Daily Roshni News

سقراط، ازدواجی زندگی اور اصل کامیابی کا راز

سقراط، ازدواجی زندگی اور اصل کامیابی کا راز

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کبھی کبھی زندگی میں رشتے آزمائش بن جاتے ہیں، اور ہمیں لگتا ہے کہ شاید ہم ہی سب سے زیادہ آزمائے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کا عظیم فلسفی، سقراط، جس نے دنیا کو عقل، حکمت اور فلسفے سے روشناس کرایا، وہ بھی اپنی ازدواجی زندگی میں سخت چیلنجز کا سامنا کرتا رہا؟

سقراط کی بیوی سخت مزاج، تیز زبان اور حد درجہ غصے والی تھی۔ روز صبح وہ گھر سے نکل جاتا اور شام ڈھلے واپس آتا—صرف اس لیے کہ ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔ مگر اس نے کبھی اپنے حالات کو بہانہ نہیں بنایا، نہ ہی شکایت کی، بلکہ انہی تجربات سے زندگی کے گہرے اصول اخذ کیے۔

ایک بار اس کی بیوی نے سب شاگردوں کے سامنے اس پر پانی پھینک دیا۔ سقراط نے مسکرا کر کہا: “جب بادل گرجتے ہیں، تو بارش تو ہونی ہی ہے۔”

کیا کہنے! کیسی حکمت، کیسا ضبط اور کیسا حوصلہ!

سقراط نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی سچائی یوں بیان کی: “اگر میری بیوی نہ ہوتی، تو میں کبھی نہ جان پاتا کہ خاموشی میں کتنی حکمت ہے اور نیند میں کتنی راحت۔”

اور پھر ایک دن، اُس کی بیوی اسی غصے کی شدت میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ مگر سقراط، جس نے زبان، غربت اور بیوی—تینوں آزمائشوں کا سامنا کیا، وہ کہتا ہے: “زبان پر قابو پالیا، غربت کو حکمت سے شکست دی، مگر بیوی کی تیز زبانی پر کبھی غالب نہ آ سکا۔”

دوستو! بات صرف عورت یا مرد کی نہیں ہے۔ یہ زندگی کے ایک لازمی پہلو کی تصویر ہے—رشتوں کی آزمائش۔ بعض اوقات بیویاں آزمائش بن جاتی ہیں، اور بعض اوقات شوہر۔ لیکن سکون کی چابی ان آزمائشوں سے بھاگنے میں نہیں بلکہ ان میں حکمت، صبر اور محبت تلاش کرنے میں ہے۔

قرآن کہتا ہے: “تمہارے جوڑے تمہارے سکون کے لیے بنائے گئے، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی گئی ہے۔” (الروم: 21)

تو سوال یہ ہے کہ اگر گھر سکون کا مقام نہ ہو، تو پھر کہاں ہو؟ اگر رشتے بوجھ لگنے لگیں، تو کیا ہم انھیں سمجھنے، نبھانے، اور بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا صرف شکوے اور شکایات سے دل بھرتے رہتے ہیں؟

سچ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر الگ ہونا نہیں چاہتے۔ ہم ساتھ رہنا چاہتے ہیں، مگر سمجھنا نہیں چاہتے۔ ہم محبت چاہتے ہیں، مگر قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔

یہ رشتہ لباس کی مانند ہے۔ اگر کسی لباس پر داغ لگ جائے تو کیا ہم فوراً اسے پھینک دیتے ہیں؟ نہیں! ہم اسے صاف کرتے ہیں، سنوارتے ہیں، بچاتے ہیں۔

ایسے ہی اگر میاں بیوی کے درمیان ناراضگیاں، غلط فہمیاں یا شکوے ہو جائیں، تو فوری طور پر انہیں ختم کرنا سیکھیں، نہ کہ دل میں پالنا۔

بیوی کا کردار: ایک گھر کو جنت بنانے والی عورت

بیوی کا اصل مقام صرف ظاہری کاموں سے نہیں، بلکہ گھر کے ماحول، بچوں کی تربیت اور شوہر کے لیے محبت و سکون کے انتظام سے جڑتا ہے۔ وہ اپنے رویے، مزاج اور حکمت سے گھر کو جنت بھی بنا سکتی ہے اور جہنم بھی۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اگر عورت نماز پڑھے، روزے رکھے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور شوہر کی فرمانبرداری کرے، تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو سکتی ہے۔”

یعنی کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے عورت کو عظیم بننے کی نہیں، بلکہ باوقار، باشعور، اور بردبار بننے کی ضرورت ہے۔

شوہر کا کردار: سکون کا سبب، بوجھ نہیں

شوہر کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ ہر وقت غصہ، لاپرواہی یا جذباتی بے حسی رشتے کو کمزور کرتی ہے۔ شوہر کا کردار محافظ کا ہے، زخم دینے والے کا نہیں۔ وہ بیوی کے لیے سہارا بنے، طنز یا شکایت کا تیر نہ بنے۔

آخری بات: شکایت نہیں، حل کی بات کرو

اگر دل میں شکوے ہیں، تو اعتراض نہ کرو، سوال کرو: “یہ مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ ہم اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار کیسے بنا سکتے ہیں؟”

یاد رکھو: جب نیت، صبر اور محبت ایک ہو، تو رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ سقراط کی طرح اگر ہم ہر طوفان کو خاموشی سے جھیل لیں، تو ہم زندگی کے عظیم ترین فلسفے خود سیکھ لیتے ہیں۔

یہ رشتہ، آزمائش بھی ہے اور انعام بھی—فرق صرف زاویۂ نظر کا ہے۔

Loading