Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ۔

صدائے جرس

بے سکونی کا سبب

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)یہ دنیا کب بنی ؟ … کتنے قرن سے اس پر انسان کی آبادی ہے ؟…. اس در میان زمین پر خزاں کے کتنے دور آئے؟…. اور زمین نے بہار کے کتنے موسم دیکھے ؟ کتنے اچھے کام ہوئے؟…. کتنے سیلاب آئے اور سمندری طوفانوں نے زمین کا کیا حشر کیا ؟…. زمین پر ہونے والے فسادات اور خون ریزی کی کوئی فہرست بھی انسانوں کے سامنے نہیں ہے!…. زمین کی تاریخ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ یہاں ہر دور میں مصلح قوم، رشی، منی، اوتار، صوفی آتے رہے ان کے بر عکس تخریب پسند لوگ بھی موجود رہے …. انسان کی تخلیق کے پہلے مرحلے میں فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا کہ آدم زمین پر فساد برپا کر دےگا…. خون ریزی اور قتل و غارت گری زمین کو خون سے گل رنگ کر دے گی ….. زمین پر بنی آدم کی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے…..

قتل و غارت گری، اقتدار اور حکمرانی کی خواہش، بے پناہ طاقت کا مظاہرہ، چشم زدن میں لاکھوں انسانوں کی موت اور خود غرضی …. زر پرستی، بے رحمی اور درندگی نے زمین کو پھر نزع کے عالم میں مبتلا کر دیا ہے…. اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان کو تعمیر اور تخریب دونوں صلاحیتیں دی گئی ہیں…. انسان کو اللہ تعالیٰ نے تعمیر اور تخریب کی جو صلاحیتیں عطا کی ہیں، سائنس دانوں کے بقول ان کا وہ پانچ فیصد علم حاصل کر سکا ہے۔ پانچ فیصد کوئی یقینی اعداد و شمار نہیں ہیں …. دوسرے لاکھوں قیاسات کی طرح یہ بھی ایک قیاس ہے …. انسانی دماغ میں دو کھرب سیلز کام کرتے ہیں …. ان دو کھرب سیلز کا پانچ فیصد لاکھوں کروڑوں سالوں میں متحرک ہونا…. یہ بجائے خود انسانی بے بضاعتی کا ثبوت ہے …. آج سائنس کا جو شور ہے … سائنسی ایجادات کا ہجوم ہے….. سائنسی اختراعات کا جو پھیلاؤ ہے …. وہ قیاس کے پانچ فیصد سیلز کے چارج ہونے پر منحصر ہے….. جیسے جیسے سائنسی ایجادات ہو رہی ہیں …. جن کو نوع انسانی ،آسائش، آرام اور سکون کا ذریعہ جھتی ہے….. اس کے پیچھے پیچھے ، اس کے ساتھ ساتھ اور اس کے ہم رکاب آرام کی نسبت بے آرامی بھی ہے …. راحت کی نسبت تکلیف زیادہ ہے….. سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون نہیں ہے …. ہر آدمی بے سکون، بے چین، مضطرب، پریشان اور بیمار ہے …. اب سے سو سال پہلے چھوٹے سے بڑے گھر کے بجٹ میں مستقل طور پر بیماریوں کے سدباب کیلئے دواؤں کا کوئی بجٹ نہیں ہو تا تھا۔ سائنسی ترقی سے پہلے گردوں کے دھونے کیلئے Dialysis کی مشینیں نہیں ہوتی تھیں۔ بلاشبہ دل کی پیوند کاری کے اتنے آپریشن نہیں ہوتے تھے … بازار میں اتنی کیمسٹ کی دکانیں نظر نہیں آتی تھیں. گھر کی الماریوں اور میزوں پر ادویات کی بھر مار کا تصور نہیں تھا….

ہمارا منشاء ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم سائنسی ترقی و ایجادات کی نفی کر کے لوگوں کو اس بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ سائنسی علوم نہ سیکھے جائیں…. ایسی کوئی بات نہیں!…. ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ علم میں اتنا اضافہ ہونے کے باوجو د انسان بے سکون اور پریشان کیوں ہے!… ڈپریشن میں کیوں مبتلا ہے ؟… دنیا کا کوئی فرد اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دینا اچھی بات ہے …. پوری دنیا کو ایک کمرے میں سمیٹ کر رکھ دینا یقینا اچھی بات ہے …. بیماریوں کے تدارک یا حفظان صحت کے اصولوں کو وضع کر کے انسان کیلئے صحت بخش ماحول میسر کرنا عظیم خدمت ہے …. بلاشبہ یہ سب نوع انسانی کیلئے اچھے اور اعلیٰ دماغ لوگوں کا تحفہ ہے . لیکن سوال یہ ہے …. یہ سب کچھ ہونے کے باوجو د انسان کی اخلاقی حالت تباہ کیوں ہو رہی ہے ؟… وہ ڈپریشن میں کیوں مبتلا ہے ؟…. اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ انسان نے عارضی دنیا کی عارضی آسائش و آرام اور فانی دنیا کے فانی اسباب و وسائل کو زندگی کا مقصد بنالیا ہے….. یہ کون نہیں جانتا کہ جو اس دنیا میں آتا ہے اُسے اس دنیا سے جانا ہے!…. یہ بات کوئی معمہ نہیں ہے!…. یہ ایسی بات ہے جو آدم و حوا سے لے کر اب تک ہر انسان کے مشاہدے میں ہے …. جو پیدا ہو تا ہے …. وہ بالآخر سب کچھ چھوڑ کر اپنی منشاء و مرضی کے بغیر اس دنیا سے چلا جاتا ہے …. انسان نے عارضی اشیاء کو فانی زندگی کو اور مسافرت کے سفر کو زندگی کا مقصد بنالیا ہے!…. انسان خود فریبی میں مبتلا ہے …. اگر انسان کو مقصد کا تعین ہو جائے …. تو وہ منزل رسیدہ ہے …. منزل کا تعین نہیں تو وہ ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح سفر میں ہی رہے گا….

سوال یہ ہے کہ مقصد کا تعین کیا ہے؟ کیسے پتہ چلے کہ ہم مقصد کو کیسے حاصل کریں؟…. اور مقصدیت کا حصول ہمارے لئے کس طرح ممکن ہے؟ عزیز دوستو!…. مقصد کا تعین یہ ہے کہ آپ خود بخود نہیں بن گئے ، آپ کو کسی نے تخلیق کیا ہے …. اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے …. اس دنیا میں بھیجا ہے …. زندگی گزارنے کیلئے بھر پور مفت وسائل عطا کئے ہیں…. اس رحیم و کریم ہستی نے اس دنیا میں رہنے کیلئے ہمارے لئے قواعد و ضوابط بنائے ہیں…. ان قواعد و ضوابط میں وسائل کا استعمال بھی ہے اور آرام و آسائش کے ساتھ زندگی بسر کرنا تو ہے …. لیکن اس دنیا میں ہمیں مستقل سکونت کے لئے نہیں بھیجا …. ہر اس تخلیق نے جو اس دنیا میں پیدا ہوئی ہے اسے یہاں سے جانا ہے …. مسافر کیلئے سرائے بنائی تاکہ دنیا میں آنے کے بعد آخرت کی منزل کو پانے کے سفر میں اسے آرام ملے …. آرام کے ساتھ وہ سفر کرتا ہوا ہماری آغوش میں واپس آجائے …..

جب انسان بھول جاتا ہے کہ وہ دنیا کیلئے پیدا نہیں کیا …. بلکہ دنیا انسان کیلئے پیدا کی گئی ہے!…. تو اس کی زندگی میں ترتیب اور توازن نہیں رہتا اور زندگی کی معین مقدار میں درہم برہم ہو جاتی ہیں…. زندگی کی معین مقداریں جب درہم برہم ہو جاتی ہیں تو انسان بے سکون ہو جاتا ہے …. ڈپریشن میں چلا جاتا ہے …. اضطراب، بے چینی، پریشانی اور ڈپریشن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم عارضی دنیا میں، عارضی ترقی کی چکا چوند

میں یہ بھول گئے ہیں کہ ہم مسافر ہیں، ہماری منزل دنیا نہیں ہے …. ہماری منزل اللہ ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2017

Loading