Daily Roshni News

سردیوں میں دھوپ تاپئیے۔۔۔ تحریر۔۔۔مصباح بیگ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔  سردیوں میں دھوپ تاپئیے۔۔۔ تحریر۔۔۔مصباح بیگ)یہ توانائی کا بہترین ذریعہ ہے میں سردیوں میں تنہائی محسوس کرنے لگتی ہوں۔ خوشیوں اور مسرتوں کے جذبے سرد پڑ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے سرد راتوں کے ٹھٹھرتے لمحے میریحالت زار پر آنسو بہا کر 1ماحول کو مزید غمگیناور اداس بتا رہے ہیں…. ایسا کیوںہوتا ہے….؟رخسانہ کے اسسوال پر ماہر نفسیاتنے اسے بتایا کہ اس کیابتر ذہنی کیفیت کی وجہ یہ ہے کہ و وہ لادھوپ میں مناسب وقت نہیں گزارتی۔جی ہاں، سورج کی روشنی بھی شفا بخش اثراترکھتی ہے۔ ایسے ممالک جہاں سورج کم کم لکھتا ہےوہاں لوگوں میں ڈپریشن ( اضمحلال) )مصبا اور دیگر نفسیاتی امراض کے علاوہخود کشی کا تناسب بھی زیادہ ہے۔

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کے وہ محلے جہاں دھوپ بہت کم نکلتی ہے۔ وہاں کی زندگی بہت مشکل ہے اور جس دن سورج نکل آئے، لوگوں کے لیے عید کا سماں ہوتا ہے۔ کرکٹ میچز میں تو ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ سن ہاتھ لے رہے ہوتے ہیں۔

ماہرین نفسیات یہ بھی کہتے ہیں کہ ذہنی امراض میں مبتلا شخص سردیوں میں زیادہ مضطرب اور پریشان رہتے ہیں۔ اس لیے انہیں ایسی جگہ بٹھایا جائے جہاں سورج کی روشنی انہیں براہ راست ملے یاانہیں دھوپ میں سیر کرائی جائے۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ دھوپ میں بیٹھنے سے مریض کی طبیعت جلد ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں ذہنیسباح بیگ مریضوں کو آنکھوں کے ذریعے سورج کی روشنی جذب کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جس سے نہ صرف یہ کہ وہ صحت یاب ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے روز مرہ کے کاموں میں بھی توجہ اور پختگیآجاتی ہے۔

عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ سردیوں میں ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ دھوپ کی کمی کی وجہ سے کولیسٹرول میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دھوپ کولیسٹرول کو کم کرتی ہے۔ انسانی جلد میں ایک کیمیائی مادہ اسکوالین پیدا ہوتا ہے۔ دھوپ نہ ملنے سے یہ مادہ کولیسٹرول میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسانی جلد کو دھوپ ملتی رہے تو یہ مادہ وٹامن ڈی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی اور کولیسٹرول کی زیادتی ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض کا باعث بنتی ہے۔ وٹامن ڈی دل کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔ لہذا اس وٹامن کی کمی سے سردیوں میں دل کے امراض بڑھ جاتے ہیں۔ دل کے امراض سے ممکنہ حد تک بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی سے استفادہ کیجیے۔

 آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ سرد موسم میں گھروں میں عورتیں اپنے نو مولود بچوں کو دھوپ میں بیٹھا کر تیل کی مالش کرتی ہیں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ سورج کی تپش سے بچے کی ہڈیاں مضبوط ہوں۔ جدید تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ دھوپ سے جسم میں حیاتین ڈی (وٹامن ڈی) پیدا ہوتا ہے۔ جو کیلشیم کو جذب ہونے میں مد دیتا ہے۔ ایسے نوجوان جو باڈی بلڈنگ کے شوقین ہیں یا جسم وغیرہ جاتے ہیں۔ وہ دھوپ سینکنے کی ورزشیں بھی کرتے ہیں۔ جس سے ان کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ بوڑھے افراد کو دھوپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ ڈھلتی عمر کی کمزوری دور ہو۔ جوڑوں کے امراض اور زخم وغیرہ میں سورج کی تپش ازحد مفید ہے۔ سردیوں میں عام طور پر زخم جلدی ٹھیک نہیں ہوتا اور مرض میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات پرانے زخم بھی دکھنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ انسانی جسم میں درجہ حرارت کی کمی سے پیدا ہونے والی مدافعتی کمزوری ہے۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر دھوپ میں بیٹھنے کامشورہ دیتے ہیں۔اکثر نوجوان خواتین دھوپ سے کتراتی ہیں۔ خیال یہ ہوتا ہے کہیں ان کا رنگ سیاہ نہ ہونے لگے۔ یہ صحیح ہے کہ تیز دھوپ جلد کی نمی غیر متوازن کر کے اس کی شادابی کم کرتی ہے۔ مگر اس خیال کے تحت دھوپ سے مکمل اجتناب مناسب نہیں۔ انسانی جلد کے خلیے اگر لمبے عرصہ تک سورج کی حدت سے محرورم رہیں تو مردہ ہونے لگتے ہیں اور یوں جلد اپنی شادابی دو نکھار کھونے لگتی ہے۔بعض جلدی امراض کا علاج بالا بنفشی شعاعوں یعنی دھوپ سے کیا جاتا ہے مثلا چنبل وغیرہ۔ ڈاکٹر مریض کو اس کی صور تحال کے مطابق کچھ دوائیاں لگا کر دھوپ میں بیٹھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اسی طرح بعض ڈاکٹر برص کے مریضوں کے لیے دھوپ کومفید قرار دیتے ہیں۔دھوپ ذیا بیس کے مریضوں کے لیے بھیبے حد فائدہ مند ہے۔

اکثر خواتین بالوں کی حفاظت و لمبائی کے لیے بہت زیادہ تیل استعمال کرتی ہیں مگر اس کے باوجود ان کے بال ٹوٹتے رہتے ہیں۔ تیل کی زیادتی بھی بالوں کی نشو و نما پر منفی اثر ڈالتی ہے۔بال اگر دھوپ میں سکھائے جائیں تو تپش کی حدت نمی اور خشکی سے پیدا ہونے والے جراثیم ختم کرتی ہے اور سر جو ؤں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

سردیوں کے آغاز پر لوگ مخصوص گرم کپڑوں اور بلینکٹ وغیرہ کو باکس سے نکال کر دھوپ میں رکھتے ہیں۔ تاکہ کپڑوں میں پیدا ہونے والی نمی اور بدبو کا خاتمہ ہو جائے۔ بعض اوقات رات کو استعمال ہونے والے کپڑے بھی دھوپ میں رکھے جاتے ہیں۔ اگر یہ کپڑے بغیر دھوپ لگوائے بکسوں و صندوقوں میں بند کر دیے جائیں تو ان میں کھٹمل پیدا ہونے کا احتمال بھی رہتا ہے۔دھوپ کئی مضر جراثیم کو مار دیتی ہے۔ دھوپ لگانے سے کپڑوں میں جراثیم پیدا نہیں ہوتے۔ ایک جدید تحقیق نے کچھ لوگوں کو دھوپ تاپنے کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دھوپ جلد کے سرطان کا باعث ہو سکتی ہے۔ جی ہاں، سورج کی بالا بنفشی شعاعیں سرطان کا موجب بن سکتی ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب طویل عرصے تک مسلسل ان کی زد میں رہاجائے۔ وہ افراد جو ساحل سمندر پر یا کسی ایسی جگہ لگاتار کئی کئی گھنٹے کام کرتے ہیں جہاں انہیں سایہ میسر نہیں وہ بالا بنفشی شعاعوں کے باعث جلد کے سرطانمیں مبتلا ہو سکتے ہیں۔سورج کی تپش کی زیادتی جہاں جلد کے سرطان کا باعث بنتی ہے وہاں دھوپ کئی قسم کے سرطان سے محفوظ بھی رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سینے ، قولون اور غدہ مثانہ کے سرطان میں اکثر ایسے افراد مبتلا ہوتے ہیں جنہیں دھوپ کم ملتی ہے۔ ان اقسام کے سرطان کو وٹامن ڈی کے استعمال سے روکا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر شے کی طرح دھوپ کا استعمال بھی احتیاط اور اعتدال سے کرنا چاہیے۔زیادتی کی صورت میں نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2015

Loading