Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ۔

صدائے جرس

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)میرے ساتھیو! میں آپ کا ایک ایسا دوست ہوں جو چاہتا ہے کہ آپ خوش رہیں، آپ خوش رہیں گے تو آپ کا ماحول بھی ترنگ میں آئے گا۔ ایک آدمی کو ہنستا ہوا دیکھ کر دس آدمی بغیر کسی وجہ کے ہنسنے لگتے ہیں اور اسی طرح روتے بسورتے آدمی کو دیکھ کر دس آدمی اداس ہو جاتے ہیں، ایک آدمی کے رونے سے دس آدمی رو پڑتے ہیں اور ایک آدمی کے ہنسنے سے دس آدمی بننے لگتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت بڑے تالاب میں اگر ایک مچھلی سٹڑ جائے تو سارا تالاب بدبو بن جاتا ہے، حالانکہ تالاب میں اس سڑی ہوئی مچھلی کے ساتھ ہزاروں مچھلیاں اور بھی ہیں، مثل مشہور ہے کہ پکتی ہوئی دیگ میں سے ہزاروں لاکھوں چاولوں میں ایک چاول دیکھ کر یہ بتادیا جاتا ہے کہ چاول پک گئے ہیں یاکچے ہیں۔ میرے بچو ! آپ مانیں نہ مانیں، آپ کی عقل اس بات کی وضاحت چاہے نہ چاہے، بہر حال میں آپ کا استاد ہوں ! ، میں نے آپ کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ ہر استاد اپنے شاگردوں پر مہربان ہوتا ہے۔ ہر استاد اپنے شاگردوں کو ایسے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جو مقام استاد کو حاصل نہیں ہے، پرائمری کلاس کا استاد یہ چاہتا ہے کہ اس کا شاگرد اسکول کا ہیڈ ماسٹر بنے، کالج کا پرنسپل نے …. یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے مقام تک پہنچے حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہو۔ دوسرے تمام اساتذہ کی طرح میں بھی یہی چاہتا ہوں !!… جب میں دیکھتا ہوں کہ میرے شاگرد میری تعلیمات کو پڑھتے ہیں، غور کرتے ہیں، ڈسکشن کرتے اور مجھے خطوط لکھتے ہیں تو میر ادل خوشی سے معمور ہو جاتا ہے. میرے دل میں یہ تقاضہ ابھرتا ہے کہ میرے شاگرد دینی اور دنیوی اعتبار سے یکتائے روزگار ہوں. ماہر علم و فنون ہوں …

اب میں اپنے بزرگوں، اپنے خوردوں، اپنے بیٹوں، اپنی بیٹیوں اور اپنے ہم سفر ساتھیوں سے چند دل کی باتیں کرتا ہوں، آپ کو پتہ ہے کہ دل کی باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ دو دوست یا زیادہ دوست ایک دوسرے کے ہمراز بن جائیں …..

میرے ہمسفر مسافرو! آپ سب بھی میرا خاندان ہیں، میں آپ کا دوست ، آپ کا ہمدرد، آپ کا بزرگ ہوں۔ ساری دنیا کے بزرگ اپنی نسل کی حفاظت کرتے ہیں، ان کے اخلاق کو سنوارتے ہیں، شک اور وسوسوں کی جگہ ان کے اندر یقین پیدا کرتے ہیں، غیظ و غضب کی جگہ ان کو محبت والفت سے مانوس کرتے ہیں، بڑوں کا احترام سکھاتے ہیں اور چھوٹوں پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں، ان سب باتوں کا ایک ہی منشاء ہے ، وہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور آئنده آنیوالی نسل با مروت، با حمیت، باعزت اور نیک خو ہو ، عادل ہو ، رحمدل ہو ، اور حق تلفی اس کا شعار نہ ہو۔ میرے بزرگو! میرے بچو! میں بھی چاہتا ہوں کہ موجودہ اور آئندہ نسل چوپایوں سے، پرندوں سے، حشرات الارض سے ممتاز ہو۔ انسان حیوانات سے اس لئے ممتاز ہے کہ اس کے اندر قدرت نے ایسا Chip ڈال دیا ہے جس Chip میں زمین و آسمان کے سارے عجائبات وڈیو فلم بنے ہوئے ہیں۔ زمین کے اوپر انسانی شماریات سے زیادہ درخت، اشجار ، جھاڑیاں، بیل بوٹے، جڑی بوٹیاں،اور سمندر کے اندر لا شمار مخلوقات کے حیات و ممات، بچپن و بلوغت، نسل کشی، کی پوری فلم محفوظ ہے۔ حیوانات سے ممتاز انسان یہ بات بہت آسانی سے جان لیتا ہے کہ کسی بڑے درخت میں تیس فٹ اونچائی پر اس درخت کو پانی کس طرح سیراب کر رہا ہے ، درخت کے اندر کتنی رگیں ہیں، ایک فٹ درخت کے تنے میں کتنا پانی ہے ؟ کتنی سختی ہے، کتنی نرمی ہے اور کتنی مضبوطی ہے۔

حیوانات سے ممتاز انسان اس بات کا بھی اور اک حاصل کر لیتا ہے کہ زمین کے ایک رقبے پر چار درخت لگے ہوئے ہیں، ایک درخت امرود کا ہے، دوسرا انار کا ہے، تیسرا آم کا ہے، چوتھا سنگترے کا ہے، زمین کارقبہ ایک ہے، پانی بھی سب کو یکساں ملتا ہے ، دھوپ بھی سب کیلئے برابر ہے ، رات کی تاریکی بھی سب کے حصے میں یکساں ہے، لیکن ہر درخت پر جب پھل آتا ہے تو اس کا رنگ، روپ، ذائقہ ، خوب صورتی ، بد صورتی سب الگ الگ ہوتا ہے۔ یہ دنیا ایک طرف بقا ہے تو دوسری طرف فتا ہے، ایک طرف فتا ہے تو دوسری طرف بقا ہے۔ فتاو بقا کا یہ کھیل ریت کے گھر وندے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

یہی وہ سر بستہ راز ہے جس کو بتانے، سمجھانے اور عام کرنے کے لئے قدرت روشن اور منور لوگوں کو دھرتی پر بھیجتی ہے اور دھرتی کے یہ روشن چراغ زمین پر بسنے والے لوگوں کو روشنی اور نور سے متعارف کراتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے چراغ سے چراغ جلاتا ہے معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچتی رہتی ہے۔ تمام روحانی لوگ قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو یہ مشعل لے کر چلتے ہیں۔ اس روشنی سے وہ لوگ اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ روشنی پہنچاتے ہیں۔

میرے عزیز دوستو! …. اللہ نے آپ کی محبتوں کو میرے لئے روشن چراغ بنایا ہے۔ میں اسی روشنی میں جیتا ہوں …. خوش ہوتا ہوں …. اور مرنے کے خیال سے تبسم کرتا ہوں کہ مفروضہ حیات ختم ہونے کے بعد بھی چراغ روشن رہیں گے …. روشنی ملے گی …. نور پھیلے گا…. قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا روحانی مشن کامیاب ہو گا۔ ایک چراغ سے لاکھوں چراغ روشن ہوتے ہیں۔

آپ کے من مندر میں قندیل روشن ہو اور قندیل میں چراغ کی روشنی سے آپ کے اندر کا ماحول منور ہو۔

آپ کے اوپر اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں … آپ کا ہمد رو….. دوست اور آپ کا مشفق .استاد خواجہ شمس الدین عظیمی

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اپریل 2025

Loading