ذمہ دار کہلانے لگے گا۔
امید ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اس حوالے سے پہل کرینگے تاکہ باقی دنیا بھی اس میں ان کی پیروی کر سکے اس طرح کے ادارے بنانے سے نہ تو سوشل میڈیا کی آزادی مجروح ہو گی اور نہ ہی یہ ریاستی دبائو کا شکار ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اس میں پروفیشنل گیٹ کیپنگ کا اضافہ بھی ہو جائے گا۔
ریاست ہو یا ہماری سیاست یہ کبھی میڈیا کی آزادی کو دل سے تسلیم نہیں کرتیں 2018ء میں تو اتنا دبائو تھا کہ جیو کی الیکشن نشریات بند کرنے کی دھمکی دی گئی اور تمام اینکرز کو اٹھا دیا گیا۔ 2024ء کی الیکشن نشریات میں سخت سے سخت باتیں ہوئیں کئی پیشانیوں پر سلوٹیں پڑیں مگرکم از کم نشریات بند کرنے کی دھمکی نہ دی گئی۔ ریاست میڈیا کی تنقید برداشت کرے تو یہ ریاست کیلئے فائدہ مند ہوتی ہے اگر کھلے عام تنقید بند ہو جائے تو لوگوں کے دلوں میں لاوہ پکتا ہے، بغاوتیں اور خونریزی ہوتی ہے۔ جب سے میڈیا نسبتاً آزاد ہے کوئی خونیں احتجاجی تحریک نہیں چل سکی کیونکہ لوگوں کا غصہ تنقید اور تقریر سے اتر جاتا ہے اگر یہ راستے بند کر دیئے جائیں تو غصہ احتجاج اور پھر بالآخر شدت پسندی کا رخ اختیار کرلیتا ہے مرزا غالب کے بقول
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
آج کی دنیا میں ریاست پر نقدونظر کیلئے میڈیا کا اہم ترین کردار ہے ریاست تنقید و اختلاف سے کمزور نہیں مضبوط ہوتی ہے۔ ریاست تو کمزور شدت پسندی سے، پابندیوں سے، گرفتاریوں سے ہوتی ہے۔ پوری تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملےگا کہ آزادی سے ریاست کو خطرہ لاحق ہو گیا ہو۔ ہاں ریاستوں کو خطرہ خود اپنی ظالمانہ پالیسیوں سے ہوتا ہے۔ ریاستی قہر کاصرف خوف ہونا چاہئے اور وہ بھی صرف آئین او رقانون کی خلاف ورزی پر وگرنہ ریاست کو تو مادرِ مہربان کا ہی کردار ادا کرنا چاہئے۔ ریاستی شہریوں کو خوش رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔