Daily Roshni News

سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب۔۔۔مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالی

سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب

 کتاب : خطباتِ لاہور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالی

انتخاب۔۔۔ نسرین اختر عظیمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب۔۔۔ مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالی)گزشتہ سے پیوستہ ربیع الاوّل کے مبارک مہینہ میں بمقام ایوانِ اقبال لاہور میں مراقبہ ہال لاہور کے زیرِ اہتمام حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر مورخہ ۱۱ مارچ ۲۰۰۶ء کو ایک شاندار اجتماعی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ سیرت طیبہ کے اس پروگرام میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسر صاحبان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے خصوصی طور پر شرکت فرمائی

انبیاء علیہم الصّلوٰۃ و السّلام کی زندگی کا یہ رخ بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ جب انبیاء علیہم الصّلوٰۃ والسّلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا تو بہت سے لوگوں نے انہیں جھٹلایا، کسی نے ان کو مجنوں کہا، کسی نے پتھر مارے انتہا یہ کہ بعض پیغمبروں کو تو لوگوں نے قتل تک کر دیا۔

اللہ کے پیغمبروں کو، ان مقدس ہستیوں کو کس جرم میں قتل کردیا گیا؟․․․․․

اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ کو ایک مانو…. بتوں کو نہ پوجو۔ وہ کہتے تھے دولت کی پرستش نہ کرو…. اَنا کے خول سے باہر آجاؤ…. غرور نہ کرو…. تکبر نہ کرو…. کس بات پر غرور کرتے ہو؟ تمہارے پاس کچھ تو ہو، آج مرجاؤ گے کچھ بھی ساتھ نہیں لے جاؤ گے۔

ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ مُردہ اکڑتا ہے…. زندہ شخص میں لچک ہوتی ہے۔

اب آپ دیکھئے جب آدمی مرجاتا ہے اس کے ہاتھ کو آپ سیدھا نہیں کر سکتے۔ آدمی مر جاتا ہے اس کی گردن اکڑ جاتی ہے، اس کی گردن کو آپ اِدھر اُدھر نہیں گھما سکتے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر زندہ آدمی کے اَندر بھی اکڑ مَوجود ہو تو کیا اس کی حیثیت مُردہ جسم جیسی نہیں ہوگئی․․․․․!!!

جس آدمی کے اَندر اکڑ نہیں ہے، جس آدمی کے اَندر جُھکنا ہے…. عاجزی ہے…. انکساری ہے…. وہ زندہ ہے۔ مُردہ آدمی کبھی جھکتا نہیں، مُردہ آدمی کی جو اکڑی ہوئی گردن ہے اکڑی رہتی ہے وہ جھکتی نہیں ہے۔ تو جو آدمی اس دنیا میں غرور تکبر میں مبتلا ہے…. اَنا کے خول میں بند ہے…. غیر اسلامی روایات میں…. تکبر اور اکڑ لئے ہوئے ہے، آپ یقین کریں وہ آدمی مُردہ کی طرح ہے۔

* اللہ نے کِبر کو منع فرمایا ہے….

* اللہ نے کسی کی غیبت کو منع فرمایا ہے….

* اللہ نے حق تلفی کو منع فرمایا ہے…..

فرمایا کہ دو گناہ معاف نہیں․․․․ ایک شرک معاف نہیں اور ایک حق تلفی معاف نہیں۔ اس کا مطلب ہے یہاں جو بندہ کسی بندے کی حق تلفی کرتا ہے وہ شرک کے برابر گناہ کرتا ہے اور جو بندہ اپنے حقوق کی طرح دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک برگزیدہ بندہ ہے۔

الٰہی مشن کو پھیلانے میں انبیاء علیہم الصّلوٰۃ و السّلام نے جو کچھ کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ حضور پاک ﷺ کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ کیا کچھ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں کیا، بائکاہٹ کردیا، شعب ابی طالب میں حضور پاک ﷺ اور آپ ﷺ کے خاندان کو قید کردیا۔ طائف میں اتنے پتھر مارے کہ رسول اللہ ﷺ کے پیر خون خون ہوگئے اور جوتے خون سے بھر گئے۔ مکہ سے ہجرت کر کے حضور ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔

وہ لوگ جن کے ذمہ یہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو آپ ﷺ کے مشن کو لوگوں تک پھیلائیں گے، آگے بڑھائیں گے، ان کے اَندر یہ ساری خوبیاں ہونی چاہئیں:

* ان میں کِبر نہیں ہونا چاہئے….

* انہیں کسی کی حق تلفی نہیں کرنی ہے….

* جھوٹ نہیں بولنا….

* تکبر نہیں کرنا ہے….

* اللہ کو اپنا خالق و مالک، قادرِ مطلق سمجھنا ہے…. اور

* لوگوں کی خدمت کرکے خوش ہونا ہے….

انتخاب  : نسرین اختر عظیمی

Loading