Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

صدائے جرس

تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

بشکریہ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2024

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس)بتایا جاتا ہے کہ زمین تین حصے پانی ہے اور ایک حصہ خشکی ہے۔زمین طبقات یا پرت در پرت بنی ہوئی ہے، جس طرح پیاز میں بے شمار پرت در پرت ہیں ، اسی طرح زمین بھی طبقات یا پرت در پرت تخلیق کی گئی ہے ۔ زمین کو ادھیڑا جائے تو نظر آتا ہے کہ زمین کا ہر پرت ایک نئی تخلیق ہے۔

کسی پرت کا نام ہم لوہا رکھتے ہیں ۔ کسی پرت کا نام ہم کو ئلہ رکھتے ہیں ۔ کسی پرت کا نام ہم تانبہ یا پیتل رکھتے ہیں۔ کسی پرت کو ہم یورینیم کے نام سے جانتے ہیں ۔

جیا لوجسٹ یہ بات جانتے ہیں کہ زمین کے ذرات دراصل نئی نئی تخلیقات کے فارمولے ہیں۔ زمین پر مٹی کہیں سرخ ہے، کہیں سیاہ ہے، کہیں بھر بھری ہے، کہیں چکنی ہے، کہیں پہاڑ کی طرح سخت ہے اور کہیں دلدل ہے۔

زمین مٹی ہے ۔ زمین مٹی ہے تو زمین میں سے پیدا ہونے والی ہر شے مٹی ہے۔

مٹی نہ ہوتی تو زمین پر لہلہاتے کھیت ہر گز نہ ہوتے ۔ مٹی نہ ہوتی تو پھول نہ ہوتے۔ پھولوں میں رنگ نہ ہوتے، رنگوں میں اگر شوخی نہ ہوتی تو کشش نہ ہوتی۔

کشش نہ ہوتی تو خزاں اور بہار کا تصور ختم ہو جاتا، خزاں اور بہار کا عمل نہ ہوتا تو عاشق و معشوق کی وارفتگی عدم کا فسانہ بن جاتی۔ کہکشانی چمک زمین پر نہ اُترتی تو اندھیری رات میں لاکھوں جگنوؤں کےچراغ نہ جلتے بجھتے ۔

چڑیوں کی چہک نہ ہوتی تو فضا میں سناٹے کے علاوہ کچھ نہ ملتا۔ پیسے کی آواز کانوں میں رس نہ گھولتی تو دل کی دنیا بے قراری کے عمیق سمندر میں ڈوب جاتی۔ بانسری فراق کے گیت نہ گاتی تو آنسو خشک ہو جاتے ۔ ہریالی نہ ہوتی تو دنیا ویرانہ بن جاتی۔

القصہ مختصر ! شجر ، حجر، آبشاریں، ندی، نالے، دریا، سمندر، چرند، پرند، حشرات الارض، لوہا، سیسہ، تانبا، پیتل، سونا اور چاندی سب زمین کی وجہ سے ہیں۔

زمین بھی عقل و شعور رکھتی ہے وہ ادراک بالحواس بھی ہے۔ زمین یہ جانتی ہے کہ انار کے درخت میں امرود نہیں لگے گا اور امرود کے درخت میں انار نہیں لگے گا۔ وہ مٹھاس، کھٹاس، تلخ اور شیریں سے بھی واقف ہے۔

اس کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ کانٹے بھرے پودے میں پھول زیادہ حسین لگتا ہے۔ کانٹے کے بغیر پودے میں کتنا ہی خوش رنگ پھول ہو ، پھول میں کتنے ہی رنگوں کا امتزاج ہو لیکن پھول کی قیمت وہ نہیں جو کانٹوں کے ساتھ لگے پھول میں ہوتی ہے ۔

زمین اس بات کا بھی علم رکھتی ہے کہ اس کی کو کھ نہیں رنگ برنگ، قسم قسم کے بچوں کی نشو و نما ہوتی ہے ۔ زمین جہاں — بے شمار رنگوں سے مزین پچھ پھول پیدا کرتی ہے، تلخ و شیریں پھل اگاتی ہے، پرندوں، چوپایوں کی تخلیق کرتی ہے وہاں اپنی حرکت کو متوازن رکھنے کے لیے پہاڑ بھی بناتی ہے۔ میں نے تفکر کیا تو شعور سے اُس پار لاشعور میں جھماکا ہوا۔ غنود کے دروازے سے نکل کرلاشعوری حواس میں پہنچا تو لاشعوری طلسماتی دنیا میں زمان و مکان کی قید سے آزاد میں نے اپنی دھرتی ماں سے پوچھا، اے ماں ! تو کیا ہے ؟

 زمین بولی، میں کیا نہیں ہوں ؟

میں چٹکتی کلی کا حسن ہوں، شاخوں اور پتوں کا نکھار ہوں، پھول کی مہک ہوں، بلبل کی آواز ہوں، چڑیوں کی چہکار ہوں، کوئل کی کوک ہوں ، کبوتر کی غٹرغوں ہوں، پھلوں کی مٹھاس ہوں، کلیوں پھولوں،پھلوں کا رنگ ہوں اور درختوں کی آن بان ہوں۔ زمین بولی میں اگر پھول کے بیچ کو اپنے شکم میں نشو و نما نہ دوں تو پھول میں خوشبو کہاں سے آئے گی ….؟ میں پھلوں کو اپنے رحم میں پروان نہ چڑھاؤں اور ان کے اندر مٹھاس منتقل نہ کروں تو پھل میٹھے کیسے ہوں گے ….؟

میں تیری ماں زمین! تیرے لیے پانی کے چشمے نہ اُبال دوں تو پہاڑوں سے آبشاریں نہیں گریں گی۔ یہ جو تو موٹر کار میں ، ہوائی جہاز میں ، دیو ہیکل مشینوں میں تیل اور پیٹرول پھونکتا ہے، یہ میری شریانوں سے نکلا ہوا میرا خون ہے ۔ میں تیری ماں زمین اگر دل سخت کر لوں اور اپنا جسم اکڑالوں تومیرے اوپر کوئی گھر نہیں بنا سکتا۔ میں تجھے زندگی دیتی ہوں اور تو جب میرے اوپر تکبر کی تصویر بن کر ٹھو کروں میں روندتا ہے،

میں جب بھی تیرے پیر نہیں پکڑتی اور جب تو میرے جسم میں اپنے نوکیلے ہتھیاروں سے گھاؤ ڈال کر میرے وجود میں بیچ ڈالتا ہے تو میں تیری ماں اسے ضائع نہیں کرتی کہ یہ میری اولاد کو زندگی دیتے ہیں۔

مگر اے میری اولاد ! کیا تو نے سوچا ہے کہ تو نے مجھے کیا دیا ہے تو نے میرے احسانات اور خدمت کا کیا بدلہ چکایا ہے۔ میں ! اپنے خالق اللہ کی منشاء سے ، اللہ کی چاہت سے، اللہ کے پیار سے ہر آن ہر لمحہ تمہاری خدمت میں لگی رہنا رہتی ہوں۔ تم کیوں آپس میں لڑ کر ، فساد برپا کر کے قتل وغارت گری سے اپنی ماں کو دکھی کرتے ہو۔ ہو۔ میں نے کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا۔ ہمیشہ تمہیں زندگی دی ہے۔ پھر تم کیوں میری گود اجاڑ دینا چاہتے ہو ۔

اے انسان! ذرا سوچ تو کہاں جا رہا ہے ؟ کیا کر رہا ہے ؟ کبھی تو نے سوچا ہے کہ نے سوچا ہے کہ زمین کے ذرات ہر ہر قدم پر تیرے محکوم ہیں۔ تیرے پیدا ہونے سے پہلے ہر چیز اس میں سونا، چاندی بھی شامل ہے، پہلے سے موجود موجود تھی۔ تو یہاں ایک پیدا ہونے کے لیےمسافر ہے ۔ تو نے اپنی ذات سے زیادہ مٹی کے ذرات کو اہمیت دی۔ اے انسان! زمین تجھ سے ناراض ہے کہ تو زمین پر چلتا پھرتا ہے، زمین میں سے کھاتا پیتا ہے،

زمین پر سوتا جاگتا ہے اور تو نے صرف زمین کے سنہرے ذرات کو سب کچھ سمجھ لیا ہے ۔ تو ان ذرات کے پیچھے اس طرح دیوانہ بن گیا ہے کہ مجھے اپنا ہوش بھی نہیں رہا۔ اور جب مجھے اپنا ہوش نہیں رہا تو تیرے اندر اربوں کھربوں ذرات کو فیڈ کرنے والی انرجی چند سنہری ذرات میں خرچ ہو گئی ہے جبکہ تیری زندگی چند مخصوص ذرات پر قائم نہیں۔ زمین کے اوپر زمین کے اندر اور فضا میں بکھرے ہوئے تیرتے ہوئے سنکھوں ذرات پر قائم ہے۔

غور کرنے کا مقام ہے! زمین ہماری طرح عقل و شعور رکھتی ہے ۔ زمین ہماری طرح زندہ ہے۔ جس طرح ماں کے پیٹ میں مسافرت کرتے ہم یہاں آتے ہیں اسی طرح سارے وسائل جن پر ہماری زندگی کا انحصار ہے ، ہمارے لیے دست بستہ حاضر ہیں۔ وسائل پابند ہیں کہ ہماری خدمت کریں۔ ہمارے کام آئیں ۔ ہمیں زندگی بخشیں۔ صد افسوس! جو چیز ہمارے لیے بنائی گئی ہے، جو چیز ہمارے لیے محکوم کر دی گئی ہے ، ہم اس کے غلام بن گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! ہم نے اپنی ذات مٹی کے سنہرے ذرات پر قربان کر دی ہے !

قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں : زمین پر موجود شماریات سے زیادہ ذرات میں سب سے زیادہ بے وفا سنہرے ذرات ہیں ۔ پوری تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے کہ ان ذرات Gold نے کسی کے ساتھ وفا ئی ہو ۔ انسان جب تک ان ذرات کو پیروں تلے رکھتا ہے۔ یہ ذرات غلامی کرتے ہیں اور جب انسان ان ذرات کو تاج بنا کر سر پر رکھ لیتا ہے تو انتہائی حد تک بے وفائی کرتے ہیں اور انسان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر کے مار دیتے ہیں۔

بشکریہ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2024

Loading