صدی ربع پہلے
سوچ
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سوچ ۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)اس ماہ کے مضامین میں سوچ، حضرت قلندر بابا اولیان، ایک روشن نام، تشریح رباعیات قلندر بابا اولیاء، گنجینہ علم عرفان اور گوالا زندہ ہو گیا۔ مکتوب حضرت قلندر بابا اولیاء حضرت ابراہیم ، ذہنی سکون کا مرکز بنت رسول حضرت رقیه ، خاتون اول، مجرم، سائنس اور یونانی فلسفہ ، صدر مملکت کا ایمان افروز خطاب، محفل میلاد النبی جبکہ سلسلہ وار مضامین میں نور الہی نور نبوت، آواز دوست، صاحب خلق عظیم، گیارہ ہزار فریکوئنسی، پیراسائیکالوجی، پر اسرار آدمی اللہ رکھی، محفل مراقبہ اور آپ کے مسائل شامل تھے۔ اس شمارے سے منتخب کردہ تحریر ”سوچ” قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے دی جارہی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیا کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انفرادیت سے آزاد ہو جاؤ۔ انفرادیت سے آزاد ہو کر اپنے ذہن کو اجتماعی بنا لو۔
جب آپ اجتماعی ذہن بنالیں گے تو چونکہ آپ کا ذہن لا محدود دائرے میں داخل ہو گیا ہے اب کوئی آدمی برا کہے گا تو آپ کو برا نہیں لگے گا۔ اس لئے کہ برا محسوس کرنا انفرادی سوچ ہے۔ آپ کی کوئی آدمی تعریف کرتا ہے، آپ خوشی سے پاگل یا دیوانے نہیں ہو جائیں گے یا تکبر نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ یہ انفرادی سوچ ہے جو خوشامد کو پسند کرتی ہے۔ اجتماعی سوچ میں خوشامد نہیں ہے۔ جب تک آپ کے اندر اخلاص پیدا نہیں ہو گا آپ اجتماعیت میں داخل نہیں ہو سکتے اور اخلاص جب پیدا ہو گیا تو کوئی برا کہے کوئی اچھا، اس کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
میں اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں، ایک اخبار میں، میں کالم لکھا کرتا تھا۔ وہاں ایک جنرل منیجر صاحب تھے۔ تنخواہ کا مسئلہ تھا مجھے اس زمانہ میں دو سو روپے تنخواہ ملتی تھی۔ میں نے کہا میری تنخواہ بڑھاؤ یہ بہت کم تنخواہ ہے۔ قصہ مختصر ایک دفعہ ان کے یہاں ڈائر یکٹر ان ( (Directors کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ میں اس کمرے میں چلا گیا۔ غصے میں بغیر اجازت کے اور میں نے کہا۔ میر افیصلہ ہو جائے، اگر کالم لکھواتا ہے آپ کو لکھوائیں، میری تنخواہ بڑھائیں۔ دو سو کہ روپے میں گزارا نہیں ہو تا۔یہ بات غصے میں ہو گئی جو نہیں ہونی چاہئے تھی۔
اس پر جنرل منیجر نے سخت ست کہا۔ میں نے بھی انہیں سخت ست کہا۔ انہوں نے کہا میں آپ کا کالم ختم کر دوں گا۔ میں نے کہا کہ میں آپ کی کرسی چھین لوں گا…. اور میں آپے سے باہر ہو گیا۔
دل میں یہ تھا کہ حضور قلندر بابا اولیانہ سے جاکر عرض کروں گاوہ ایسا کر دیں گے۔ میں اخبار سے نکلا اور سیدھا حیدری ( جگہ کا نام) پہنچا۔ غصے کے مارے برا حال تھا۔ حضور قلندر بابا نے کہا۔ کیا بات ہے بیٹھیں۔ پانی پلوایا۔ ابھی میں کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ خواجہ صاحب …. ! بات یہ ہے کہ آپ نے جو حرکت کی ہے بہت غلط ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں نے صفائی پیش کی کہ فلاں صاحب نے یوں کہا۔
انہوں نے کہا کہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ یہاں زمین پر ہو رہا ہے یا کائنات میں ہو رہا ہے۔ یہ سب اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے یا کسی بندے کے حکم سے ہو رہا ہے….؟
میں نے کہا کہ اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے۔ کہنے لگے اللہ نے آپ کو جنرل منیجر کی کرسی پر کیوں نہیں بٹھا دیا۔ آپ کو کالم نویس کیوں بنایا۔ آپ کون ہوتے ہیں قصہ کرنے والے۔ اگر آپ میں صلاحیت ہوتی تو آپ جنرل منیجر ہوتے۔ یہ کون سا طریقہ ہے….؟ وہ بہت
زیادہ ناراض ہو گئے۔
میں نے سوچا کہ بات ہی الٹی ہو گئی واقعی غلطی میری تھی۔ بات سیدھی تھی کہ جب اللہ ہی سب کچھ کر رہا ہے تو مجھے جنرل منیجر کیوں نہیں بنایا۔ مجھے اللہ نے جنرل منیجر کے ماتحت کیوں کیا۔ میں دودن تیک دفتر نہیں گیا۔ شرمندگی کی وجہ سے کہ غلطی میری تھی۔ دو دن کے بعد پھر گیا تو جنرل منیجر نے مجھے دیکھا۔ میں شرم کے مارے آنکھ نہیں اٹھا سکا کیونکہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ تیزی سے میری طرف بڑھے اور ہاتھ پکڑ کر مجھے کمرے میں لے گئے اور کنڈی لگا دی۔ انہوں نے کہا کہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ اس روز آپ نے کیا آپ کی غلطی تھی لیکن بعد میں، میں نے محسوس کیا کہ غلطی میری بھی تھی۔ میں ڈائریکٹر ان کی میٹنگ میں کہہ دیتا کہ ان کا کیس ہے نظر ثانی کرو۔ اگر وہ بڑھاتے پیسے بڑھ جاتے نہ بڑھاتے نہ بڑھتے۔ میرا کیا حرج تھا۔ بھئی میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا۔ جناب! میں اپنے پیر و مرشد کے پاس گیا تھا۔ مجھے الٹی بہت ڈانٹ پڑی ہے۔ جناب میں بہت شرمندہ ہوں۔ آپ مجھے معاف کر دیں۔ گلے ملے اور بات صاف ہو گئی۔ مجھے انہوں نے ناشتہ پر بلایا، میں نے انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگے اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دل صاف نہیں ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں آجاؤں گا۔ ناشتہ کیا، ناشتہ کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔
میں نے کہا۔ سنائیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس دن یہ واقعہ ہوارات کو مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پھر سوچا کہ میں نے غلطی نہیں کی۔ غلطی خواجہ صاحب کی ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں سو گیا۔ رات کو ڈھائی بجے کے قریب کروٹ جولی تو ہاتھ سن ہو گیا۔ میں نے کہا اب کیا ہو گا۔ میں نے بیوی کو آواز دی کہ میرا ہاتھ فالج زدہ ہو گیا۔ بہت مالش کی۔ میں رونے لگا، بچوں کا کیا ہو گا۔ روتےروتے آپ کا خیال آیا۔ ذہن میں یہ بات آئی کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔
بیوی سے کہا نفل پڑھ کر دعا استغفار کرو۔ پھر آ کر بیوی نے سکائی کی تو ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔
حضور قلند ر ہاہا فرماتے ہیں کہ فقیر کی عجیب شان ہے۔ میں نے کہا کیا شان ہے ؟ فرمایا۔ لوگ بے وقوف بناتے ہیں، آخر تک بنا رہتا ہے۔ فقیر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے ہو قوف بنا کر یہ خوش ہو رہا ہے تو چلو اسے خوش ہونے دو، بیوقوف بنتا چلا جاتا ہے تاوقتیکہ وہ بندہ خود ہی بھاگ جائے، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔ پھر فرمایا کہ حضور صلی یم نے اس بات کو اس طرح فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ دیکھا تو وہ عام انسانوں کی طرح ہے لیکن اس کے دیکھنے میں اور عام انسانوں کے دیکھنے میں فرق ہے۔ عام انسان کی آنکھوں پر شعور کا چشمہ لگا ہوا ہے۔ محدود شعور کا چشمہ اور مومن کی آنکھ پر اللہ کے نور کا چشمہ لگا ہوا ہے لیکن وہ اللہ کے نور سے جو کچھ دیکھتا ہے اس پر اتر اتنا نہیں ہے اور نہ اس کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بھی فرمایا جو آدمی تمہاری تعریف کر رہا ہے وہ اس لئے تمہاری تعریف کر رہا ہے یا تو اسے تمہاری ذات سے کوئی توقع ہے کہ اس کا کوئی کام ہو جائے گا یا اس کا کوئی کام ہو گیا ہے۔ اس نے ایک توقع قائم کر لی کہ مجھے اس آدمی سے کسی بھی وقت ایک ہزار روپے مل جائیں گے چونکہ اس نے توقع قائم کی ہوئی ہے۔ اس بنیاد پر وہ اس کی خوشامد بھی کرے گا۔ اگر اس کی توقع پوری نہیں ہوتی تو وہی آدمی جو آپ کی تعریف کر رہا ہے، برائی کرے گا۔ کسی آدمی کا اچھا سمجھنا یا برا کہنا دونوں زائد باتیں ہیں۔ آپ اس کی خدمت میں لگے رہیئے۔ وہ آپ کو اچھا کہتا رہے گا۔ آپ اس کی خدمت سے انکار کر دیجئے وہ آپ کو برا کہے گا۔ اگر آپ اس کی تعریف اور برائی سے بے نیاز ہو جائیں توآپ کے پاس آنا جانا چھوڑ دے گا۔
حضور قلندر باباؒ فرماتے ہیں کہ کسی کی تعریف سے کیا خوش ہونا اور کسی کی برائی سے کیا دل برا کرنا۔ ایک اور واقعہ سنیئے۔ ایک صاحب سے منہ زوری
ہو گئی لڑائی ہو گئی۔ میں حضور قلندر باباؒ کے پاس گیا حضور فلاں صاحب سے لڑائی ہو گئی۔ اس نے مجھے یوں کہا، یوں کہا۔ قلندر بابا ؒنے کہا۔
ٹھیک ہے….. آپ یہاں بیٹھیں۔ اس نے آپ کو برا کہا۔ جس وقت اس نے آپ کو گالی دی اس وقت آپ کا وزن کتنا تھا۔ میں نے کہا کہ ایک من میں سیر تھا۔ گالی دینے کے بعد وزن تلوایا تھا کیا ایک سیر کم ہو گیا۔ میں نے کہا جی نہیں۔ انہوں نے کہا خواہ مخواہ ہی
تھک رہے ہو۔
بعد میں فرمایا، غور کریں کہ جس وقت اس نے گالی دی اس وقت تو آپ کا وزن کم نہیں ہوا۔ وہ گالی دے کر بھول بھی گیا اب آپ کے اندر جتنی دیر تک انتقامی جذ به عود کرتارہے گا آپ کا وزن کم ہوتا رہے گا۔ وزن گالی سے نہیں گھٹا۔ وزن انتقام کے جذبے سے کم ہوا، تکلیف بھی ہوئی اور وزن بھی گھٹا اور وہ آرام سے سو رہا ہے۔
فرمایا کوئی اچھا کہے یا برا کہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ عبوری چیزیں ہیں۔ انہیں کبھی خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ بس اپنی طرف سے جس کے ساتھ اچھائی ہو سکے کرو۔ جو کچھ آپ کر سکتے ہیں کر دیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2015