Daily Roshni News

شریک حیات سے بڑھ کر رفیق حیات بنیے۔۔۔قسط نمبر1

شریک حیات سے بڑھ کر رفیق حیات بنیے۔۔!

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ شریک حیات سے بڑھ کر رفیق حیات بنیے)میاں بیوی کو ایک دوسرے کا شریک حیات کہا جاتا ہے۔ کسی کام میں لوگوں کی شرکت عام طور پر اپنے اپنے مفاد کے لیے ہوتی ہے۔ اس کی ایک عام مثال کار و باری شریک کی ہے۔

 میاں بیوی کے رشتے کا اصل حسن تو یہ ہے کہ اس میں اپنی خوشیوں کے بجائے دوسرے کی خوشیوں کا خیال رکھا جائے۔ میاں بیوی کا تعلق دوسرے کے لیے ایثار ہو تو یہ رشتہ شراکت سے بڑھ کر رفاقت میں ڈھل جاتا ہے۔

 میاں بیوی ایک دوسرے کی چاہت میں گم ہوں تو پھر یہ ایک دوسرے کے شریک نہیں رہتے رفیق بن جاتے ہیں …. اچھے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے شریک حیات سے بڑھ کر رفیق حیات بننا چاہئے۔ یہ مضمون ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کی مختلف تحریروں سے استفادہ کر کے لکھا گیا ہے

جس طرح عورت اپنی ذات اور اپنے کاموں کی تعریف و ستائش چاہتی ہے اسی طرح مرد بھی اپنی تعریف پسند کرتے ہیں۔ البتہ تعریف کے حوالے سے مرد کی ضروریات عورت سے بہت حد

تک مختلف ہیں۔ زندگی کے کئی معاملات میں مرد اور عورت کے سوچنے کے انداز میں نمایاں فرق ہے گو دونوں کی ذہنی صلاحیتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ عورت انجینئر نگ ، میڈیکل ، کامرس، بزنس اور دیگر شعبوں میں بہت اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ صلاحیوں میں نہیں البتہ رویوں اور رد عمل ، جذبات واحساسات کے معاملے میں عورت اور مرد میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ زندگی کے معاملات میں مرد کا رویہ عموماً

غیر جذباتی اور عملی جبکہ عورت کا رویہ اکثر جذباتی  ہوتا ہے۔

جذبات واحساسات کے نمایاں فرق کی وجہ سے عورت اپنے شوہر کو عموماً اپنے جذبات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے عورت ایک بڑی غلطی کر جاتی ہے ۔ بجائے یہ جاننے کے کہ اس کے شوہر کی شخصیت کن اوصاف کی حامل اور کن عادات واطوار سے مرکب ہے، وہ اپنے محدود تصورات وخیالات کے حوالے سے اپنے شوہر کو DEAL کرنا چاہتی ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت مرد کے بغیر اور مرد عورت کے بغیر نامکمل یا ادھورے ہیں ۔ دونوں اصناف ایک دوسرے کی لازمی اور ناگزیر ضرورت ہیں ۔ کارخانہ حیات کو درست اور متوازن طور پر چلانے کے لئے قدرت نے ان دونوں اصناف یعنی مرد اور عورت میں کہیں یکساں خصوصیات رکھ دی ہیں اور کہیں ان میں کچھ فرق یا تنوع رکھا گیا ہے۔ اس فرق یا تنوع کی موجودگی کا مقصد کسی قسم کی مخالف یا متصادم صور تحال پیدا کرنا نہیں ہے۔ دونوں اصناف کے درمیان پائے جانے والے مختلف اوصاف باہم مل کر ایک حسین

اور کار آمد امتزاج پیدا کرتے ہیں۔

مرد کیا چاہتا ہے….؟

مرد کو اپنی کار کردگی ، صلاحیتوں اور دیگر ذاتی اوصاف کی ستائشی اچھی لگتی ہے۔ مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی زوجہ بھی اس کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا تعریفی انداز میں ذکر کرے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ مرد چاہتا ہے کہ اس کی بیگم معاش کے حصول میں اس کی مصروفیات کی قدر کریں اور شوہر کی صلاحیتوں کو توصیف کی

نظروں سے دیکھیں۔

خواتین کو جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے شوہر میں کون کون سی صلاحیتیں اور کیا کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ نہ صرف اپنے شوہر کے سامنے ان صلاحیتوں اور خوبیوں کا تذکرہ فخریہ اور تعریفی انداز میں کیجئے بلکہ اپنے سسرال، میکے، دوسرے رشتہ داروں اور ملنے والوں کے سامنے بھی شوہر کی ان خوبیوں کا اچھے الفاظ میں تذکرہ کیجئے۔

عورت کیا چاہتی ہے…..؟

عورت اپنے شوہر سے محبت، عزت اور تحفظ کی خواہاں ہوتی ہے۔

ایک اچھے شوہر کی ایک نمایاں صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف خود اپنی اہلیہ کی عزت کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اس کی اہلیہ کی عزت کریں۔

شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے ان جذبات کا اظہار واضح الفاظ میں نہ صرف اپنی اہلیہ کے سامنے کر دے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اپنی اس خواہش سے آگاہ ر کھے۔ رشتہ داروں اور احباب میں شوہر کی جانب سے اپنی اہلیہ کی عزت شوہر کے الفاظ اور طرز عمل سے ہوتی ہے۔ مردوں کے لیے ضروری ہے کہ گھر میں اور گھر سے باہر اپنی اہلیہ کے ساتھ عزت و احترام پر مبنی رویہ اختیار کریں۔

ایک دوسرے کے والدین کی عزت ایک لڑکی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر سسرال میں شوہر کی وجہ سے آتی ہے۔ شوہر اپنی بیگم کی زندگی کا اہم ترین فرد ہوتا ہے۔ جس طرح شوہر کی یہ خواہش ہے کہ ان کی بیگم ان کے والدین یعنی اپنے ساس سسر کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں ۔ اسی طرح عورت کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ شوہر ان کے والدین کی عزت کریں۔ مرد کی جانب سے بیگم کے والدین کی عزت و احترام عورت کے لئے مسرت و اطمینان کا سبب بنتا ہے۔ اس طرز عمل سے عورت کے دل میں اپنے شوہر کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سسرال کے مختلف معاملات کے بارے میں دلچسپی لیں اور جہاں کہیں ضرورت ہو اپنی رائے یا تعاون بھی پیش کریں۔

فطری طور پر ہر ماں اپنی بیٹی کی خوشیاں چاہتی ہے لیکن ہمارے معاشرہ میں یہ مشاہدات بھی ہوتے ہیں کہ کئی عورتوں کے گھر ان کی ماؤں کے غلط مشوروں اور منفی رویہ کی وجہ سے خراب ہوئے۔ ایک سمجھ دار عورت کے لئے ضروری ہے کہ دل کی بھڑاس نکالنے کے فارمولے کے تحت میکے جا کر اپنے شوہر اور سسرال والوں کی برائیاں اور اپنی شکایات بتانے کے بجائے اپنے شوہر اورسسرال والوں کی خوبیاں اور اعلیٰ اوصاف کا خوبتذکرہ کرے۔

اپنے شوہر کی جن خوبیوں اور خصوصیات سے خاتون متاثر ہوں ان کا ذکر میکے اور سسرال دونوں جگہ اچھی طرح کریں۔

عورت اپنے جیون ساتھی سے جو توقعات وابستہ کرتی ہے ان میں محبت اور تحفظ سر فہرست ہیں۔ عورت اپنا آپ اپنے شوہر کو سونپتی ہے…. وہ جھتی ہے کہ اس کے شوہر کی ذات اس کے لئے ایک مضبوط حصار کی مانند ہے۔ وہ شوہر کی وجہ سے خود کو محفوظ و مامون سمجھتی ہے۔ عورت کو شوہر کی جانب سے ملنے والے تحفظ کا مطلب زندگی کے ہر مرحلے پر تحفظ ہے۔

ایک مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے اپنی بیوی کو تحفظ کا احساس دلا تار ہے۔

تحفے دیجیے…..

کئی خواتین خواہش مند ہوں گی کہ سال میں مختلف اہم مواقع پر ان کے شوہر انہیں کوئی تحفہ دیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان مواقع پر ان کے درمیان تحائف کا تبادلہ ہوتا بھی ہو ، لیکن محلہ دینے کے لئے کسی خاص موقع کا انتظار کیوں کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ کوئی مہنگا تحفہ دیا جائے۔ اگر جیب اجازت نہ دے تو کوئی بھی چیز خواہ کم قیمت ہی کیوں نہ ہو شوہر اور بیگم ایک دوسرے کے لیے خرید لیں۔

شوہر کے لیے تحفہ خریدتے وقت کوئی ایسی چیز جو گھر میں یا ان کے کام کاج کی جگہ پر زیادہ تران کی نظروں میں آئے انہیں تحفہ دینے کے لئے منتخب کیجئے ۔ اگر انہیں مطالعہ کا شوق ہے تو کوئی اچھی کتاب اپنے دستخطوں کے ساتھ انہیں تحفہ میں دیں یا ان کے شوق اور ذوق کے مطابق انہیں کوئی اور چیز بطور تحفہ دیں۔

عورت کی حوصلہ افزائی مشرقی معاشرے میں عورت کا کردار عموما گھر ستک محدود ہوتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین میں سے بھی اکثریت معاشی سرگرمیوں سے وابستہ رہنے کے باوجود باہر کے ماحول سے مرد کی نسبت کم واقف ہوتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زندگی کے مختلف معاملات میں عورتوں کی کوئی رائے یا واضح نقطہ نظر بھی نہیں ہو سکتا۔ عورت کے گھریلو کر دار یا معاشی سرگرمیوں میں محدود شرکت کی وجہ سے یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ ان میں بصیرت و دانش کی کمی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ عورت کو خصوصاً گھر یلو عورت کو اپنی بصیرت و دانش کو موثر طور پر بروئے کار لانے کے لئے مرد کی جانب سے تحسین اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اپنی بیگم کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو بیدار۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  مئی 2022

Loading