Daily Roshni News

(قسط نمبر1)۔۔سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی

سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ

تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی)خاتم النبيين رحمتہ  للعالمین حضرت محمد رسول الله ﷺ کے بعد نوع انسانی کی رشد و ہدایت اور اصلاح و تربیت و تعلیم کی ذمہ داری امت محمدی کے ارکان پر ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں رسول اللہ علی ای ایم کے علوم کے وارث اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام نے جو مساعی فرمائیں وہ تاریخ کا روشن اور زریں یہ ہیں۔ دور حاضر میں سلسلہ عظیمیہ بھی صوفیائے کرام کی انہی کو ششوں کا ایک تسلسل ہے۔ و قار یوسف عظیمی نے ”سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ “ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا، جس پر انہیں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں بھی شایع ہوا۔ قارئین کرام کی دیرینہ فرمائش پر اس تحقیقی مقالہ کا خلاصہ روحانی ڈائجسٹ میں قسط وار پیش کیا جارہا ہے۔ امید ہے یہ مقالہ سلسلہ عظیمیہ کے پیغام اور تعلیمات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کے مشن کی تفہیم میں بھی معاون ہو گا۔ یہ مقالہ مقدمہ اور چھ ابواب پر مشتمل ہے۔

مقدمہ:اللہ وحدہ لاشریک تمام عالمین کا خالق و مالک ہے۔ اللہ تعالی نے آسمان، زمین، ستارے، سیارے، کہکشانی نظام، ان میں لینے والی تمام مخلوقات پیدا فرمائیں۔ فرشتہ ، جن، انسان کو اللہ تعالی نے تخلیق کیا۔ حیوانات ، جمادات ، نباتات تخلیق کئے۔ اپنی ہر تخلیق کو بحیثیت نوع اور بحیثیت فرد مختلف نظام، تقاضے اور ان تقاضوں کی تکمیل کے لئے وسائل عطا فرمائے۔ ہر ذی نفس کو بھوک، پیاس، بقائے نسل، تحفظ اور دیگر تمام معاملات کے لئے حسب ضرورت علم و فہم عطا فرمایا۔

قرآن پاک کے مطابق انسان کی تخلیق مٹی سے کی گئی اور اس میں اللہ تعالی نے اپنی روح پھونک دی۔ سورۃ الحجر میں ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ: اور بے شک ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی خشک مٹی سے جو سیاہ ضمیر کی بنی ہوئی تھی بنایا۔ [سورہ حجر (15): 26] اسی سورہ میں آگے چل کر ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ : اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا

ہوں۔ [سورہ حجر (15): 28]

انسانی وجود کے بارے میں سورہ ص میں ارشاد باری تعالی ہے۔

ترجمہ : “سو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اور است میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔(سورة ص (38): 72)

انسان کو تخلیق فرما کر اللہ تعالی نے اسے علم الاسماء عطا فرمایا۔ علم الاسماء کی بناء پر انسان کو فرشتوں اور جنات سمیت دیگر تمام مخلوقات پر فوقیت عطا فرمائی گئی۔ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ: اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے

نام سکھا دیئے پھر فرشتوں کے سامنے سب چیزوں کو پیش کرکے فرمایا اگر تم (اس خیال میں ) بچے ہو (کہ تم سے زیادہ علم والی کوئی خلوق نہیں) تو مجھے ان سب کے نام بتاؤ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے۔ ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے پورے علم و حکمت والا تو توہی ہے۔ [سورہ بقرہ (2): 31-32] ترجمہ : جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کیا جائے ابلیس کے سواسب نے اس حکم کی تعمیل کی۔(سورة بقره (2): 34)

اس مرحلہ پر ابلیس کی آدم کے ساتھ دشمنی کا بھی آغاز ہوا۔ ابلیس کا کہنا تھا کہ آدم مٹی سے بنایا گیا ہے جبکہ اُسے آگ سے بنایا گیا ہے چنانچہ وہ فوقیت کا حق دار ہے۔ سورہ اعراف میں ہے۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابلیس تجھے کس بات نے سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں نے سجدہ کرنے کا حکم دیا اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں کہ تونے مجھ کو آگ سے بنایا اور اس کو مٹی سے بنایا۔(سورة اعراف (7): 12)

اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل سے انکار کرنے اورتکبر کرنے پر ابلیس کو اللہ تعالیٰ نے راندہ درگاہ قرار دے دیا۔ بارگاہ خداوندی سے رد ہونے کے بعد ابلیس نے نوع آدم کو بھڑکانے کے لئے اللہ سے مہلت طلب کی جو اسے مل گئی۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تو یہاں سے اتر جا تیری کیا مجال ہے جو تو یہاں پر تمبر کرے اور مینی مارے تو یہاں سے نکل جابے شک تو ہی ذلیلوں میں کا ایک ذلیل ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے اس دان تک مہلت دے کہ جس دن لوگ اٹھائے جائینگے (یعنی قیامت کے دن تک) اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھے مہلت ہے۔سورۃ اعراف (7): 13-15)

ان مراحل کے بعد جنت کی وسعتیں مشروط طور پر آدم و حوا کے حوالہ کر دی گئیں۔

ترجمہ: اور ہم نے فرمایا اے آدم تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہو اور اس میں سے بے روک ٹوک جہاں سے تمہارا جی چاہے کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ [سورة بقره (2): 35]

 لیکن انسان کی برتری تسلیم نہ کرتے ہوئے حکم الہی سے انکار کرنے والے ابلیس نے جنت میں انسان کو بھڑکا دیا۔ آدم سے لغزش ہوئی ۔ اس لغزش کی پاداش میں انسان کو جنت سے نکال کر ایک مقررہ وقت تک کے لئے زمین پر بھیج دیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے

ترجمہ : پھر شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں وہ دونوں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے فرمایا تم سب (زمین پر) اترو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک وقت معین تک زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ حاصل

کرتا ہے۔(سورة بقره (2): 36)

زمین پر زندگی بسر کرنے کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے ہدایت ورہنمائی کا انتظام فرمایا گیا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ : ہم نے فرمایا تم سب (یعنی آدم وحوا اور ان کی ذریت جو پیدا ہونے والی تھی) جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کریگا اسے نہ کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ کچھ غم ۔(سورة بقره(2): 38)

نوع انسانی کو مختلف ادوار میں ہدایت ،رہنمائی عطا فرماتے رہنے کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء اور رسولوں کا سلسلہ قائم فرمایا۔

ان تمام آیات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ -1 اللہ تعالی نے مٹی کے جسم میں روح پھونکی تو وہ جیتا جاگتا وجود بن گیا۔ یعنی انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ روح جب تک اس جسم میں موجود ہے اس میں حرکت واثر و نفوذ ہے۔

اس پہلو میں تخلیق انسانی کے دو اجزاء روح و جسم کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے مل کر زندگی

تشکیل پاتی ہے۔

2۔ اللہ تعالی نے انسانی وجود کو علم الاسماء سے بھی نوازا۔ اسی علم کی بدولت انسان کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات پر برتری حاصل ہوئی۔

3۔ ان آیات میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ابلیس انسان کا صریح دشمن ہے جو پہلے خود راندہ درگاہ ہوا اور پھر نوع انسانی کو اللہ کے رستے سے دور کرنا اس کا مقصد ہے۔ یعنی انسانوں کے دو گروہ وجود میں آئے ایک وہ لوگ جو اللہ کے پسندیدہ رہتے (صراط مستقیم پر گامزن ہیں اور دوسرے وہ جو شیطان یا ابلیس کے پیروکار ہیں۔

تخلیق انسانی، شرف انسانی اور صراط مستقیم ، ان اہم امور پر قرآن پاک سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے۔ انسان کو تخلیق کرنے والی ہستی کون ہے…..؟ اللہ ، خالق وباری، اللہ وحدہ لا شریک شرف انسانی عطا کرنے والی ہستی کونسی ہے؟ اللہ علیم و حکیم انسان کو صراط مستقیم کی تعلیم دینے والی مبارک ہستی کون ہے؟

الله بادی و رشید:اس طرح یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تحقیق کائنات اور تخلیق انسانی در اصل توحید باری تعالی ہی کے مختلف مظاہر ہیں چنانچہ اللہ تعالی کو پانے، سمجھنے، اس کا عرفان حاصل کرنے ، کائنات اور انسان کو سمجھنے ، پوری انسانی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے، معاشرت و معیشت اخلاق و کردار کی بہترین تشکیل۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2017

 

 

Loading