صوفیا کی تعلیمات اور مراقبہ
تحریر۔۔۔پروفیسر محمد طاہر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ صوفیا کی تعلیمات اور مراقبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔ پروفیسر محمد طاہر)شیخ عبد القادر جیلانی کتاب غنیۃ الطالبین“ میں لکھتے ہیں “مجاہدہ کا کمال اور اہتمام مراقبہ ہے۔ مراقبہ یہ ہے کہ بندہ کو یہ علم ہو کہ میرا پروردگار میرے حال سے واقف ہے۔شیخ عبد القادر جیلانی کا قول ہے کہ جلوت وخلوت میں حق تعالی کی طرف دھیان رکھنا مراقبہ ہے۔ مام غزالی فرماتے ہیں مراقبہ کے لغوی معنی نگرانی کرنا، نظر رکھنا، دیکھ بھال کرنا کے ہیں ، اس کا حقیقی معنی اللہ کا لحاظ کرنا اور اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے اور جب بندے کو اس بات کا علم (معرفت) ہو جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اللہ دل کی باتوں پر مطلع ہے، پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، بندوں کے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ہر جان کے عمل سے واقف ہے، اس پر دل کار از اس طرح عیاں ہے جیسے مخلوق کے لیے جسم کا ظاہری حصہ عیاں ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ عیاں ہے، جب اس طرح کی معرفت حاصل ہو جائے اور شک یقین میں بدل جائے تو اس سے پیدا ہونے والی کیفیت کو مراقبہ کہتے ہیں۔ [ احیاء العلوم] امام غزالی فرماتے ہیں مراقبہ کا کمال یہ ہے کہ ہر وقت حق تعالی اس کے مشاہدہ میں رہے اور اللہ ہر لحظہ اس کے پیش نظر ر ہے۔
شیخ شہاب الدین سہر وردی اپنی کتاب ” عوارف المعارف“ میں لکھتے ہیں …. ” مراقبہ سے غفلت کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ مراقبہ کی وجہ ہی سے مشاہدہ کا حال طاری ہو جاتا ہے۔“
کتاب “مراۃ العاشقین“ میں حضرت شمس الدین سیالوی فرماتے ہیں …. ” مراقبہ اللہ ناظری واللہ سعی اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اللہ کی معرفت کے لیے جد وجہد کر رہا ہوں ) کرنا چاہیے۔“
حضرت خواجہ نجم الدین کبریا مراقبہ کے متعلق اپنی کتاب تبصر دور سالہ“ میں فرماتے ہیں…. ” مراقبہ سے مراد اپنی قوت و طاقت کے دائرے سے نکل کر خداوند کریم کی بخشش و عنایت کا منتظر ہو جانا ہے۔
اپنے تمام اوصاف و احوال سے بیزار ہو کر اس کی ملاقات کا مشتاق اور اس کے خیال میں مستغرق رہنا۔ جان و دل اس کے لیے بے قرار رہے۔ اس سے مدد مانگے اور اسی سے فریاد کرے۔ یہاں تک کہ خدا اس پر اپنی رحمت کا دروازہ کشادہ فرمادے۔
حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کی تعلیمات کے متعلق مصنف الاخبار الاخیار نے کچھ اقوال نقل کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے۔ آپ نے فرمایا…. مرید مراقبہ کرنے والا اپنے اوقات کی جانچ پڑتال کرنے والا ہوتا ہے۔“
حضرت امام ابو طالب کی اپنی کتاب ” قوت القلوب باب ششم میں لکھتے ہیں ….
بغیر مراقبہ کے مشاہدہ نا ممکن ہے اور مشاہدہ کے بغیر روح کا عرفان حاصل نہیں ہو سکتا۔“ امام القاسم قشیری اپنے “رسالہ منتشر یہ “ کے باب نمبر 5 کے حصہ (ق) میں لکھتے ہیں….
یادر کھ وکہ اللہ تعالی ہر حالت میں تم سے قریب ہے اور تمہیں دیکھ رہا ہے اس لیے تم ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہو اور اس کے لیے مراقبہ لازمی ہے اور مراقبہ ہی سے مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔“
طاؤس الفقراء ابو نصر سراج اپنی کتاب ” المع“ کے باب نمبر 25 مراقبتہ الاحوال میں مراقبہ کے متعلق مفصل لکھتے ہوئے کہتے ہیں … ” مراقبہ کے بغیر روح کا عرفان ممکن نہیں۔“
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ قوت اوراک کو کسی چیز کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔ یہ تو جہ اس طرح ہو کہ عقل، وہم ، خیال اور سارے حواس اس توجہ کے تابع ہو جائیں اور جو چیز محسوس نہ ہو وہ بجائے محسوس ہونے کے معلوم ہو جائے۔“ حضرت غوث علی شاہ قلند ر فرماتے ہیں،
مراقبہ کی ایک حالت یہ ہے کہ ہر وقت مراقبہ کرنے والے کی توجہ قلب کی طرف رہتی ہے ۔ وہ ہمیشہ قلبی کیفیات میں مشغول و متوجہ رہتا ہے ۔ دوسری حالت یہ ہے کہ اسمائے الہی میں سے کسی اسم یا قرآنی آیت کے معنی پر اپنی تمام توجہ مبذول رکھے۔ * حضرت ابو عثمان مغربی فرماتے ہیں
جو چیزیں آدمی راہ سلوک میں اپنے اوپر لازم کرتا ہے ان میں سب سے بہتر محاسب و مراقبہ ہے۔“ حضرت سخی سلطان باہو فرماتے ہیں: مراقبہ دل کی نگہبانی کو کہتے ہیں۔ مراقبہ ایک نگہبان ہے جو غیر حق رقیب مثلاً خطرات نفسانی، خطرات شیطانی، امراض
پریشانی اور ماسوی اللہ کسی چیز کو دل میں نہیں آنے دیتا۔ ( شمس العارفین)
حضرت قلندر بابا اولیاء اپنی کتاب ”لوح و قلم میں فرماتے ہیں۔
اگر انسان شعور کے آئینہ میں علوم لدنیہ کے تصویری عکس دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو تو اس کی ایک بہت ہی سہل ترکیب ہے۔ وہ کسی تاریک گوشہ میں جہاں گرمی اور سردی معمول سے زیادہ نہ ہو بیٹھ جائے۔ ہاتھ ، پیروں اور جسم کے تمام اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دے، اتنا ڈھیلا کہ محسوس نہ ہو کہ جسم موجود ہے۔ سانس کی رفتار کم سے کم کرنا ضروری ہے۔ سانس کی رفتار تیز نہیں ہونی چاہئے۔ آنکھیں بند کرلے اور اپنی ذات کے اندر جھانکنے کی کوشش کرے۔ اگر اس کے خیالات اور اس کا عمل پاکیزہ ہے تو اس عمل سے اس کا اطیقہ نفسی بہت جلد رحمین ہو جائے گا اور لطیفہ نفسی رحمین ہو جانے سے شعور کے اندر جلا پیدا ہوتی جائے گی۔ تصوف میں اس عمل کا نام مراقبہ ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں….
بے قراری، عدم سکون اور اضطراب سے رستگاری حاصل کرنے کے لیے اسلاف سے جو ہمیں ورثہ ملا ہے اس کا نام مراقبہ ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ہم اپنے اندر مخفی صفات کو منظر عام پر لا سکتے ہیں۔ خوف و دہشت میں مبتلاء عدم تحفظ کے احساس میں سسکتی اور مصائب و آلام میں گرفتار نوع انسانی کے لیے مراقبہ ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کر کے زندہ قوموں کی صفوں میں ممتاز مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2022