Daily Roshni News

صدیوں کا مسافر۔۔۔تحریر :سید عباس ہمدانی

صدیوں کا مسافر

راوی :عبدالمالک
تحریر :سید عباس ہمدانی
قسط نمبر 28

شعب ابی طالب کے تین سال اور عام الحزن

میں مناسب سمجھتا ہوں کہ یہاں شعب میں گزرے ہوئے کٹھن لمحوں کے کچھ واقعات بھی عرض کرتا چلوں ، اعلانِ نبوت کے بعد کفار و مشرکین مکہ کے مختلف وفود سيد العرب جناب ابوطالب علیہ الصلواۃ والسلام کی بارگاہ میں آتے رہے کہ آپ اپنے بھتیجے شہنشاہِ انبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حفاظت سے دست کش ہو جائیں یا ان سے فرمائیں کہ وہ اپنے دین کی تبلیغ نہ کریں ۔ پہلی روایت یہ ہے کہ سید العرب جناب ابوطالب علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ تم لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دو تب بھی میں اپنے
اس یتیم بھتیجے کی نصرت واعانت سے دست کش نہیں ہوں گا ۔
دوسری روایت جس کے زیادہ تر راویان عامتہ میں سے ہیں یہ ہے کہ سید العرب جناب ابوطالب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سرکار خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ بیٹا ! یہ کفار مکہ کہتے ہیں کہ آپ اس دین جدید کی تبلیغ نہ فرمائیں تو جناب سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ یہ لوگ ہمارے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں ، ہم پھر بھی اپنے دین سے دست بردار نہیں ہو سکتے ، اس کے بعد سید العرب
والعجم جناب ابوطالب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کفار و مشرکین کے وفد سے فرمایا تھا میرا لعل صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے دین سے دست کش نہیں ہوسکتا اور ہم ان کی نصرت و حفاظت سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔
اس جواب کے بعد دارالندوہ میں اجتماع قریش ہوا اور سوشل بائیکاٹ کا معاہدہ لکھا گیا جس پر عرب کے چالیس قبائل کے سرداروں نے مہریں لگائیں اور اس معاہدہ میں یہ لکھا کہ خاندان پاک علیہ الصلواۃ والسلام سے ہر قسمی تعلقات ختم کر دئیے جائیں ، خاندان پاک سے شادی بیاه ، خرید و فروخت ، لین دین ، گفتگو اور کلام تک کوئی نہیں کرے گا خاندان پاک سے اس وقت تک صلح نہ کی جائے گی، تاآنکہ وہ حالات کی تنگی سے گھبرا کر رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے ہمارے حوالے کر دیں۔

جس وقت کفار و ملاعین مکہ نے یہ معاہدہ سائن کیا اور اسے دیوار کعبہ کے ساتھ
آویزاں کیا تو اس وقت سید العرب جناب ابو طالب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اطلاع ملی انہوں نے فورا ہجرت کا پروگرام بنایا اور مکہ سے شمال کی طرف پہاڑوں کی درمیانی وادی میں ان کی ایک جاگیر تھی جسے شعب ابو طالب علیہ الصلوٰۃ والسلام کہا جاتا تھا یہاں آ کر رہائش پذیر ہوگئے تاکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھر پور حفاظت کی جا سکے ، یہاں تین سال کے عرصہ میں سید العرب علیہ الصلواۃ والسلام نے سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھر پور حفاظت کی اور اکثر رات کو شہنشاہ انبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بستر پر اپنے بیٹوں میں سے کسی کو سلا دیتے تھے تا کہ اگر کفار مکہ حملہ کر بھی دیں تو ہمارا اپنا بیٹا شہنشاہِ انبیا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر فدا ہو جائے ، یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ شب ہجرت امیر کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام تلواروں کی چھاؤں میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سو گئے تھے، ان تین سالوں میں نہ کسی طرف سے کسی کو آنے دیا گیا اور نہ کسی کو مدد کرنے کی اجازت ملی ، یہ تین سال انتہائی دکھ اور ظاہری فاقوں کے سال تھے اس دوران سامان خورد و نوش مہیا کرنے کی ڈیوٹی امیر کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی اور وہ ہر چیز باہر سے لا کر پہنچاتے تھے صرف دو موسم یعنی حج کے موقع پر آپ باہر نکلتے تھے کیونکہ ایام حج کے دوران کوئی بھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا ، ان ایام میں پاک بنی ہاشم علیہم الصلوٰۃ والسلام شعب سے باہر آتے تھے اور خرید و فروخت فرماتے تھے ، اس دور میں کفار مکہ سال میں دو دفعہ حج ادا کیا کرتے تھے ، ایک حج عمرہ کہلاتا تھا جو رجب کے مہینہ میں پڑھا جاتا تھا اور دوسرا ذوالحجہ کے مہینے میں ہوتا تھا ، اور اس دوران عمومی حج بھی پڑھا جاتا تھا جو شوال کی پہلی تاریخ کو ہوتا تھا اس کو عام طور پر حج نہیں بلکہ عید کہا جاتا تھا، یہ تین سال بنو ہاشم علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اس حصار میں بڑے مشکل گزارے ، اس دوران بعض اوقات فاقہ کشی کی وجہ سے کدو یا کیکر کے درختوں کے پتے بھی استعمال کئے گئے،
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ان تین سالوں میں صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی جناب سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد نہیں کی ، حالانکہ اس وقت مشہور ترین آصحاب والے سارے اصحاب کلمہ پڑھ چکے تھے ، مگر کفار کے معاہدہ کو انہوں نے توڑنے کی کوشش نہیں کی اور کسی نے بھی کوئی چیز شعب میں نہیں بھجوائی ، حالانکہ فاقوں کی وجہ سے جب بنی ہاشم علیہم الصلوٰۃ والسلام کے معصوم بچے روتے تھے تو شعب سے باہر تک ان کے رونے کی آوازیں جاتی تھیں ، مگر نہ کلمہ پڑھنے والوں نے کوئی مدد کی اور نہ ہی دشمنوں نے، اس دوران کفار و مشرکین مکہ کی ناکہ بندی اتنی شدید تھی کہ جناب سیدہ ملیکۃ العرب صلواۃ اللہ علیھا کے ایک بھتیجے یعنی حکیم بن حزام نے اپنے غلام کے ہاتھ کچھ گندم چھپا کر بھجوائی مگر راستے میں ابو جہل ملعون نے دیکھ لیا ، اس نے غلام کو کہا کہ یہ گندم مجھے دے دو مگر اس نے انکار کیا ، یہ چھینا جھپٹی ہو رہی تھی کہ
اس وقت ابو البختری نے آکر تفصیل پوچھی ، غلام نے ساری بات کھول کر بیان کی
یہ سن کر ابو البختری نے ابو جہل ملعون کو کہا کہ اس بات کو تم چھوڑو ، اگر ایک بھتیجا اپنی پاک پھو پھی کیلئے کچھ بھیجتا ہے تو کیا ہرج ہے… ؟ ہشام بن عمرو کے بارے میں بھی روایت ہے کہ وہ بھی کبھی کبھی کچھ غلہ چوری چھپے بھجوا دیتا تھا۔
اس دوران گندم کے دو اونٹ ابولہب جیسے دشمن نے بھی ترس کرتے ہوئے خفیہ طریقے سے بھجوائے تھے، ابو العاص نے بھی گندم کھجور وغیرہ بھیجوائی تھی، کفار و مشرکین میں سے بعض لوگوں کا نام تو مدد کرنے والوں میں لکھا ہوا ہے مگر صحابہ کرام کا نام ان مدد کرنے والوں میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا نہ کا شعب کے معاملہ میں کوئی کردار نظر آتا اور نہ ہی کوئی اظہار ہمدردی یا اعانت و نصرت کا کوئی عملی مظاہرہ سامنے آتا ہے۔

سن 8 بعثت ذوالحج کا مہینہ تھا اس مہینے میں کفار حج کرتے تھے اور اسے امن کا مہینہ کہا جاتا تھا، ہر ایک اپنے دشمنوں سے بے خوف ہوکر باہر آجاتا تھا اس مہینے میں حرم کعبہ میں بہت بڑا اجتماع ہوتا تھا، اس موقع پر سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سید العرب جناب ابو طالب علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا کہ آپ جاکر کفار مکہ سے گفتگو کریں اور ان کو بتائیں کہ تم لوگوں نے جو معاہدہ لکھ کر کعبہ پر آویزاں کیا تھا اس پر اللہ جل جلالہ نے دیمک کو مسلط کر دیا ہے اور سوائے سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پاک اور اللہ کے نام پاک کے باقی سارے معاہدہ کو دیمک کھا چکی ہے، یہ ہماری صداقت کا ثبوت ہے یہ سب کچھ دکھایا گیا مگر پھر بھی کفار کا رویہ نہیں بدلا ۔
اس نا قابل برداشت اذیت کے باوجود سید العرب جناب ابو طالب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہنشاہ انبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر پرستی جاری رکھی اور ان کی سر پرستی میں کار تبلیغ جاری رہا ، دن رات پوشیدہ طور پر بھی اور کھلے بندوں بھی جیسے موقع
ملتا تھا اللہ کے حکم کے مطابق دعوت حق دیتے رہتے اور اس سلسلہ میں کبھی کسی کی
پرواہ نہیں کیا کرتے تھے اس مصیبت کے وقت میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر ظاہری طور پر سہارا تھا تو سيد العرب جناب ابوطالب علیہ الصلواۃ والسلام اور جناب سیده مليكة العرب صلواۃ الله عليها کا تھا ، ہر قسمی تکالیف میں بھی جناب سیدہ ملیکۃ العرب صلواۃ اللہ علیہا نے کبھی سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنے دکھوں کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ شام کو جب سرور کونین صلی للہ علیہ وآلہ سلم گھر میں داخل ہوتے تو جناب سیدہ ملیکۃ العرب صلواۃ اللہ علیہا غم کھا کے، آنسو پی کر مسکرا کر سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر مقدم کرتی تھیں اور تسلی و تشفی دیتیں اور بوقت ضرورت ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں ۔ جناب سیدہ ملیکۃ العرب صلواۃ اللہ علیہا اگرچہ اب شہزادی عرب نہیں تھیں بلکہ وہ تحریک اسلامی کی ایک ممبر تھیں ، نبوت کی مونس و غمخوار تھیں ، رسالت کی پشت پناہ اور اسلام کی معین و مددگار تھیں ، حقیقت یہ ہے کہ وہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک وزیر تھیں جن کے پاس پہنچنے کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم دنیا کے سب غم بھول جاتے تھے ۔ دکھ ، درد، رنج و غم دور
ہو جاتا تھا اور بے پناہ سکون و اطمینان نصیب ہوتا تھا ۔
5 محرم 7 بعثت سے لے کر 9 بعثت تک شعب ابی طالب علیہ الصلواۃ والسلام میں پورے خاندان بنی ہاشم علیہم الصلواۃ والسلام کو قید سخت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا ۔

26 ربیع الاول 9 بعثت کو سید العرب جناب ابو طالب علیہ الصلواۃ والسلام کا وصال الیٰ اللہ ہوا ، اور شہنشاہ انبیاء صلی الہ علیہ آلہ سلم کو اپنے شفیق چچا کی شفقت اور سر پرستی سے ظاہراً محروم ہونا پڑا ، یہ صدمہ انتہائی اذیت ناک تھا اور
ان مشکل حالات میں تو یہ صدمہ نا قابل برداشت بھی تھا
جس وقت سید العرب علیہ الصلواۃ والسلام کے وصال وارتحال کی خبر مکہ شہر میں پہنچی تو دوست دشمن ان کے وصال پر اشکبار ہوئے ، اور اس وقت کفار مکہ سید العرب علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات کی تعزیت کیلئے ابو لہب کے گھر جمع ہوئے جہاں وہ آئندہ کا
پروگرام بھی طے کرنا چاہتے تھے
جس وقت سب لوگوں نے تعزیت کر لی تو ابولہب نے سارے قریش مکہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ”میں اپنا دین نہیں چھوڑ رہا مگر میں یہ بتا دوں کہ آج کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری میں اُٹھا رہا ہوں ، اب اگر ان کے ساتھ کوئی تعرض کرے گا تو میری لاش سے گزر کر کرے گا۔

جناب سید العرب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال وارتحال سے تقریباً چھ ماہ بعد یعنی 10
رمضان 9 سن بعثت میں جناب ملیکۃ العرب صلوات اللہ علیہا کا وصال ہوا ۔ اس سال یعنی
نویں سال کو شہنشا و انبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عام الحزن یعنی دکھوں کا سال قرار
دیا، اس کے بعد ایک سال تک سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبلیغی امور میں زیادہ سرگرم نہیں رہے اور ان کی سرگرمیاں مکہ کے نواح تک محدود رہیں جناب سیدہ مليكة العرب صلواۃ اللہ علیہا کے وصال الیٰ اللہ سے تین ماہ بعد اللہ جل جلالہ نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم فرمایا اور حبشہ کی طرف مسلمانوں کا پہلا قافلہ روانہ ہوا 10 بعثت ماہ شوال میں حضور پاک صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے طائف کا سفر پسند فرمایا ، زید بن حارث شہنشاہ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے ، 10 شوال کے دن وہاں آپ نے تبلیغ فرمائی اور وہاں وہ بدنام زمانہ واقعہ ہوا جس میں شہنشاہِ انبیا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شدید زخمی کر دیا گیا اور آپ نے ایک یہودی کے باغ میں جا کر پناہ لی ۔
یہاں طائف میں بھی آپ پر پتھر کی ایک چٹان لڑھکانے کا پروگرام بنایا گیا تھا اور وہ معجزانہ طور پر ایک فٹبال برابر پتھر پر قائم ہوگئی تھی جو آج بھی قائم ہے۔ جناب سیدہ ملیکۃ العرب صلواۃ اللہ علیھا نے سرور کونین صل اللہ علیہ والہ سلم کے ساتھ قبل از بعثت 14 سال گزارے اور بعد از بعثت 8 سال گزارے، یعنی 22 سال انہوں نے
سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفاقت حیات کا حق ادا فرمایا اور جب وصال الی اللہ ہوا تو ظاہری طور پر کل عمر مبارک کم و بیش 46 سال تھی،
جناب سیدہ مليكة العرب صلواۃ اللہ علیہا کا وصال وارتحال 10 رمضان کو ہوا اور ان کا مزار جون جنت المعلی کے مقام پر بنایا گیا تھا جو آج بھی ایک شکستہ مزار کی صورت ‏
میں موجود ہے۔

مکہ مکرمہ کے شمالی طرف چند میل کے فاصلہ پر پہاڑوں کے درمیان ایک وادی ہے جس کا پرانا نام شعب ابو طالب علیہ اصل اور اسلام تھا اور آج اسے شعب علی علیہ الصلواۃ والسلام کہتے ہیں ، رات کا وقت ہے ، اس شعب میں ایک خستہ مکان ہے ، اس مکان کے اندر ایک مسند ہے جس پر قصرِ اخضر کی شاہانہ فضا میں پلی ہوئی شہزادی ایک بوسیدہ ردا اوڑھ کر آرام فرما رہی ہیں ، مگر آج نہ شاہی ہے، نہ شاہی محل ہے، نہ آرام دہ بستر ہے ، نہ کا فوری شمع ، اور نہ ہی چاندی یا سونے کے شمع دان ہیں ، ایک چھوٹا سا مٹی کا چراغ روشن ہے،
جناب سیدہ ملیکۃ العرب صلواۃ اللہ علیہا کے سرہانے اللہ کی رحمت کل موجود ہیں ، معظمہ بی بی صلواۃ اللہ علیھا کا آخری وقت ہے ، کسی وقت معظمہ ء کو نین صلواۃ اللہ علیہا نے آنکھیں کھولیں ، اپنے سرتاج و معراج کو اپنے سرہانے موجود پایا ، پاک معظمہ بی بی صلواۃ اللہ علیھا نے پاک سرتاج کا دست مبارک اپنے ہاتھوں میں لے کر عرض کیا کہ آج یہ ہماری اس دنیائے فانی میں آخری رات ہے، ہم نے 22 سال آپ کے ساتھ گزارے ہیں ، اگر اس دوران ہم سے آپ کی خدمت اور کنیزی میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہو تو ہمیں معاف فرمائیے گا،
‏ آخر میں اپنی کمسن بیٹی صلواۃ اللہ علیھا کی پیشانی اقدس پر بوسہ دے کر فرمایا کہ میرے جانے کے بعد آپ نے اپنے بابا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بہت بہت خیال رکھنا ہے، ان کے دشمن بہت ہیں لیکن آپ نے ہر حالت میں اپنا فرض نبھانا ہے، یہ فرما کر پاک سیدہ ملیکتہ العرب صلواۃ اللہ علیھا پردہ فرما گئیں ۔
جاری ہے……!
عباس ہمدانی 59

Loading