صاحب حال کون ہوتا ہے؟
آج کا صاحب حال کون ہے؟
تحریر۔۔۔واصف علی واصف
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صاحب حال کون ہوتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ واصف علی واصف)جس طرح مشاہدے کا بیان مشاہدہ نہیں ہو تا، اسی طرح صاحب حال پڑھنے یا سننے والی بات نہیں ، وہ دیکھنے والی شے ہے. اس کے جلو ے خرد اورجنوں کی سر حدوں پر ہو تے ہیں ۔ جہاں اہل عقل کی حد ہے ،وہاں سے صاحب دل کی سرحد شروع ہوتی ہے ۔ جذب اور سلوک کے درمیان ایک منزل ہے ،جسے حال کہتے ہیں اور جہاں ہو نا نہ ہو نا ہے اور نہ ہو نا عین ہو نا ہے۔
صاحب حال اس مقام پر ہوتا ہے ،جہاں قال کی ضرورت ہی نہیں ہوتی. الفاظ حقیقت کو محجوب کر دیتے ہیں ۔ کہنے والا کچھ اور کہہ رہا ہوتاہے اور سننے والا کچھ اور سننے لگ جاتا ہے ۔ اسی لئے صاحب حال الفاظ سے گر یزاں ہو تاہے۔ وہ اس کائنات میں نئی کائنات دریافت کر چکا ہوتا ہے ۔ وہ ظاہر سے باطن کی طر ف رجوع کر تا ہے. اسم سے مسمیٰ دریافت کر تا ہے. نعمت سے منعم کا عرفان حاصل کرتاہے ۔ وہ مطلع انوار صبح سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کی نگاہ ڈوبتے سورج کی لاش پر بھی ہوتی ہے.
صاحب حال قطر ے میں قلزم اور ذرے میں صحرا کو دیکھنے کی قدرت رکھتا ہے ۔ صاحب حال تغیر وتبدل سے مرعوب ومتاثر نہیں ہوتا ۔ مو سم بدلتے ہیں، زمین وآسما ن کے جلوے بدلتے ہیں ،آغاز وانجام کے رشتے بدلتے ہیں،لیکن صاحب حال نہیں بدلتا ۔ وہ زندگی اور موت کو ایک حقیقت کے رُخ سمجھتا ہے. وہ غم اور خوشی سے نجات پاچکا ہوتا ہے ۔وہ ماضی، حال اور مستقبل کو ایک ہی زمانہ سمجھتا ہے. وہ زمین و آسمان کے انو کھے رشتوں کا مفسر ہوتا ہے. اس فنا کے دیس میں صاحب حال ملک بقا کا سفیر ہے۔ صاحب حال اس زما نے میں کسی اور زما نے کا پیغا م رسا ں ہے. وہ ایسا صاحب جنوں ہے جو خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہے ۔ اس کی نگا ہ سات رنگو ں سے بہت آگے ہوتی ہے ۔ وہ بے رنگ کے نیرنگ سے آشنا ہو تا ہے ۔ صاحب حا ل کیفیت کے اس مقام پر ہو تاہے ،جہا ں تحیر بھی ہے اور شعور بھی ۔ جہا ں وار فتگی بھی ہے اور آگہی بھی ۔ صاحب حال اسماء اوراشیاء کے معانی اور مفاہیم سے باخبر ہوتا ہے. وہ اس منزل پر ہوتا ہے ،جہاں سفر ہی مد عائے سفر ہے ۔ وہ خو د آگہی کے ایسے دشت وحشت میں پہنچ چکا ہو تا ہے ،جہا ں نہ فراق ہے نہ وصال نہ کو ئی اپنا ہے نہ غیر ۔ وہ سکوت سے ہم کلام رہتا ہے ۔ و ہ ذروں کے دل کی دھڑکن سنتا ہے۔ اس کی نگاہ وجود اور موجود کے با طن پر بھی ہو تی ہے اور عدم اور ناموجو د کی حقیقت پر بھی ۔ وہ ذات اور صفات کے تعلق سے آشنا ہو تا ہے ۔ وہ جا نتا ہے کہ عیا ں کا رابطہ ہر حال میں ’’نہاں ‘‘ سے قا ئم رہتا ہے ،صاحب حال خو د ہی آخری سو ال ہے اور خود ہی اس کا آخر ی جواب ۔
صاحب حال بغیر حال کے سمجھ میں نہیں آتا ۔ اس کا قال بھی حال ہے اور خاموشی بھی حال ۔ بہر حال صاحب حال اپنے وجود میں اپنے علا وہ بھی موجود رہتا ہے ۔ معلوم اور نا معلوم کے سنگم پر صاحب حال گنگناتا ہے ۔ آپ ایک ایسے انسان کا اندازہ کر یں جس کی ایک ہتھیلی پر آگ ہو اور دو سر ی پر برف۔ وہ نہ آگ بجھنے دیتا ہے ،نہ بر ف کا انجمادٹو ٹنے دیتا ہے ۔ وہ ایک ایسی جلوہ گاہ میں محو کھڑا ہوتا ہے ،جہاں آنکھ کی راہ میں بینائی کا پر دہ حائل نہیں ہوتا. اس کی پیشا نی زمین پر ہو تو اس کی سجدہ گاہ آسمان پرہو تی ہے ۔وہ کسی کو نز دیک سے پکا رتا ہے اور جواب دینے والا دور سے جواب دیتا ہے ۔ اس کا دل اس کی آنکھ میں ہو تا ہے اور آنکھ دل میں ہوتی ہے ۔ صاحب حال ’’نمی دانم ‘‘ کے پر دے میں دانائی کے چراغ جلا تا ہے ۔ اس کی خاموشی میں جمال گفتگو کے جلوے ہوتے ہیں ۔ اس کے قرب میں انسان اپنے آپ سے دور ہوجاتاہے ۔ اس کی محفل میں گردش زمان ومکاں رک سی جاتی ہے.
صاحب حال کوئی انو کھی مخلوق نہیں ۔ وہ انسان ہے ۔انسانوں کی دنیا میں انسانوں کے درمیا ن رہتا ہے ۔اس کا انداز نظر انسانو ں سے جدا ہوتا ہے ۔وہ معمولی سے واقعہ کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے ۔ درخت سے پتا گرے تو وہ پکار اٹھتا ہے ۔
پتا ٹوٹاڈال سے لے گئی پون اڑا
اب کے بچھڑے کب ملیں گے دورپڑیں گے جا
ایک صاحب حال نے جنازہ دیکھا۔ پو چھا ’’ یہ کیا ہے ؟‘‘ جواب ملا ’’ زند گی کی آخر ی منز ل ‘‘ بو لا : ’’اگر یہ آخر ی منزل ہے تو ہم کو ن سی منزل میں ہیں۔ کیو ں نہ آخر ی منزل کو دیکھا جا ئے ۔ ‘‘بس تخت چھوڑ دیا ، شہر چھوڑ دیا ،جنگل کی راہ لی اور پھر راز آشنا ہو گیا ۔
مو سیٰ علیہ السلا م کی صاحب حال سے ملا قات ہوئی ۔ ایک دور کا پیغمبر اپنے دور کے صاحب حال سے مل کر حیران رہ گیا کہ یہ کو ن ساعلم ہے ؟ کتاب کا علم !کتا ب کاعلم تو موسیؑ کے پاس بھی تھا ‘بلکہ کتا ب ہی موسی ؑ کے پا س تھی. صاحب حال کسی اور زمانے کے واقعات میں مصر وف تھا ۔ موسی علیہ السلام اپنے زمانے کا حال دیکھ رہے تھے ۔ نتیجہ ’’ھذافراق بینی وبینکم ‘‘یعنی جدائی ۔ مو سیٰؑ کے عر فان میں شک نہیں ہو سکتا ۔ آپ کے مقام پر شک نہیں ہو سکتا ۔ آپ کی بصیرت پر شک نہیں ۔ آپ کے عصا ید بیضا اور کلیمی پر شک نہیں ، لیکن صاحب حال آپ کی پہچان میں نہ آسکا ۔ صاحب حال کا علم ’’لدنی‘‘ ہے ،مخفی ہے ۔ اسے اللہ کی عنایت کا خصوصی مظہر کہنا چاہئے ۔
ایک صاحب حال کا ذکر MATHEW ARNOLD
نے اپنی نظم سکا لر جپسی SCHOLAR GIPSY میں کیا ہے ایک آدمی علم ظاہری کی اذ یت سے تنگ آکر علم با طن کے سفر پر نکل گیا ۔ آکسفورڈ سے بھا گا ہواطالب علم،علم کی طلب میں سر گرداں رہا ۔ علم سے بھا گ کر علم میں داخل ہو نا ہی صاحب حال کا کام ہے ۔ وہ علم اور ہے ۔اس کی تلا ش میں انسان زند گی سے نکل جاتا ہے اور پھر موت سے بھی نکل جاتا ہے اور پھر حیات جاوداں پا لیتا ہے ۔ ’’سکا لر جپسی ‘‘ ہر زما نے کو آکر بتاتا رہا کہ جو ایک ہو گیا ۔ یکتا ہو گیا ۔ وہ مر نہیں سکتا ۔ وحدت کو موت نہیں اور کثرت موت سے بچ نہیں سکتی ۔ جو بدلتا نہیں مرتا نہیں ، جوتبد یل ہوتا ہے مرتا ہے ۔
ایک صاحب حال مو لانا روم سے ملا ۔ بو لا:’’ مولانا!یہ کیا علم ہے؟ ‘‘مولا نا نے کہا ’’اسے آپ نہیں جانتے ۔‘‘صاحب حال نے اپنا علم ظاہر کیا ۔ مو لانا بولے’’یہ کیا علم ہے؟ صاحب حال بولا ’’جسے تم نہیں جانتے ۔ ‘‘بس پھر اس کے بعد مو لا نا رومؒ ، غلام شمس تبریزؒ ہو کر رہ گئے ۔ مولانا بھی صاحب حال ہو گئے. صاحب مثنو ی ہو گئے ،ایسی مثنو ی کہ قلوب کی خشک زمین پر عشق حقیقت کی نورانی بر سات ہے ۔ مثنو ی صا حب حال بناتی ہے ۔ پیر رومی ؒ کی محبت میں’’مر ید ہندی ‘‘ صاحب حال ہو گیا ‘ بلکہ صاحب اقبال با کما ل ہو گیا ۔
صاحب حال صاحب عشق ہوتا ہے ۔ صاحب وجدان ہوتا ہے ۔ صاحب مشاہدہ ہوتا ہے ۔ صاحب یقین ہو تا ہے ۔ صاحب ایمان ہوتا ہے۔صاحب نسبت ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ صاحب نصیب ہوتا ہے ۔ صاحب حال کو مر دحق آگا ہ کہا گیا ہے ۔ کہیں اسے سپر مین SUPER MANکہا گیا ہے ۔ کبھی اسے صرف مردمومن بھی کہتے ہیں ۔صاحب حال حق آگہی وحق شناسی کے اس مقا م پر پہنچ جا تا ہے ،جہاں وہ انا الحق کہہ اٹھتا ہے ۔ اس ایک انا الحق میں کتنی حقیقتیں پنہاں ہو تی ہیں ۔ کوئی صاحب حال ہی جان سکتا ہے ۔
صاحب حال میں نغمگی کا ہو نا لازمی ہے ۔ وہ بصد سامان رسوائی سر بازار رقص کرتا ہے ۔ صاحب حال کے رقص میں بڑ ے رموز ہیں ۔ صاحبان حال کشتگان خنجر تسلیم ضرور ہوتے ہیں.
دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس کا ئنا ت میں صاحب حال پیدا کر نے والی نگاہ ضرورکار فرما ہے ۔کو ئی ہے اس پردے کے پیچھے، کسی کا ہاتھ ضرور ہے جو ان لوگوں کو حال عطا کرتا ہے ۔ کو ئی ایسی ذات موجود ہے ، جس کا قرب انسان کو صاحب حال بنادیتا ہے ۔ ایسی ذات جو نظر ملاکر انسان کو بد ل کے رکھ دیتی ہے۔ دیکھنے والے بے خبرر ہتے ہیں اور بد لنے والا بدل چکا ہوتا ہے ۔ وہ ذات علم لدنّی کے خزانے لٹاتی ہے اور پھر صاحب حال جہا ں جہاں سے گزرے ،راستے جگمگا اٹھتے ہیں ۔ صاحب حال بنانے والی ذات پر سلا م ہو.
صاحب حال بننے والے انسانوں کو غو ر سے دیکھا جا ئے تو ان کی فطر ت میں وفا اور استقامت کی بنیادی خوبی ضرور ہوتی ہے ۔ ایک ایسا انسان جو صاحب علم نہ بھی ہو ،اپنے عمل کی استقامت سے صاحب حال بن سکتا ہے اور صاحب حال ہو جانے کے بعد اس کا صاحب علم ہو جانا پہلا قدم ہے ۔ مثلا ً آپ ایک آرٹسٹ کو دیکھیں جو خلوص سے تصویر بناتا ہے ۔ زند گی بھر استقامت سے فن کی خدمت کرتا ہے ۔ ایک صبح نہ جانے کیوں اس کا برش برہنگی اجسام کو کینوس پر اتارتے اتارتے خطاطی کے شہ پارے پیش کرنے لگتا ہے ۔وہ قرآنی آیات کے حسن میں ایسا محو ہوتا ہے کہ اس کا باطن روشن کر دیا جاتا ہے اور وہ صاحب حال بن چکا ہوتا ہے ۔ لوگ اعتراض کر تے ہیں کہ یہ تو اور آدمی تھا اور اب کیسے ہو گیا۔ بس ہو گیا۔ بنا نے والے نے بنا دیا ۔وہ کا فروں کوایمان عطا کرتا ہے ۔ اند ھیر وں کوروشنی بخشتا ہے ۔ عاصیوں کو معاف کرتاہے اور صاحبان استقامت کو اپنے لطف میں داخل فرما کر صاحبان حال بنا دیتا ہے ۔ فتو یٰ اس کے خلا ف ہوتا ہے، لیکن حقیقت اور صد اقت صاحب حال کے پاس ہو تی ہے ۔
اسی طر ح اگر کو ئی مصنف علم کو خدا کا فضل سمجھنے والا تحلیل جاں کے مراحل سے استقا مت وصبرسے گزرے ،تو اسے وہ نگاہ قبو ل فرما لیتی ہے ۔ پھر اس کے اعما ل واحوال یکسر بد ل جا تے ہیں ۔ وہ قید وجو د سے آزاد ہو جاتا ہے ۔ اسے بے نیاز غم دوراں کردیا جاتا ہے ۔ اب یہاں فتویٰ کیا کرے گا ۔ قبول کر نے والا قبول کررہا ہے ۔ تو ہم اعتر اض کرنے والے کون ہیں ۔ اگر سائیں کا فضل کسی کوصاحب حال بنا دے ،تو ہم کیو ں برہم ہوں ۔ اعتراض کر نے والے فارمولا استعما ل کرتے ہیں۔ قانون استعمال کرتے ہیں ۔ قاعدہ کلیہ استعمال کرتے ہیں اور صاحب حال فارمو لے سے باہر ہوتا ہے ۔ فتویٰ اقبال کے خلاف تھا اور فطر ت اس کی آنکھ میں خا ک مد ینہ ونجف کا سرمہ لگا رہی تھی ۔ وہ دانا ئے راز بنا دیا گیا ۔ اسے فقیر ی عطا ہو ئی ‘قلندری ملی ۔ وہ اپدیشک ہو گیا ۔ غبار راہ حجاز ہو گیا ۔ مفتی اس کے خلا ف رہے ۔ فطر ت اس کے ساتھ ہو گئی ۔ اقبال کا صاحب حال ہونا مخالفیں اقبال کو صاحبان حال بننے سے محر وم کر گیا ۔ یہ اس نگا ہ کے فیصلے ہیں. اس کی عطا کے کر شمے ہیں ۔عمل کسی اور رخ کا ہو تاہے فضل کسی اور طر ف پہنچا دیتا ہے ۔ کو ئی سمجھے تو کیا سمجھے کو ئی جا نے تو کیا جا نے ۔
صاحبا ن حال کے سلسلے میں قائداعظم ؒ کی مثال سب سے اہم ہے ۔ وہ استقا مت وصداقت کا پیکر قائداعظم کہلا نے کیلئے کوشش نہیں کر رہا تھا ۔وہ مسلمانوں کی خدمت کے جذ بے سے سرشارتھا ۔ اس کے خلو ص کو فطرت نے منظورکیا ۔ اسے صاحب حال بنا دیا ۔ قتویٰ اس کے خلا ف تھا لیکن فطرت اور حقیقت اس کے ساتھ تھی ۔ اسے قائد اعظمؒ بنا دیا گیا ۔ اہل شرع کا ایک گروہ اس بات کو اور اس واردات کو نہ پہچان سکا ۔معترض رہا. اہل با طن پہنچ گئے کہ یہ کسی کی نگاہ کی بات ہے ۔یہ فیض ہے کسی ذات کا ۔ یہ نصیب کا فیصلہ ہے ۔ اہل باطن قائد اعظم کے ساتھ ہوگئے ،منز ل مل گئی ۔ ملک بن گیا ۔فتو یٰ دینے والے آج تک نہ سمجھ سکے کہ یہ کیا رازتھا ۔ قائدا عظم دلوں میں اتر گئے اور مخا لفین دلو ں سے اترگئے ۔
جس طرح ہمارے ہا ں طر یقت کے سلا سل ہیں. چشی ،قادری ،نقشبند ی،سہروردی وغیر ہ اور ہر سلسلے کا کو ئی با نی ہے ،اسی طر ح قائد ا عظم ؒ سے ایک نئی طریقت کا آغاز ہوتا ہے اور وہ طریقت ہے ’’پا کستا نی ۔‘‘اس طریقت میں تمام سلاسل اور تمام فرقے شامل ہیں ۔ہر ’’پاکستانی ‘‘پا کستا ن سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہے ۔ ہمارے لئے ہمارا وطن خاک حرم سے کم نہیں ۔ اقبا ل نے مسلمانوں کو وحدت افکار عطاکی ،قائداعظمؒ نے وحدت کردار ۔
آج اگر قوم میں کو ئی انتشار خیال ہے تو اس لئے کہ وحدت عمل نہیں ۔ وحدت فکر وعمل عطا کرنا وقت کے صاحب حال کا کام ہے ۔ صاحب حال بنانے والی نگاہ کسی وقت بھی مہربانی کر سکتی ہے ۔ وہ نگاہ ہی تو مشکل کشا ہے ۔ نہ جانے کب کوئی صاحب حال قطرہ شبنم کی طرح نوک خا رپہ رقص کر تا ہوا آئے اور قوم کے دل ونگا ہ میں سما تا ہوا وحدت عمل پید ا کر جا ئے اور ایک با ر پھر
’’ہا تھ آئے مجھے میرا مقام اے ساقی‘‘
وقت کے صاحب حال کی خدمت میں بھی سلام
واصف علی واصف کی کتاب
دل دریا سمندر سے اقتباس
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2024