سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ
تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی)کرنے کا واحد اور جامع ترین ذریعہ توحید ہی ہے۔ توحید باری تعالٰی نوع انسانی کو ایک روحانی ، فکری ، اخلاقی، معاشی اور تہذہبی بنیاد
فراہم کرتی ہے۔
زمین پر آدم کی اولاد پھیلتی رہی۔ انسانوں کی آبادی بڑھتی رہی۔ آدم کی اولاد نے زمین پر مختلف مخطوں میں رہائش اختیار کی۔ موسم اور ماحول کےفرق سے انسان کے مزاج اور عادات و اطوار میں تبدیلی آئی۔ خاندان قبیلوں اور قبیلے قوموں میں تبدیل ہوئے۔ باہمی رابطہ اور تبادلہ خیال کے لئے الفاظ، جملے اور پھر مختلف بولیاں وجود میں آتی رہیں۔ ان تمام امور میں بھی مصلحت خداوندی اور اللہ تعالی کی نشانیاں پنہاں ہیں۔
ترجمہ : اے انسانو! بے شک ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے پیدا کیا اور تمہارے جدا جدا خاندان اور قبیلے اس لئے بنائے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان لو نہ کہ دوسروں پر فخر اور تکبر کرنے کے لئے بے شک تم میں سب سے زیادہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہے جو تم میں سب سے زیادہ پر ہیز گار ہو بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔[سوره حجرات (49): 13]
دنیا کے مختلف خطوں میں آباد لوگوں کو توحید باری تعالی پر قائم رکھنے ، انہیں اس دنیا میں اعلیٰ اقدار پر مبنی بہتر زندگی بسر کرنے اور آخرت میں اللہ تعالی کے حضور جو ابدہی سے باخبر رکھنے کے لئے مختلف ادوار میں اس کے انبیاء اور رسول مبعوث ہوتے رہے۔ ان مقدس ہستیوں نے انسان کو اپنے خالق ومالک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی تلقین و ترغیب دی، عبادت کے طریقے بتائے۔ ان محترم ہستیوں نے زمین پر بہتر طور پر زندگی بسر کرنے کے لئے ہدایت ورہنمائی کے ساتھ ساتھ انسان کو تزکیہ نفس، عرفان ذات اور اللہ تعالی کے ساتھ تعلق کے قیام کے طریقے بتائے۔
اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کے ذریعے الہامی کتب اور صحائف نازل فرمائے تاکہ اللہ کا پیغام جاری و ساری رہے۔ انبیائے کرام کی تعلیمات کا بنیادی نکتہ توحید رہا۔ توحید کی روشنی میں انبیائے کرام نے انسانوں کو دو طرز کے تعلقات کی بہتری پر گامزن کیا۔
اول۔ اللہ اور بندہ کے درمیان ربط و تعلق میں بہتری ( حقوق اللہ )
دوم۔ بندہ اور دوسرے بندوں کے درمیان ربطو تعلق میں بہتری ( حقوق العباد )
حقوق اللہ :تمام انبیائے کرام نے توحید باری تعالی کا پر چار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ اللہ نے ساری کائنات تخلیق کی ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو اس لئے تخلیق کیا کہ وہ اپنے خالق و مالک اللہ کو جانیں، مانیں اور اسکی قدرت و کبریائی کا زبان و قلب سے اقرار کریں۔ انبیائے کرام نے تمام نبیوں، الہامی کتابوں ، ملائکہ اور آخرت پر ایمان کو بھی لازمی قرار دیا کیونکہ یہ سب اللہ کی جانب سے ہیں۔ اللہ سے ذہنی و قلبی طور پر منسلک رہنے ، روحانی طور پر اللہ سے تعلق خاطر استوار رکھنے کے لئے اللہ تعالی نے انبیائے کرام علہیم السلام کے ذریعے اپنے بندوں کو عبادات کا نظام عطا فرمایا۔
حقوق العباد :پیغمبران علیہم السلام کی تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ انسان اس دنیا میں عارضی قیام کے لئے آیا ہے۔ یہ دنیا دار الاسباب اور آخرت کی کھیتی ہے۔ اس عارضی قیام کے دوران انسان کا تعلق دوسرے انسانوں (معاشرہ) سے قائم رہتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے لیکر آخری لمحات تک مختلف صورتوں میں معاشرہ سے وابستہ رہتا ہے۔ قریبی رشتوں سے لیکر معاشرہ کے دوسرے شعبوں تک مثلاً معاشرت، تعلیم ، معیشت، تہذیب اور اخلاق وغیرہ سےجڑا ہوا ہے۔
آدمی کا تعلق اپنے گھر میں پہلے اپنے والدین اور بیوی بچوں سے رہتا ہے۔ پھر دیگر قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں سے ہوتا ہے۔ اسکے بعد معاش کے دائرہ کار میں اس کا ربط کئی طرح کے لوگوں رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لوگ کسی نہ کسی ذریعے سے ہر آدمی کے ساتھ رابطہ یا تعلق میں آتے ہیں۔
انبیائے کرام کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ انسان دوسرے لوگوں سے کس قسم کا برتاؤ رکھے۔ وہ معاشرہ کے لئے کس طرح ایک مفید شخص ثابت ہو سکتا ہے۔ معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہی اور ان کو پورا کرنا اسلام کی اصطلاح میں حقوق العباد ہے۔ انسانوں کے لئے ہدایت ورہنمائی کی غرض سے نبوت و رسالت کے سلسلہ کا اختتام اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ پر ہو گیا۔
ترجمہ: محمد ﷺتمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم انیسبین ہیں۔ اور اللہ ہر چیز کا جانے والا ہے۔ [سورۃ احزاب (33): 40]
حضرت محمد ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ انسانوں کے لئے وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے احکامات و ہدایات کا سلسلہ اب مکمل ہو کر بند ہو چکا ہے۔
حضرت محمد ﷺ پر بذریعہ وحی نازل ہونے والی کتاب قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ پر دین کی تکمیل فرمادی اور آپ ﷺکی امت کے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا۔
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پرتمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا۔[سوره کانده (5): 3]
توحید باری تعالی کو سمجھنے ، تخلیق انسانی کا منشاء تلاش کرنے اور اللہ تعالی کی پسندیدہ طرزوں میں خود کو ڈھالنے کا جامع اور سہل ترین ذریعہ اسلام ہے۔
حضرت محمد رسول الله ﷺ کی تعلیمات،اہمیت و ضرورت :
حضور کریم ﷺ نے مکہ میں مشرکین کے شدید رد عمل، مدینہ منورہ میں یہودیوں اور منافقین کی سازشوں اور دشمنوں کی لشکر کشی کے باوجود اس پاکیزہ دین کی اشاعت و فروغ کا سلسلہ جاری رکھا اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ آپﷺ کی تعلیمات اتنی ہمہ جہت ہیں کہ رہنمائی کے تمام پہلو ذات محمدی ﷺ میں سمٹ گئے ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ کے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں یک حیثیتی بڑے لوگوں کی کمی نہیں۔ لیکن اگر ہم مثلا سکندر اعظم اور نپولین و ہٹلر کو لیں تو ان کی زندگی صرف ایک سپہ سالار اور فاتح کے لئے مفید مطالعہ ثابت ہو سکتی ہے اور بس۔ گو تم بدھ کی زندگی، ریاضت اور عبادت میں خصوصی دلچسپی لینے والوں کے لئے سبق آموز ہو سکتی ہے۔ ہومر صرف ایک شاعر اور قصہ گو تھا۔ افلاطون و ارسطو صرف حکیم و فلسفی تھے ، زندگی کے دوسرے شعبوں میں ان کی کوئی بڑی وقعت نہیں خاص کر اکثر ناصح بے عمل رہے۔ اس کے برخلاف پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی قول و فعل کی یکسانی ، ہمہ جہت حیثیت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی ہی میں کامیابی کے لحاظ سے ایک بے مثل چیز ہے کہ دعوی بھی ہے اور اس کا ثبوت بھی۔”
عہد نبوی میں نظام حکمرانی، ڈاکٹر حمید اللہ ]
رسول اللہ ﷺ کی ہمہ جہت شخصیت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ نے خصوصاً رسول اللہ ﷺ کی سیاسی بصیرت ، آپ ﷺ حیثیت سپہ سالار، به حیثیت منتظم و مدبر، معلم اخلاق، معاشی و معاشرتی مصلح کے مختلف پہلو بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ان تمام شعبوں میں حضور کریم صلی علیم نے بہترین رول ادا کیا۔ [ ایضا ] ڈاکٹر حمید اللہ حضور پاک ﷺ کی ہمہ جہت ہستی کے ان پہلوؤں کو بیان کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں یہ دنیوی پہلو تھا۔ اسلام کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ دین و د نیا دونوں کی بہ یک وقت بھلائی چاہتا ہے۔ روحانی ترقی اور تزکیۂ نفس کے لئے توحید سے بڑھ کر کوئی وسیلہ نہیں ہو سکتا۔” [ ایضا ]
رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات اور آپﷺ تعلیم کی ضرورت اس لئے ہے کہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لئے بہترین رول ماڈل یا نمونہ حیات ہے۔ دنیاوی معاملات میں گھریلو زندگی کی بہتری سے لے کر اصول حکمرانی تک رہنمائی کے تمام پیلور سول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں موجود ہیں۔ ان دنیوی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ آدمی کو ہمیشہ تزکیہ نفس اور روحانی ترقی کی بھی ضرورت رہتی ہے چنانچہ اس بارے میں بھی رسول اللہ صلی عوام کی تعلیمات میں واضح رہنمائی موجود ہے۔
اس تفصیل سے ہمارے سامنے یہ بات آئی کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں ہماری دنیاوی معاشرتی ، اخلاقی ، معاشی و تہذ ہی بہتری کے لئے رہنمائی بھی موجود ہے اور روحانی ترقی (تزکیہ نفس، ایمان کی پختگی اور رسول اللہ ﷺ سے عشق و محبت) کی رہنمائی بھی ملتی ہے۔
میں نے اپنے مقالہ میں اس روحانی پہلو پر روشنی ڈالی ہے بعد میں اسی کو تصوف کا نام مل گیا۔
تصوف کے متعلق صوفیائے کرام کے مختلف اقوال منقول ہیں ان اقوال کی تفصیل پہلے باب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ تصوف کا مطلب اپنا تزکیہ نفس کرنا اور باطنی۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2017