سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ
تحریر۔۔۔سید علی جیلانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ۔۔۔ تحریر۔۔۔سید علی جیلانی)رجب مبارک حضرت علی کی ولادت مبارک کا مہینہ ہے ایسی ولادت جو نہ پہلے ہوئی نہ قیامت تک ہوگی مسلمان رجب کے مہینے میں فرض عبادات کے ساتھ نفلی عبادات اور روزے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اَجرعظیم اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں اِس عظیم جا نثار خوش بخت نوجوان جن کو محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور جن کی نسبت کو اِس نسبت سے تشبیہ دی جو حضرت موسی کو حضرت ہارون سے تھی سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب تھے سیدنا علی کی ولادت (599 – 661) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں بعثت نبوی سے دس سال پہلے جمع المبارک کے دن مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے اندر ہو ئی یہ سعادت صرف اور صرف آپ کے حصے میں آئی آپ کا نام علی کنیت ابوالحسن ابوتراب القابات مرتضیٰ اسداللہ حیدرکرار شیرخدا اورمولامشکل کشا ہیں آپ کے والدکا نام ابوطالب جو حضرت عبدالمطلب کے بیٹے اورآقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ہیں آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت اسد جوحضرت عبدالمطلب کی بھتیجی تھیں آپ کی والدہ کا نکاح ابوطالب سے ہوا تھا آپ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی اورداماد بھی ہیں شیرِ خدا جنہیں برس ہا برس تک محبوب خدا ۖ کی آغوش نصیب ہوئی نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا جن کی پیشانی پر دور جہالت میں بھی بت پرستی کا داغ نہ لگا جو خدا کے آخری نبی کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ آپ کی شادی اس جگر گو شہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سے ہوئی جن کے احترام میں سردار الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو جایا کرتے تھے حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کی ذریات اسکی پُشت میں رکھی ہے لیکن میری ذریات علی کی پشت میں ہے ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریمۖنے جب حضرت سیدہ فاطمة الزہرا کانکاح حضرت سیدناعلی المرتضیٰ سے کیاتوحضرت سیدہ فاطمہ نے عرض کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرانکاح اس شخص کے ساتھ کردیا جس کے پاس نہ مال ہے نہ گھر؟اس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمة الزہرا سے فرمایا کہ اے فاطمہ میں نے تیرانکاح ایسے شخص سے کیا جومسلمانوں میں علم وفضل کے لحاظ سے سب سے دانا اوربہترین ہے فتح خیبر کا عظیم اعزاز بھی آپ کا مقدر بنا جن صاحبزادوں میں ایک امام حسن ہیں روحانیت اور تصوف کے سلسلے کے شہنشاہ اور اس سلسلے کے سرچشمہ آغاز تھے حضرت علی کی حکومت صحیح معنوں میں اسلامی حکومت تھی اور آپ نے حکومت کی ذمہ داری اسی شرط پر قبول کی تھی کہ اسے اسلامی قالب میں ڈھالنے اور منہاج نبوت پر چلانے میں کوئی دخل انداز ہونے کی کوشش نہ کرے چنانچہ آپ نے حالات کی تبدیلی اور انسانی مزاج کی تغیر پذیری کے باوجود حکومت الہٰیہ کے تقاضوں کے مطابق حکومت کی تشکیل کی اور پیغمبر اکرم کے طرز جہانبانی پر اپنی حکومت کی اساس رکھی اگرچہ آپ کا دور حکومت انتہائی مختصر تھا مگر تھوڑے عرصے میں بھی اسلامی حکومت کے خدوخال کو اس طرح نمایاں کر کے دنیا والوں کے سامنے پیش کیاکہ دور نبوی کی تصویرآنکھوں کے سامنے دوبارہ زندہ ہو گئی اگر آپ زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں نہ لیتے تو مسلمانوں پر حکومت اسلامیہ کا مفہوم روشن نہ ہوتا اور اسے بھی مادی حکومتوں کی طرح ایک حکومت تصور کر لیا جاتا حضرت علی کی اسلامی حکومت سے غرض و غایت یہ تھی کہ ایک حق کا قیام اور دوسرا باطل کا خاتمہ۔ آپ نے اپنے عہد اقتدار میں انہی دو چیزوں کو پیش نظر رکھا او راپنا زمانہ حکومت حق کی سر بلندی اور باطل و ظلم کی سرکوبی کیلئے وقف کر دیا۔ آپ کاشمارعشرہ مبشرہ میں ہوتاہے آپ حضوراکرمۖکی سیرت کاآئینہ تھے یہی وجہ ہے کہ میرے محبوب ۖنے فرمایا”علی کے چہرے کودیکھنا بھی عبادت ہے”آپ قرآن مجید کے حافظ تھے قرآن مجید کے معانی ومطالب پرآپ کوعبورحاصل تھا آپ علم فقہ کے ماہرتھے مشکل سے مشکل فیصلے بھی قرآن وسنت کی روشنی میں حل کرلیتے ۔آقاۖکافرمان عالی شان ہے “میں علم کاشہرہوں اورعلی اس کا دروازہ ہے”آپ سے پانچ سوچھیاسی احادیث مبارکہ روایت ہیں جن میں بیس متفق علیہ نوبخاری کی اورپندرہ مسلم میں ہیں ۔آپ نے ساری زندگی رزق حلال کما کرکھایا آپ محنت مزدوری میں کچھ عارمحسوس نہیں کرتے تھے جس وقت آپ ایمان لائے اسوقت آپ کی عمردس بارہ سال تھی سواغزوہ تبوک کے سارے غزوات میں آپۖ کے ساتھ شریک ہوئے ۔غزوہ تبوک میں آپۖنے مدینہ منورہ اوراپنے گھربارکاانتظام فرمانے کے لئے مدینہ میں چھوڑاتھا حضرت سعدبن ابی وقاص سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمۖ نے غزوہ تبوک کے موقع پرحضرت سیدناعلی المرتضیٰ کومدینہ منورہ میں اپناقائم مقام مقررفرمایا ملکی نظم ونسق کے سلسلہ میں سب سے اہم کام عمال کی تقرری کا تھا جسے آپ نے نہا یت بااہتمام خاص مد نظر رکھا۔جب کسی عامل کو مقرر کرتے تھے تو اس کو نہایت مفید اور گراں بہا نصائح کرتے تھے۔ وقتاًفوقتاً اعمال و حکام کے طرز عمل کی تحقیقات کرتے، اعمال کے اسراف اور مالیات میںان کی بدعنوانیوں کی سختی سے بازپرس فرماتے۔حافظ ابن عبدالبرنے لکھا کہ ”حضرت علیانہی لوگوں کو والی اور حاکم مقرر کرتے جو امین اور دیانت دار ہوتے۔” اسلام جو پر امن زندگی کا داعی اور حیات انسانی کا پاسبان ہے قتل ناحق کو انتہائی سنگین جرم قرار دیتا ہے آپ نے خدمت خلق کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں کو مالی امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنی ضرویات کو نظرانداز کرکے دوسروں کی حاجت روائی کرتے اور کسی سائل کو اپنے ہاں سے خالی نہ جانے دیتے۔ یتیموں سے اس طرح پیش آتے کہ انہیں یتیمی کا احساس نہ ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت شہادت ان کے جنازے میں سینکڑوں یتامیٰ و مساکین کی تعداد سوگواری کی حالت میں موجود تھی مدنی زندگی کے تمام غزوات میں شیر خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہ نبی ۖ کے دست راست رہے بدر،احد اور خندق کے معرکوں میں آپ نے عزم و ہمت اور شجاعت و جوانمردی کی عظیم الشان تاریخ رقم کی،صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ ہی نے تحریر کیا۔معرکہ خیبر میں تو مرحب جیسے بدمعاش پہلوان سے نپٹنا صرف آپ کا ہی خاصہ تھا،آپ نے اسکے وار کے جواب میں ایسا وار کیا کہ جبڑوں تک اسکا سر پھٹتا
چلاگیا۔آخری قلعہ کا دروازہ آپ نے اپنے دست ایمانی سے اکھاڑ پھینکا تھا آپ نے خطبہ خلافت میں فرمایا ”اللہ بزرگ و برترنے ہماری رہنمائی کیلئے ایک کتاب نازل کی ہے۔
جس میں خیروشر کی تفصیل ہے تم پر اللہ تعالیٰ نے جوفرائض عائد کیے ہیں وہ اداکرو،تمھیں جنت ملے گی۔اللہ تعالیٰ نے حرم پاک کو محترم ٹھہرایا ہے۔مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ،سوائے اس کے کہ کسی پرکوئی شرعی حد واجب ہو۔مسلمانوں کی جان ہرچیز سے زیادہ قیمتی ہے اہل اسلام کو خلوص اوراتحاد کی تلقین کی ہے۔اللہ تعالیٰ کے بندوںساتھ معاملہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرواوراس کی نافرمانی سے بچو،خیر کو قبول کرواور شر سے اجتناب کرو”رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کو زندگی میں ہی جنت کی بشارت سُنا دی تھی لیکن جب اذان کی آواز آپ کے کانوں میں پڑتی تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوجاتااورجسم مبارک کانپنے لگتا جب کسی نے دریافت کیاکہ ایسا کیوں ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا اللہ بزرگ وبرتر کا بلاوا آیاہے مجھے ڈرلگتا ہے کہیں کمی نہ رہ جائے رجب حضرت علی کی ولادت کا مبارک اور محترم مہینہ ہے ہمیں چاہئے کے خوب عقیدت اور محبت کا اظہار کریں اور اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر زندگی کی مشکلات کو دور کریں