سورت “طارق” کی آیت نمبر 8 تا 12 کی روحانی فہم اور اسکی تفسیر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قران مجید کی چھیاسیویں مکی سورت “طارق” کی آیت نمبر 8 تا 12 کی روحانی فہم اور اسکی تفسیر پیش کی جارہی ہے ۔اِنَّہٗ عَلٰی رَجۡعِہٖ لَقَادِرٌ ؕ﴿۸﴾
بیشک وہ رجوع کرانے پر قادر ہے۔
یَوۡمَ تُبۡلَی السَّرَآئِرُ ۙ﴿۹﴾
جس دن اسرار کھول دیئے جائیں گے۔
فَمَا لَہٗ مِنۡ قُوَّۃٍ وَّ لَا نَاصِرٍ ﴿ؕ۱۰﴾
تو اس کے لئے نہ قوت ہوگی اور نہ کوئی مددگار ہوگا۔
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ ﴿ۙ۱۱﴾
قسم ہے آسمان کی جس کی ذات رجوع کرنا ہے ۔
وَ الۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ ﴿ۙ۱۲﴾
قسم ہے زمین کی جس کی ذات ٹکڑے ہیں ۔
سورہ طارق کے روحانی اسرار و رموز کے حوالے سے یہ تیسری پوسٹ ہے پچھلی دو پوسٹس کا لباب یہ تھا
” آسمان یعنی لاشعور میں کام کرنے والی روشنی طارق ایسا ادراک ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے جو غیب وشہود یعنی لاشعور اور شعور کی حقیقت کو سامنے، لاتی ہے، آسمان، زمان، نفی، خلاء، فاصلہ، وقت، دہر ایک ہی چیز یا رخ کے مختلف نام ہیں، دوسری طرف زمین، مکان، مادہ، اثبات، وجود، اسپیس، شہود، وغیرہ بھی ایک ہی چیز یا رخ کے مختلف نام ہیں، یہی دو رخ ہیں جن سے ملکر کائنات وجود میں آئی ہے، یہی دو اجزاء عرف عام میں زمین واسمان، زمان ومکان، ٹائم اینڈ اسپیس، غیب وشہود، نفی اثبات بطور اصطلاح استعمال کیے جاتے ہیں، انسان کے جسم میں روشنی “طارق” یا کرنٹ ریڑھ کی ہڈی “صلب” اور دل ” ترائب” کے اندر کام کرتی ہے جو خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتی ہے، اس کرنٹ یا الیکٹریسٹی کا اچھال، دباو، قوت کو “دافق” بولا جاتا ہے، جسے روحانی علوم میں نسمہ، ماء یا پانی کا نام دیا جاتا ہے، زمان یا آسمان سے مکان یا زمین وجود میں آتی ہیں “
آیت نمبر 8 اللہ تعالٰی کی صفات ” قادر ” کا تذکرہ کیا جارہا ہے، زمین واسمان کا نزول جسے مقام پر ہوتا ہے وہ واپس اسی کے اندر رجوع یا داخلہ ہوتاہے، زمان ومکان کے عروج ونزول کا نظام قدرت یا آللہ تعالٰی کی “صفت قادر” کے تحت جاری ہے، جب کوئی سالک یا مرید اللہ تعالٰی کی صفت قادر کے تحت نظام قدرت کے اندر تفکر کرتا ہے تو “صفت قدیر اور مقتدر” یعنی مقداروں کے اسرار و رموز کا انکشاف ہوتا ہے، یوم حرکت یا نظام کو کہتے ہیں جو دراصل حواس ہیں جو کائنات کے اسرار و رموز کا مشاہدہ کرتےہیں آیت نمبر 9 میں کائنات کے انہی اسرار و رموز کو کھولنے کی طرف متوجہ کیا گیا، جب کوئی اللہ کی صفات قادر، مقتدر اور قدیر کے تحت نظام قدرت کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو اس کے لئے کسی قوت اور مدد کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ “صفت قادر” بذات خود ہر چیز کو متحرک کرنے یعنی جاری رکھنے یا واپس لینےکی صلاحیت رکھتی ہے، صفت اسم قادر ، قدیر اور مقتدر کا مراقبہ اس سارے نظام کے اسرار و رموز کو کھول کر بیان کر دیتا ہے ۔ ایت نمبر 10 میں سالک کی اسی کیفیت، حالت یا حرکت کا انکشاف کیا گیا ہے، ایت نمبر 11 میں آسمان، زمان یا لاشعوری نظام کی قسم کھائی گئی ہے جو واپس اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے،
قران مجید میں تین اقسام آسمان اور ان کی ذات، لاشعوری کیفیت یا حالت بیان کی گئی ہیں،
1۔ وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الۡحُبُکِ ۙ﴿ذاریات۔7) قسم ہے آسمان کی جس کی ذات کشش ہے ۔
2۔وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ(1)
قسم ہے آسمان کی جس کی ذات بروج( روشنی کی گزر گاہ ) ہے
3۔ وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِۙ
قسم ہے آسمان کی جس کی ذات رجوع کرنا ہے،
مندرجہ بالا آیات لاشعوری نظاموں کی روشنیوں اور انورات و تجلیات سے متعارف کراتی ہیں، چونکہ آسمانوں کا تعلق علم نبوت ورسالت کے مدارج کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے، قران کے بیان کردہ سات آسمان یا لاشعور کے سات مدارج ہیں جو سالکین کی رہنمائی کے لئے انبیاء کے نام پر رکھے گئے ہیں
امام سلسلہ عظیمیہ، ابدال حق، حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ لوح و قلم کے صفحہ 214، بعنوان ” انبیاء کے مقامات” میں ارشاد فرماتے ہیں
” انبیاء کے بارے میں مراتب کا جو تعین کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے اور فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے یہ لاشعور ہی کے متعارف مراتب کا تذکرہ ہے، تمام آسمانی حدیں کسی فصل یا کسی سمت کی بنا پر متعین نہیں ہیں بلکہ لاشعور کی بنا پر متعین ہیں “
معراج یعنی غیبی مشاہدات کی سیر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کے مقامات اس طرح بیان فرمائے ہیں
- پہلا آسمان
حضرت آدم علیہ السلام
- دوسرا آسمان
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام
- تیسرا آسمان
حضرت یوسف علیہ السلام
- چوتھا آسمان5. حضرت ادریس علیہ السلام
- پانچواں آسمان
حضرت ہارون علیہ السلام
- چھٹا آسمان7. حضرت موسیٰ علیہ السلام
- ساتواں آسمان
حضرت ابراہیم علیہ السلام
اگرچہ آسمانی دنیا یا غیب کی دنیا کے بہت سے مقامات اور بھی ہیں جن کا ذکر کسی اور موقع پر کیا جائے گا سور طارق کی آیت نمبر 11 میں لاشعوری یا غیب کے جتنے بھی زون ہیں وہ واپس اللہ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں، چونکہ آسمان، زمان یا لاشعور کا مظاہرہ یا دوسرا رخ، زمین، مکان یا شعور ہے اس لئے ایت نمبر 12 میں جس زمین کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اسکی قسم کھائی گئی ہے وہ بروج، حبک، رجوع والے آسمانوں کا نزول ہے، وہ زمین جس کی ذات صدع یعنی ٹکڑے، حالت یا مختلف مظاہرات ہیں اس پر انہیں آسمانوں کے علوم کا ٹکڑوں میں نزول اور مظاہرہ ہوتا ہے۔
سورہ طارق کی مندرجہ بالا آیات میں کائنات کے تخلیقی نظام کے نزول و صعود یا عروج ونزول اور انکے مشاہدات کی وضاحت کی گئی ہے۔
انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں سورہ طارق کی آیت نمبر 13 تا 17 کی روحانی تشریح پیش کی جائے گی۔