Daily Roshni News

سورہ البقرہ۔۔۔ ترجمہ اور تفسیر ۔۔۔ حمیرا علیم ۔۔۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔سورہ البقرہ۔۔۔ ترجمہ اور تفسیر ۔۔۔ حمیرا علیم ۔۔۔۔۔۔)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمْ اٰمِنُـوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْآ اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ۗ اَ لَآ اِنَّـهُـمْ هُـمُ السُّفَهَآءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ (13) ↖

اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں، خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے۔

وَاِذَا لَقُوا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيَاطِيْنِـهِـمْ قَالُوْآ اِنَّا مَعَكُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُوْنَ (14) ↖

اور جب ایمانداروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم توتمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف ہنسی کرنے والے ہیں۔

اَللَّـهُ يَسْتَهْزِئُ بِـهِـمْ وَيَمُدُّهُـمْ فِىْ طُغْيَانِـهِـمْ يَعْمَهُوْنَ (15) ↖

اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنی گمراہی میں حیران رہیں۔

اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ اشْتَـرَوُا الضَّلَالَـةَ بِالْـهُـدٰى فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُـمْ وَمَا كَانُـوْا مُهْتَدِيْنَ (16) ↖

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی سو ان کی تجارت نے نفع نہ دیا اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔

مَثَلُـهُـمْ كَمَثَلِ الَّـذِى اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا اَضَاءَتْ مَا حَوْلَـهُ ذَهَبَ اللّـٰهُ بِنُـوْرِهِـمْ وَتَـرَكَـهُـمْ فِىْ ظُلُـمَاتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ (17) ↖

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی بجھا دی اور انہیں اندھیروں میں چھوڑا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُـمْ لَا يَرْجِعُوْنَ (18) ↖

بہرے گونگے اندھے ہیں سو وہ نہیں لوٹیں گے۔

اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيْهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَـرْقٌ ۚ يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُـمْ فِىٓ اٰذَانِـهِـمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللّـٰهُ مُحِيْطٌ بِالْكَافِـرِيْنَ (19) ↖

یا جیسا کہ آسمان سے بارش ہو جس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہو ،اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں کڑک کے سبب سے موت کے ڈر سے دیتے ہوں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

يَكَادُ الْبَـرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَهُـمْ ۖ كُلَّمَآ اَضَآءَ لَـهُـمْ مَّشَوْا فِيْهِ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْـهِـمْ قَامُوْا ۚ وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِـمْ وَاَبْصَارِهِـمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (20) ↖

قریب ہے کہ بجلی ان کے آنکھیں اچک لے، جب ان پر چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو ٹھر جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں لے جائے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر
1: منافقین مدینہ کا ذکر ہے کہ جب انہیں کہا جاتا تھا کہ صحابہ کرام کی طرح ایمان لائیں عمل کریں تو وہ طنز کرتے مذاق اڑاتے اور انہیں بے وقوف کہتے۔آج بھی اگر کوئی اسلام پر عمل کرے تو ہم اسے شدت پسند اور بے وقوف کہتے ہیں۔جب کہ اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو بے وقوف کہتا ہے۔یہ منافقین جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں ہوتے تو کہتے ہم ایمان لائے ہیں لیکن جب ک ف ا ر کے ساتھ ہوتے تو کہتے ہم تو مسلمانوں کوپاگل بنا رہے ہیں ان کا مذاق اڑاتے۔ اللہ تعالٰی کہتا ہے کہ یہ نہیں بلکہ اللہ ان کا مذاق اڑا رہا ہے۔اس کی ایک مثال آج کے مسلمان، اسرائیل اور امریکہ ہیں۔مسلمان اور امریکہ اسرائیل کی مدد کر کے اپنے ہی بھائیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔اسرائیل اور امریکہ خود کو مصلح کہتے ہیں اور ہم مسلمان منافقت کر رہے ہیں۔منافقین کو اللہ ڈھیل دیتا ہے ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔حدیث کے مطابق جب لوگ نصیحت بھلا دیتے ہیں تو ان پر دنیاوی آسائشوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔جب لوگ ان چیزوں پر اترانے لگتے ہیں تو اچانک پکڑ ہو جاتی ہے۔
2: منافقین ہدایت کے بدلے میں گمراہی خریدتے ہیں۔ان کی مثال ایک اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں آگ لگاتا ہے جب اسے چیزیں نظر آنے لگتی ہیں تو آگ بجھ جاتی ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ گئےانہوں نے اسلام کی روشنی پھیلائی مگر منافقین نے اسکا انکار کیا۔ منافقین کی اقسام میں عتقادی منافق اور عملی منافق شامل ہیں۔ یہود نے تورات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت جاننے کے باوجود صرف اس وجہ سے ان کو نہیں مانا کہ نبوت بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں کیوں چلی گئی۔حسد، ضد، انا اور تعصب کی وجہ سے حق کا انکار کر دیا۔ قرآن بتاتا ہے:” وہ آپ کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو۔” ہم بھی روز قرآن پڑھتے ہیں اللہ تعالٰی کے احکام جانتے ہیں مگر دل نہیں کرتا تو عمل نہیں کرتے۔ہم عملی منافق ہیں۔ایسے منافق کے کان آنکھ زبان پر پردہ پڑ جاتا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔وہ یہ کہتا ہے میں سب جانتا ہوں مجھے کسی اور سے سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔درحقیقت وہ اسلام کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔
3: ایسے منافقین جو ڈانواں ڈول ہیں۔ان کی مثال بارش سے دی گئی ہے۔جب گہرے بادل ہوتے ہیں تو بارش ہوتی ہے۔کبھی ساتھ میں کڑک اور بجلی بھی ہوتی ہے۔اسلام کی بارش میں اوامر و نواہی، خوشی و عذاب کے بارے میں بتایا گیا تو یہ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے ہیں کہ نہ سنائی دے نہ ہی عمل کرنا پڑے۔نہ ہی اپنی ذات، خواہشات، مال کی قربانی دینی پڑے۔یہ عملی منافقین ہیں جو کبھی اسلام پر عمل کر لیتے ہیں اور کبھی نہیں۔ان کو چانس دیا گیا تاکہ وہ پلٹ آئیں۔جیسے سفاری پارک میں جانور سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں مگر وہ قید میں ہی ہوتے ہیں۔ویسے ہی منافق سمجھتا ہے اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔مگر اسے قیامت تک ڈھیل دی گئی ہے۔
4:اللہ تعالی ان سے ہدایت چھین بھی سکتا ہے۔جیسے بوتل پر ڈھکن لگا دیا جائے تو نہ کچھ اندر جا سکتا ہے نہ باہر آ سکتا ہے۔منافق آنکھ کان بند کر لیتا ہے تو اس کے دل دماغ پراسلام کا اثر نہیں ہوتا۔جب منافقین دیکھتے کہ مسلمان فتح یاب ہیں تو مال غنیمت کے لیے ساتھ ہو جاتے۔جیسے بدر میں کیا۔لیکن جنگ خندق و تبوک میں سختی دیکھی تو بہانہ بنا کر جنگ پر نہیں گئے۔ہم بھی آج اپنی خواہشات، مرضی ، جان اور مال کی قربانی دینی پڑے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ایسے احکام کو قرآن حدیث ماننے سے انکار کر کے کہتے ہیں یہ ترجمہ ہی غلط ہے۔حدیث من گھڑت ہے۔جب لوگوں کو قرآن حدیث سنایا جائے تو کہتے ہیں مت بتاو سن لیا تو عمل کرنا پڑے گا۔ایک آیت میں اللہ تعالی کہتے ہیں:” یہ لوگ قیامت کے دن کہیں گےکاش ہم سن لیتے اور سمجھ لیتے تو جہنم میں نہ ہوتے۔
5: روز قیامت انسانوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔حدیث ہے۔
“دل چار قسم کے ہوتے ہیں:
1۔صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو۔
2۔ جو غلاف آلود ہوں۔
3۔ جو الٹے ہیں۔
4۔ جو مخلوط ہیں۔
پہلا دل مؤمن کا ہے جو نورانی ہے۔
دوسرا دل کافر کا ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔
تیسرا منافق کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے۔
چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان اور نفاق دونوں جمع ہیں۔”
عمل: اپنا تجزیہ کرنا ہے کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں۔آنکھ ، کان، دماغ، دل ، زبان کا درست استعمال کرنا ہے۔ روزانہ شکر ادا کرنا ہے ہر چھوٹی بڑی چیز کے لیے ۔دعا کرنی ہے۔ہدایت کے حصول کے لیے کوشش کرنی ہے۔قرآن حدیث فقہ ترجمہ تفسیر شرح کے ساتھ پڑھ کر سمجھ کر عمل کرنا ہے اللہ سے محبت کرنی ہے۔کیونکہ محبوب کے لیے کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔جیسے ماں اپنے بچوں کے لیے یا بیوی شوہر کے لیے 24/ 7 کام کرنے کو تیار رہتی ہے۔اپنی پسند بھول کر شوہر کی پسند کے مطابق بن جاتی ہے ویسے ہی جب بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو اس کے احکام پر عمل کر کے اس کی پسند کا بندہ بننے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔اپنے دل سے شک نکالنا ہے کیونکہ حدیث ہے۔اگر دل درست ہو تو جسم درست ہوتا ہے دل بگڑ جائے تو جسم بھی بیمار ہو جاتا ہے۔اور دل کا،مرض یعنی منافقت تو ہوتی ہی اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے ہے۔
کسی دوست، بہن بھائی، رشتے دار یا بچے کو یہ سب بتائیے تاکہ آپ کے ساتھ کوئی یاد دہانی کروانے والا ہو اور عمل آسان ہو جائے۔ویسے بھی یہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اسلام دوسروں تک پہنچائے خواہ ایک آیت یا حدیث ہی جانتا ہو۔آپ اس سب کو فیس بک پر شیئر کریں یا فون پر یا زبانی مگر شیئر ضرور کریں۔
جزاکم اللہ خیرا

Loading