طاہر رسول / Film Walay فلم والے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دو ہزار دس میں مجھے بینکاک جانے کا موقع ملا۔ کسی بھی غیر ملک کا یہ میرا پہلا دورہ تھا۔ جہاں اور بہت سی چیزیں مجھے دیکھنے کو ملیں وہاں ایک شے جو بہت شدت سے محسوس ہوئی وہ غیر ملکیوں کا ہمارے ساتھ روکھا رویہ تھا۔
میرے ساتھی کولیگز غیر ملکیوں کیساتھ بات چیت کرتے تو اپنا ملک انڈیا بتاتے۔ جواب میں مخاطب ان کیساتھ بڑی شاٸستگی سے پیش آتے۔ اور اگر میں یا کوٸی اور دوست بتا دیتے کہ ہم پاکستان سے ہیں تو یہ سنتے ہی محسوس ہوتا جیسے اگلےبندے کی بتی گل ہو گٸی ہے۔ وہ جلدی سے بات ختم کرتا اور نکل جاتا۔ بعد میں جب اس پر بات چیت ہوٸی کہ کیوں پاکستانیوں کو کوٸی گھاس نہیں ڈالتا اور اسکے برعکس لوگ انڈیا اور وہاں سے آٸے لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور ان سے بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم پر کھلا کہ انڈیا اپنے فنون لطیفہ بالخصوص فلم کو عالمی مارکیٹ میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور بہت بڑی تعداد میں کرتا ہے سو یہاں لوگ انڈینز کو انکی فلموں کی وجہ سے جانتے ہیں۔
انڈیا کا کلچرل ایکسپوژر ہے جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک میں مقبول ہے دوسری طرف ہمارے پاکستان میں ہمارے ابا جی کے ایک مرحوم شاعر دوست کے الفاظ میں “اسلام کا پانا ٹھکا ہوا ہے”۔ یہاں کلچر اور آرٹ کا فروغ بوجوہ ناممکن ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کو لوگ کم جانتے ہیں اور جو جانتے ہیں وہ طال بان کی وجہ سے جانتے ہیں یا دہ شت گردوں کی وجہ سے جانتے ہیں۔
انڈین کلچرل ایکسپوژر کی سب سے تازہ مثال امر سنگھ چمکیلا پر بناٸی گٸی بایوپک ہے۔ امر سنگھ چمکیلا ستر اور اسی کی دہاٸی میں متحرک رہنے والے پنجاب کے ایک فرزند اور ایک مقبول گایک ہیں۔ امر سنگھ اپنی بیوی امرجوت کیساتھ مل کر شادی بیاہ کے اکھاڑوں میں شامل ہوتے اور اپنے ہی لکھے اور کمپوز کیے ہوٸے دو گانے گاتے۔ کہتے ہیں چمکیلا کے ریکارڈز ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوتے تھے۔
امتیاز علی نے چمکیلا کی زندگی پر فلم بناٸی ہے اور خوب تحقیق کر کے بناٸی ہے۔ چمکیلا کا پہناوا ، اس کی وضع قطع اسکی نشست و برخاست ہر شے کو جیسے کہ وہ تھی من و عن اسی طرح پردہ سکرین پر دکھا دیا ہے۔ چمکیلا اپنے تمام تر تنازعات تمام تر اشلیل گیتوں کیساتھ ہمارے سامنے ہے۔
فلم کا سکرین پلے شاندار ہے۔ فلیش بیک میں بیان کی گٸی یہ کہانی Non linear narrative style میں بیان کی گٸی ہے۔ اور کہانی کے راوی ایک سے زیادہ ہیں۔ کچھ حصہ ساتھی ٹکی کی زبانی سے سننے کو ملتا ہے کچھ شاگرد سناتے ہیں اور کچھ حصہ انکم ٹیکس میں کام کرنے والا ایک دوست۔
امتیاز علی کہتے ہیں کہ اگر دلجیت یہ کردار کرنے کے لٸے راضی نہ ہوتے تو شاید یہ فلم نہ بنتی۔ اس بات سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔ دلجیت نے واقعتا فلم میں جان ڈال دی ہے۔ اے آر رحمن کا میوزک سونے پہ سہاگا ہے۔ کاش کہ ہم پاکستانی اپنے ہیروز پر ایسی بایوپکس بنا کر انہیں خراج پیش کر سکیں۔
پس تحریر:
کل ہی آوٹ لک پہ چمکیلا کا ایک ریویو دیکھا۔ اسکا عنوان تھا
Not so shining
اس میں چمکیلا اور امرجوت کے دوگانوں کو رفیع جی اور شمشاد کے دو گانے تیری کنک دی راکھی منڈیا کے مقابل رکھ کر دیکھا گیا تھا اور یہی بات کہی گئی تھی کہ چمکیلا کا دور پہلے کے مقابلے میں ایک فحش دور ہے۔ گیت ایسے ہیں جنہیں شادی پہ گانا یا فیملی میں سننا ممکن نہیں تھا۔
میں اس مٶقف سے متفق نہیں ہوں۔ چمکیلا وہی کانٹینٹ گاتا تھا جو لوگ سننا چاہتے تھے۔ ویسے بھی پنجاب کی بولیوں میں بھی فحش کانٹینٹ سننے کو ملتا ہے اور چمکیلے کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اس نے پنجاب کی بولیوں اور لوک گیت کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔
رفیع کی بات دوسری ہے۔ وہ مین سٹریم آرٹسٹ تھے۔ سینما کے لئے گاتے تھے۔ وہ اکھاڑوں کے گائیک نہیں تھے۔ انہیں بہتر کانٹینٹ میسر تھا۔
طاہر رسول / Film Walay فلم والے