Daily Roshni News

سلیقہ شعار بیٹیاں ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

سلیقہ شعار بیٹیاں

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نویز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلیقہ شعار بیٹیاں ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )پچھلے کچھ دنوں سے بہت سے آرٹیکلز پڑھنے کو ملے جن پر حیرت ہوئی کیونکہ چند دین دار خواتین بھی اس مسئلے پر بول رہی تھیں۔اور ٹاپک ہے وہ والدین جو شادی سے پہلے اپنی بیٹیوں کو گھر کے کاموں کی تربیت نہیں دیتے اور رشتہ لینے کے لیے آنے والوں کو بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں:” ہماری بیٹی کو گھر کے کام نہیں آتے، ہم اسے کوئی کام کرنے نہیں دیتے کیونکہ یہ پڑھ رہی ہے بہو سارے کام کرتی ہے، یا اسے تو کچھ بھی نہیں آتا۔” اس پر اعتراض یہ ہے کہ اگر لڑکی یونیورسٹی کی اسائنمنٹس کے لیے بھاگ دوڑ کر سکتی ہے جاب کر سکتی ہے تو گھر کے کام کیوں نہیں سیکھ سکتی؟ اور اگر لڑکے والے کہیں کہ “ہمارا لڑکا تو کام نہیں کرتا کیونکہ پڑھ رہا ہے، داماد کما رہا ہے اس لیے ہمارا بیٹا کام نہیں کرتا ” تو لڑکی والے کیا کریں گے۔

    توسادہ سا جواب تو یہ ہے کہ قرآن حدیث میں کہیں نہیں لکھا کہ لڑکی گھر کے کاموں میں طاق ہو گی تو ہی شادی کے قابل ہو گی۔ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے نو سال کی عمر میں شادی نہ کرتے نہ ہی غلاموں اور نو بیویوں کے ہوتے ہوئے اپنے سارے کام خود کرتے نہ ہی بیگمات کی گھر کے کاموں میں مدد کرتے۔ اور اگر وہ سب کام نہیں کرتی تھیں تو انہیں نعوذ باللہ الگ کر دیتے۔اور کفالت کی ذمہ داری قرآن میں اللہ نے خود مرد کو دی ہے یہ لڑکی کے والدین کا فیصلہ نہیں۔اس لیے نکمے بے روزگار لڑکے کو رشتہ نہ دینا ایک ویلڈ جواز ہے۔

    اب آ جائیں زمینی حقائق کی طرف میں اپنی اور اپنے خاندان دوست احباب کی مثالیں دوں گی مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہمارے معاشرے میں بھی ہو رہا ہے۔مجھے پڑھائی کا شوق تھا گھر کے کاموں میں بالکل دلچسپی نہیں تھی لہذا سوائے چند کھانوں کے کچھ بنانا نہیں آتا تھا اور گھر کا کام تبھی کرتی تھی جب والدہ کہیں گئی ہوں۔الحمدللہ شادی کے چند دن بعد 50 لوگوں کی کھانے کی دعوت کا سارا کام خود کیا۔ سب کی تعریفیں سمیٹیں۔اور آج تک گھر کا ہر کام خود ہی کر رہی ہوں۔ سی سیکشن کے تیسرے دن ہاسپٹل سے گھر آ کر سارے کام خود ہی کیے ہیں کوئی ہیلپر یا رشتہ دار مدد کے لیے موجود تھے نہ ہی شوہر کو ہل کر پانی پینے کی عادت ہے۔

    میرے سارے بہن بھائی گھر کے ہر کام میں خصوصا کھانا بنانے میں ماہر ہیں اور اپنے شوق سے کام کرتے تھے والدین نے کبھی فورس نہیں کیا کہ کام کریں یا اسپیشلی سکھایا نہیں۔میری نند نے اپنی بیٹیوں سے کبھی کوئی کام نہیں کروایا کہ سسرال جا کر ساری زندگی یہی کام کرنا ہے۔الحمدللہ ساری بچیاں جاب بھی کرتی ہیں گھر کے سارے کام بھی اور بچے بھی پال رہی ہیں۔اس سے ثابت ہوا کہ والدین کچھ سکھائیں یا نہ سکھائیں چند لڑکیاں اپنے گھر کے شوق میں اور باقی سسرال کے طعنوں اور طلاق کے خوف سے گھر کے سارے کام کر ہی لیتی ہیں۔

    رہ گئی گھر پھوہڑ پن کی وجہ سے برباد ہونے کی بات تو اللہ جانتا ہے میں نے ایسی خواتین بھی دیکھی ہیں جو گھر کی صفائی ، کھانا بنانا یا دیگر کام تو کیا اپنے آپ کو بھی صاف نہیں رکھ سکتیں۔گھر کے کام تو کیا بچوں کی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتیں حالانکہ نہ تعلیم یافتہ ہیں نہ ورکنگ نہ امیر نہ خوبصورت اور قسمت ایسی ہے کہ دو سے چار نوکر ہیں شوہر کوآپریٹو ہیں اور پیسے کی کمی نہیں۔ اور ایسی خواتین بھی جو ہر کام میں طاق ماڈل لکس والی، اعلی تعلیم یافتہ، سگھڑ، تمیز دار، باکردار، دین دار، ساری تنخواہ شوہر اور سسرال کے قبضے میں، شوہر کے نامحرموں سے تعلقات بھی پھر بھی جوتے کھاتی ہیں اور طلاق تک ہو جاتی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر آپ اپنی کھال کے جوتے تک بنا کر خود سسرال اور شوہر کے پاوں میں پہنائیں اور اسی سے پھر مار بھی کھائیں جنہوں نے خوش نہیں ہونا وہ ناخوش ہی رہتے ہیں۔تو بیٹی کا بسنا سراسر قسمت پر منحصر ہے اس کے سگھڑاپے پر نہیں۔

    میرا ایسے تمام والدین کو ایک مشورہ ہے جو بہو کو بیٹی بنا کر نہیں بلکہ ماسی بنا کر لانا چاہتے ہیں کہ  لڑکی والوں کو دوٹوک بتائیں کہ لڑکی کس کس کام میں ماہر ہو۔اگر والدین سمجھیں کہ ایسا نہیں بنا سکتے تو وہاں شادی مت کریں بلکہ کسی ہیلپرز مہیا کرنے والی کمپنی سے رجوع کریں اور وہاں سے بہترین ماسی بیاہ لائیں۔آپ بھی خوش اور وہ بھی خوش۔کیونکہ والدین کے لیے اپنی انسان بیٹی کو روبوٹ بنانا ممکن ہوتا ہے نہ ہی ہر لڑکی ہر کام میں ماہر ہو سکتی ہے۔مجھے اپنی چھوٹی بہن کے دو پرپوزلز یاد آ گئے۔ایک خاتون آئیں تو اپنے کینیڈا میں موجود بھائی کی تعریفوں کے پل باندھنے کے بعد بولیں: “69 لڑکیاں دیکھی ہیں آپ کا گھر سترواں ہے مجھے آپ کی بیٹی پسند آ گئی ہے۔”

میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے انہیں جواب دیا تھا:” جو ڈیمانڈز آپ کی ہیں کہ پندرہ سولہ سالہ لڑکی، ماسی کم ماڈل، دین دار اور دولت مند ، لمبی پیاری وغیرہ وغیرہ یہ دنیا میں ایک لڑکی میں تو ممکن نہیں آپ اللہ تعالٰی سے آرڈر پر بنوا لیں اور تشریف لے جائیں۔”

   دوسری خاتون کی پانچ بیٹیاں تھیں اور ایک ہی بیٹا جو دوبئی میں جاب کرتا تھا۔میری والدہ کے پیچھے ہی پڑگئیں کہ رشتہ دے دیں۔والدہ مجھے ساتھ لے کر گئیں۔روزہ کھلنے میں کچھ دیر تھی، ان لوگوں کے اصرار پر میں ایئرپورٹ سے گھر پہنچی اور والدہ کے ساتھ سیدھا ان کے گھر گئی کہ انہیں شادی کی بہت جلدی تھی، ڈرائنگ روم کی حالت ابتر تھی جب کہ خواتین پوری تیاری میں تھیں۔ہمیں افطاری میں اسٹیل کی ایک کٹوری میں چند کھجوریں اور پکوڑے پیش کیے گئے بغیر سرونگ پلیٹس کے اور اسٹیل کے گندے گلاسوں میں روح افزاء۔جسے ہم نے نہیں پیا کہ گندگی سے سخت چڑ ہے۔بس کھجور لے کر روزہ کھول لیا۔اب جو والدہ صاحبہ نے بیٹے اور اپنے اور بیٹیوں کی تعریفیں شروع کر کے ختم ہی نہ کر رہی تھیں میں نے لڑکے کی جاب اور بیوی کو لے جانے کا پوچھا تو فرمانے لگیں:” مجھے تو ایسی بہو چاہیے جو بالکل سادی ہو شلوار اور ، قمیض اور اور دوپٹہ اور ہو گھر کے کاموں میں اتنی بزی ہو کہ کپڑے بدلنے کی بھی فرصت نہ ہو۔اور رہے گی تو ہمارے ساتھ ہی آخر کو پانچ بہنیں بیاہنی ہے اسے۔” جس پر میں نے انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں سے سارے کام لے لیں کیوں ایک اور بندے کے کھانے پینے کا خرچہ کرتی ہیں جب بیٹیاں بیاہ لیں تو میڈ رکھ لیں کیونکہ ہمیں بیٹی کی شادی کرنی ہے اسے بیگار میں نہیں دینا۔”آج میری وہ بہن نیوزی لینڈ میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے۔

    تو جناب اس بحث سے نکل آئیے کہ لڑکی سگھڑ نہیں۔بس اس کا اور اس کی فیملی کا دین، شرافت، تعلیم اور لڑکی کی فطرت دیکھیے، شکل بھی میٹر کرتی ہے مگر اس پر اس کا زور نہیں اللہ کی بنائی مخلوق ہے اس لیے اسے مارجن دے دیجئے، اور اللہ کا نام لے کر بیاہ لیجئے۔آپ کے گھر میں آپ اور آپ کا بیٹا اسے پیار عزت اور اپنائیت کا احساس دیں گے تو یقین مانیے وہ خوشی سے آپ سب کی خدمت بھی کرے گی اور گھر کے سب کام بھی۔لیکن اگر آپ اسے باہر سے لایا ہوا اجنبی بندہ اور ماسی ، کمتر مخلوق، لڑکے والے ہونے کے ناطے اپنے آپ کو برتر اور اسے اور اس کے خاندان کو ذلیل کرنے کا لائسنس رکھنے والے سمجھیں گے تو پھر تو اچھی خاصی سگھڑ بہو بھی متنفر ہو کر بھاگ جائے گی۔

   نہ تو آج وہ دور ہے جب خواتین اپنے حقوق سے ناآشنا تھیں اور کسی بھی وجہ سے چپ چاپ گزارہ کر لیتی تھیں نہ ہی آج کی عورت بے بس و لاچار ہے اس لیے کسی کا صبر اتنا ہی آزمائیے جتنی اگلے میں برداشت ہو۔میری ایک بہت اچھی قاری کو اپنی بہو سے شکایت ہے کہ وہ گھر کے کاموں میں بالکل دلچسپی نہیں لیتی تو میرا مشورہ انہیں یہ ہے کہ جیسے بیٹیوں کو کام سکھایا تھا اور ان کے ذمے کام لگایا تھا ویسے ہی اسے بھی سکھائیں اور بتائیں کہ بیٹا اب یہ یہ کام آپ کو کرنے ہیں۔اور اگر افاقہ نہ ہو اسے کمرے میں ہی کچن کا سامان دیں یا کسی دوسرے گھر میں شفٹ کر کے الگ کر دیں۔پھر دیکھیں کمال۔آج کل تو دنیا کے ہر کام کے لیے مشینیں دستیاب ہیں جتنا خرچہ آپ نے بری زیور ولیمے پر کرنا ہے مت کریں سادگی سے دو کپڑوں میں بہو لے آئیں۔شربت کے ایک گلاس پر گھر میں ہی ولیمہ کر لیں۔اور ان سب پیسوں سے گھر کے کام کے لیے آٹو میٹک مشینز خرید لیں اللہ اللہ خیر سلا۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا۔

Loading