Daily Roshni News

صدی ربع پہلے۔۔۔ تحریر۔۔۔شیخ فقیر محمد عظیمی۔۔۔قسط نمبر1

صدی ربع پہلے

تحریر۔۔۔شیخ فقیر محمد عظیمی

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدی ربع پہلے۔۔۔ تحریر۔۔۔شیخ فقیر محمد عظیمی) اس ماہ کے مضامین میں رباعیات مع تشریحات، شہر کے باب، جنوری 1991 ء کے شمارے کا سروری حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ، عظمت کے قند مل، اقتباسات لوح و قلم، قلندر بابا کی تحریر اور نقشے ، مراقبہ کی کیفیات و واردات، شیطان کے سفیر اسود عنسی، نظریہ حیات، روح کہانی، موت کے آخری لمحات، روحانیت اور خواتین، کھانسی سے نجات، اجلے لوگ، لڑکی دیکھنے کی رسم، آرائش و زیبائش، بلا عنوان، ناقابل فراموش واقعه، ادھوری کہانی، سیرت النبی بعد از وصال النبی، ننھے بھالو کے دل میں اسکول جانے کا شوق پیدا ہو گیا، جبکہ سلسلہ وار مضامین میں نور الہی نور نبوت، صدائے جرس، دبستان خیال، محفل مراقبہ، اللہ رکھی، بچوں کےاللہ میاں، پر اسرار آدمی اور آپ کے مسائل شامل تھے۔اس شمارے سے منتخب کردہ تحریر ” قلندر بابا اولیاؒ کا طرز تفہیم” قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے پیش کیجاری ہے۔

عمر بادر کعبہ و بت خانہ می نالد حیات

 تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں (علامہ اقبال)

ابدال حق حضور قلندر بابا اولیائ کی ظاہری و معنوی زندگی موجودہ اختتام پذیر صدی میں فیضان الہی کا بیش بہا سرمایہ ہے۔ قلب و ذہن اس بات کی اجازت نہیں دیتےکہ آپ کا ذکر مسعود زمانہ ماضی میں کیا جائے۔ یعنی سرمایہ ہے کی جگہ سرمایہ تھی لکھا جائے۔ حضور قلندر بابا اولیا کا وجود زندگی کی بے چین فریاد کی تسکین ہے جسے کائنات کی بزم عشق سے دانائے راز کی صورت میں قدرت نے ایک معنی خیز آب و گل کے سانچے میں ڈھالا تھا۔ اقبال تو جنوں کے سکھائے ہوئے حرف راز کو بیان کرنے کے لیے نفس جبرئیل کا انتظار کرتے رہے اور جب، ان کے جنوں نے ان کا قلم روک دیا توانہیں صرف اتنا کہنے کا حوصلہ ہوا۔

وہ حرف راز جو مجھ کو سکھا گیا  ہ جنوں

 خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں(علامہ اقبال)

مگر حضور قلندر بابا اولیاؒ نے اس بھری بزم میں ای راز کو بر ملا بیان کر کے عقل و خرو کے لیے سامانفکر و نظر مہیا کر دیا۔ آپ کی ہدایت و ارشاد کا ممتاز وصف یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا، لکھایا، تلقین فرمائی اس کا تخاطب بر او راست ذہن انسانی ہے۔ یہی اس مضمون کا مدعاو مقصود ہے کہ آپ کے ملفوظات و کلمات کو بعینہ اسی طرح پیش کیا جائے جیسا کہ آپ نے بیان فرمائے۔ آپ کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے ملفوظات سخن فہمی کی ہر صنف میں یکساں موجود ہیں اور جو نثر شعر و اشعار بن کر سر محفل دجیسے لیجے میں پند و نصائح یا بزلہ سنجی سمیت ہلکے پھلکے متبسم انداز تکلم میں پیش کیے جاتے رہے ہیں وہ اپنے اندر معنوی نکات کا بیش بہا خزا بہ لیے ہوتے ہیں۔ جنہیں سنتے تو تمام حاضرین مجلس تھے یا پڑھنے والے پڑھتے تھے مگر ان کے ادراک و فہم آفرینی کا لطف وہی لوگ اٹھاتے تھے جن کا ذہن حضور قلندر اولیانہ کے قرب ذہنی سے ہم آہنگ ہو تا تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے واشگاف انداز میںفرمایا تھا۔

“ہم آپ کا مطلب سمجھ گئے تھے۔ ہم ذہن پڑھتے ہیں۔ الفاظ اور ان کے معنے ہمارے سامنے نہیں ہوتے ۔ ہمارے مرشد نے ہمیں خلافت یونہینہیں دے دی تھی۔“آپ بھی حضور کے ماورائی لہجے میں کہے گئے ارشاد ” ہم ذہن پڑھتے ہیں “ کو بار بار پڑھیں گے تو آپ کے ذہن کی لہریں ایک ایک کر کے کھلتی جائیں گی اور اگر آپ اس قول کی گہرائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو آپ کا ذہن بھی حضور قلندر بابا اولیانہ کے ذہن مبارک کے زیر سایہ دوسروں کا ذہن پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔آپ کی طرز تفہیم کا وصف یہ تھا کہ کسی واقعہ تمثیل، لطیفه، شعر وغیرہ بیان کرنے میں صرف کلیدی کلمات استعمال کرتے تھے۔ طول بیان، اور تشریح و توضیح کو ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ توقع کرتے تھے کہ اس گورکھ دھندے میں آپ کے سامعین بھی مبتلا نہ ہوں اور براہ راست الفاظ کی روح کو اپنے فہم کی روح میں داخل کر لیں۔

اسے عمر محضر سے کیا غرض جسے اک نظر میں وہ مل گیا وہی لمحہ بھر کی تھی جستجو جو ہزار سال کی بات ہے حضور قلندر بابا اولیاؒ اکثر و بیشتر عمومی افهام و تفہیم کے لیے اپنے ساتھ یا اپنے سامنے ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر کسی خیال یا نکتہ کو پیش کیا کرتے تھے۔ اس سے حقیقت بیانی اور صداقت نظریہ و خیال کے متعلق کوئی ابہام یا عدم صداقت کا شائبہ تک نہیں ہو تا تھا۔ مثلا نمود و تفاخر کو زندگی سے ملوث نہ کرنے کا عہد اس واقعہ کے ضمن میں پیش آیا جب ایک مرتبہ ممبئی کے ایک سیٹھ نے بابا تاج الدینؒ ناگپوری (حضور قلندر بابا اولیاءؒکے محترم نانا) کو۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری 2016

Loading