Daily Roshni News

صدی ربع پہلے۔۔۔ تحریر۔۔۔شیخ فقیر محمد عظیمی۔۔۔قسط نمبر1

صدی ربع پہلے

تحریر۔۔۔شیخ فقیر محمد عظیمی

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدی ربع پہلے۔۔۔ تحریر۔۔۔شیخ فقیر محمد عظیمی) کخواب کا قیمتی اساس اور اہ عقیدت پیش کیا۔ بابا صاحب فرماتے ہیں کہ نانا تاج الدیؒن نے سیٹھ کے سامنے اس لباس کو پہن لیا اور کچھ دیر تک اس کی دلجمعی کے لیے کنیا میں ملتے رہے۔ سیٹھ کے جانے کے بعد آپ نے اس کیا کی ریکی زمین کی گیلی منلیکو جو کیچڑ بن گئی تھی، ہاتھ میں لے کر اس قیقی لباس پر جگہ جگہ مانا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے تھے کہ کیا میں اس کپڑے کی خاطر اپنی زندگی در ( ضائع) کردوں۔ قلندر بالا فرماتے ہیں که ای دان سے میری نظر میں قیمتی اشیاء کی حیثیت ختم ہو گئی۔ یہ حضرت بابا قلندر کے ماہرین کا واقعہ ہے۔ آپ نے ہی حضرت نانا کے طرز عمل پراعتراض کیا تھا۔

اسی نشست میں حضور قلندر بابا اولیات نے جانا کے جلال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے پر اسرار کلمات کو یوں بیان کیا۔ کیا ہم نے جھیلیں یوں ہی بنائی ہیں۔ (یعنی ان میں لوگ تو آئیں گے )۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان لمحات میں ماضی، حال اور مستقبل کا کون سا پیزار کن منظر پیش نظر تھا جس نے اس خوفناک وعید کی صورت میں پایا تاج الدین کے پاک و شمال ذہن کو ٹھیس پہنچائی تھی۔ حضرت قلندر بابا اولیات نے یہ نہیں بیان کیا۔ اور نہ کسی کو اس مجلس میں ہے سوال کرنے کی جرات ہوئی کہ حضرت نانا تاج الدیؒن نے ایسے جلالی کلمات کسی واقعاتی پس منظر میں کہے تھے۔ اس دو طرفہ خاموشی سے افہام و تقسیم کا ہی پیلو کہا ہے کہ اگر اس کی توضیح کی واقعی ضرورت ہوتی تو حضرت قلندر بابا اولیاؒ استفسار کا انتظار کیے بغیر خودی امداد دیتے۔ دوسر اپہلو یہ  سامنے آتا ہے اوریہی زیاد قرین قیاس ہے کہ بیان کرتے وقت حضرت قلندر بابا اولیات نے خود اپنے اہن میں اس واقعہ کی تمثیل کو باطن میں بانی اخترام دیکھا اور ان پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو بچپن میں واقع ہوئی تھی۔ ایک نشست میں سود کے متعلق ذکر ہوا۔ آپ نے فرمایا۔ دنیا کی ساری برائی سود کی وجہ سے ہے۔ اگر سود کا خاتمہ نہ ہو اتور نائٹر اب و ختم ہو جائے گی۔ آپ نے مزید فرمایا کہ میرے نزدیک بہترین عمل سود سے اجتناب ہے۔ حضور سلام کی شان والا کا ذکر ان الفاظ میں کیا کہ آپ ملا کلام نے دنیا میں سب سے پہلے سود کی حرمت (حرام قرار دیتے) کااعلان کیا۔

توبہ” کے متعلق استفسار پر چند بیش بہا باتیں فرمائیں: انسان فطر جا یعنی اپنی پیدائش ہی سے کچھ اچھے کچھ برے اعمال کا تصور لے کر آتا ہے۔ اچھے عمل پر کار بند رہنے سے اس کے دل کو اطمینان رہتا ہے اور اپنے عقیدے کے تحت برے عمل سے پتا رہتا ہے۔ اگر کوئی کام سیوا سر زد ہو جائے تو دل میں کتک محسوس کرتا ہے، پچھتاتا ہے اور اس سے تو یہ کرتا ہے کہ یہ نادانستہ غلطی ہوگئی۔ اور تو بہ مقبول ہو جاتی ہے تو یہ اللہ کو پسند ہے مگر جب کسی گناہ کو قصد کیا جائے تو جب تک اس گناہ یا برے کام سے بچنے کا حتی اقرار نہ کیا جائے اور اس پر سکتی سے حمل بھی نہ کیا جائے توبہ توبہ قبول نہیں ہوتی۔

قلندر بابا ؒکے مزاج میں شگفتگی  اور بزلہ سجی کی کمی نہ تھی۔ بعض مرتبہ ایسے اشعار بھی بے تکلف سنا جاتے تھے کہ حاضرین محفل حد ادب و احترام میں رہتے ہوئے ان کی داد بھی دیتے تھے اور جو اباحضور  صرف زیر لب مسکراتے تھے۔ آپ بھی اس ضمن میں پیش کیے گئے (ذاتی کلام سے ہٹ کر ) چند شگفتہ و شتہ اشعار سے لطف اندوز ہوں۔

جام سے توبہ شکن، تو بہ مری جام شکن

 سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیانوں کے

 (ریاض خیر آبادی)

اس نے دیوانہ سمجھ کر نہ کیا مجھ سے حجاب

 چاک ہو کر تو بڑے کام گریباں آیا

یہ کالی کالی بوتلیں ہیں جو شراب ک

ی راتیں انہی میں بند ہیں عہد شباب کی

(ریاض خیر آبادی)

فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے

 کیا کوئی وحشی اور آیا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا

 ( فانی بدایونی)

گوہربان (کلکتہ کی مشہور خوش ذوق اور خوش ادا مغنیہ) کے متعلق اکبر الہ آبادی کا اتنا ہی فی البدیہہاور شگفتہ شعر

خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا

 سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

 ہماری روز مرہ زندگی میں دو امور بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یعنی خواہش یا ارادہ کی تکمیل اورنامساعد حالات میں صبر و استقلال کا فقدان۔

 1۔ ہم بسا اوقات ذکر و شمار سے کام لے کر تسبیح کے دانوں کی طرح اپنے ارادہ، اپنی خواہش یا اپنی دعا کو دہراتے رہتے ہیں مگر نتیجہ عموما صفر ہی رہتا ہے ارادہ کی تکمیل کے سلسلہ میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔

ارادہ کی تکرار (بار بار دہرانا) ارادہ کی قوت ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ارادہ سوا لاکھ بار ہی دہرایا جائے۔ لیکن ارادہ میں اتنی قوت ہونی چاہیے، جو سوا لاکھ بار دہرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ قوت موجود ہے تو ایک حرکت کافی ہے۔

جس مطلب کا ارادہ ہو، وہ مطلب اپنی پوری شکل و صورت کے ساتھ ارادہ میں مرکوز ہونا ضروریہے بغیر شکل و صورت کے کسی ارادہ کو ارادہ نہیںکہہ سکتے…

. 2 کم ہمتی پیش آنے والی پابندیوں سے فرار ڈھونڈنا ہے۔ کم ہمتی دہرے نقصان کا سبب بنتی ہے۔ یعنی ناکامی بھی ہوتی ہے اور نقصان بھیاٹھانا پڑتا ہے۔

قلندر بابا اولیاؒنا فرماتے ہیں: اگر کوئی پابندی اس نے ( جو حالات کا شکار ہے) رضا کارانہ برداشت کرتا کہ تو اس کا فائدہ اس کو ملتا ہے اور وہ فائدہ اس کا انعام ہے۔ لیکن اگر کوئی مجبوراً پابندی برداشت کرتا ہے (کیونکہ اس سے مفر نہیں) تو اس کے لیے وہی پابندی سزا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری 2016

Loading