عدد سات کی برکات۔!!!
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا تو اسے علم و دانش کی دولت بھی عطا کی۔ جملہ علوم میں علم الاعداد کا بھی ایک اہم اور دلچسپ شعبہ ہے۔ حق یہ ہے کہ عدد شمار کی وسعت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ کوئی علم ہو مرئی وغیر مرئی‘ بری‘ بحری‘ و فضائی یا روحانی‘ ایمانی و عرفانی اعداد وشمار سب پر محیط ہیں۔ وحدت سے کثرت کا یہ سفر حیرت بداماں ہے۔ عالم ہو اور وحدہ لاشریک لہ پھر کنت کنزا مخفیا سے فخلقت الخلق تک کی تفسیر و تعبیر کیا علم و عرفان کے خوبصورت دروازے نہیں کھولتی؟
علم الاعداد ایک بحر ذخار ہے‘ بے حدود و بے ثغور ۔ اس کے اسرار و رموز وہی جانے جسے اﷲ عطا کرے۔
تخلیق ارض و سمٰوات اور موجودات کائنات میں اکثر سات (۷) کے عدد کا نفوذ یقینا دعوت فکر و نظر دیتا ہے۔
آیئے ہم دیکھیں کہ یہ عدد سات
(سبع ‘ ہفت Seven) ہماری توجہ کہاں کہاں اپنی طرف کھینچتا ہے۔
سات کے عدد میں کیا راز ہے اور اس میں خالق کائنات کی کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں؟
اﷲ جل شانہ نے زمین و آسمان پیدا کیا تو سات طبق بنایا آیت کریمہ ہے۔
1۔ اﷲ الذی خلق سبع سمٰوٰت و من الارض مثلھن (الطلاق آیت ۱۲)
اﷲ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہیں کے برابر زمین
2۔ الم تروکیف خلق اﷲ سبع سمٰوٰت طباقا (سورہ نوح آیت ۱۵)
کیا تم نہیں دیکھتے اﷲ نے کیوں کر سات آسمان بنائے ایک پر ایک
3۔ والبحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحر ما نفدت کلمت اﷲ (سورہ لقمان آیت ۲۷)
اور سمندر اس کی سیاہی ہو ‘ اس کے پیچھے سات سمندر اورتو اﷲ کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔
پھر اس زمین پر اشرف المخلوقات حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ساخت کا لبد آدم سے متعلق فرشتوں کو کہا کہ جب میں اسے سنوار بنالوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔ سارے فرشتوں نے اس حکم رب کی تعمیل کی‘ سوائے شیطان ابلیس کے۔ اس پر اﷲ نے شیطان سے پوچھا
قال یاابلیس مامنعک ان تسجد لما خلقت بیدی (سورہ ص آیت ۷۵)
کہا اے ابلیس! تجھے کس چیز نے منع کیا اس کو سجدہ کرنے سے جسے میں نے اپنے دست قدرت سے بنایا۔
کائنات میں عدول حکم ربی کا پہلا مرتکب ابلیس لعین ہے۔ امر الٰہی کی تعمیل میں تمام ملائکہ نے حضرت آدم کو سجدہ کیا سوائے شیطان رجیم کے۔ اس واقعہ عظیم کا ذکر قرآن حکیم میں سات جگہ پر مختصر و مفصل بہ تکرار آیاہے۔
(۱) سورہ بقرہ آیت ۳۴
(۲) سورہ اعراف آیت ۱۱ تا۱۸
(۳) سورہ حجر آیت ۲۸ تا ۴۰
(۴) سورہ بنی اسرائیل آیت ۶۱ تا ۶۵
(۵) سورہ کہف آیت ۲۵
(۶) سورہ طٰہٰ آیت ۱۱۶
(۷) سورہ ص آیت ۷۲
٭ احسن الخالقین نے کالبد آدم کواپنے دست قدرت سے سات حصے عطا کئے‘ ایک سر‘ دو ہاتھ‘ ایک سینہ‘ ایک شکم اوردو پائوں۔ یہی ہفت اندام ہیں۔
٭ اس جسم کے اہم حصے سر میں سات سوراخ (راستے) بنائے‘ دو آنکھیں‘ دو کان‘ دو نتھنے اورایک منہ
٭ پھر اندرون جسم بھی اعضائے رئیسہ سات ہی تخلیق کئے جنہیںThorax کہتے ہیں۔ (۱) دل (۲) جگر (۳) زہرا (۴) پتہ (۵) دو گردے اور دو پھیپھڑے۔ انہیں ہفت خزینہ بھی کہتے ہیں۔
ہمارے جسم میں سر کی آنکھوں کا مرتبہ روشن ہے۔ کہتے ہیں۔
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
اس آنکھ کو وہ اہمیت دی کہ اس کے بغیر دنیا تاریک‘ گویا نین نہیں تو چین نہیں۔
٭ اس آنکھ کو ہفت حجلہ نور کیا۔ اس کے سات پردے بنائے جو یوں ہیں۔
(۱) شباکیہ (Retiform) (۲) سلبیہ (Scilrotic) (۳) عنابیہ (Uveous) (۴) عنکبوتیہ (Archnoid) (۵) قرنیہ (Corneow) (۶) مشیمیہ (Chroid) (۸) ملتحمہ (Conjunctiva)
٭ آدم علیہ السلام کو دنیا میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے جو کھانا کھانے کو ملا وہ گندم تھا جس کے سات دانے حضرت جبرائیل علیہ السلام جنت سے لے کر آئے اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیش کیا (ہدایہ والنہایہ ۹)
٭ پھر نسل آدم میں سبب تخلیق کائنات و موجودات نبی آخر الزماں سیدنا محمد رسول اﷲﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب حکیم قرآن عظیم نازل کیا تو ارشاد ربانی ہوا۔
وقلد اتینٰک سبعا من المثانی والقرآن العظیم (الحجر آیت ۸۷)
اور بے شک ہم نے تم کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم اس سبع مثانی میں یعنی سورہ فاتحہ میں کل سات آیتیں ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر میں قرآن کوپہاڑوں پر اتارتا تو خشیت رب سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے مگر یہ انسان تھا جس نے اسے قبول کرلیا۔
آسماں بار امانت نتو است کشید
قرعہ فال بنام من دیوانہ زوند
٭ غور فرمایئے اس وسعت قلب انسانی کو جسکے افعال بھی سات بتائے گئے ہیں۔
(۱) حسبت (میں نے گمان کیا )
(۲) زعمت (میں نے فرض کیا)
(۳) رایت (میں نے دیکھا)
(۴) خلت (میں نے سوچا)
(۵) وجدت (میں نے پایا)
(۶) علمت (میں نے جانا)
(۸) ظننت (میں نے خیال کیا)
٭ اب یہ قرآن عظیم جس میں سات منزلیں ہیں تاابد محفوظ رہے گا اور اس کی بہترین جگہ انسانی قلوب ہیں۔
اﷲ کی کتاب قرآن حکیم میں سات عظیم سورتیں وہ ہیں جو حروف مقطعات کے صرف حم سے شروع ہوئی ہیں۔
(۱) سورۃ الاحقاف (۲) سورۃ الجاثیہ (۳) سورۃ الدخان (۴) سورۃ الزخرف (۵) سورۃ الشوریٰ (۶) سورۃ السجدہ (۷) سورۃ المومن
٭ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے بندوں کو جنت کی بشارتیں دی ہیں اور جہنم کی وعیدیں بھی۔ ایمان و عمل نیک کا صلہ جنت ہے اور کفر و شرک کی سزا جہنم۔ اس جنت کی تعداد بھی سات بتائی گئی ہے۔ (۱) خلد (۲) دارالسلام (۳) دارالقرار (۴) جنت عدن (۵) جنت الماویٰ (۶) جنت النعیم (۷) جنت فردوس
٭ اسی طرح جہنم کے طبقات بھی سات ہی بتائے گئے ہیں۔
وان جہنم لموعدہم اجمعین‘ لہاسبعۃ ابواب (الحجرات ۴۳۔۴۴)
ار بے شک جہنم ان سب کا وعدہ ہے اس کے سات دروازے ہیں۔
بقول ابن جریح (۱) سقر (۲) سعیر (۳) لظی (۴) حطمہ (۵) جحیم (۶) جہنم (۷) حاویہ
انبیاء و رسل کے علاوہ قرآن میں جن نیک اور فرمانبردار بندوں کا ذکر آیا ہے ان میں اصحاب کہف بھی ہیں۔ سورۃ الکہف میں ان کا ذکر ہے۔
٭ یہ اصحاب کہف بھی شمار میں سات ہی ہیں۔ حضرت عبداﷲ ابن عباس فرماتے ہیں۔ اصحاب کہف کی تعداد سات ہے اور آٹھواں ان کا کتا تھا (تفسیر صاوی جلد ۱ ص ۳)
ان کے نام یوں ہیں (۱) ملیخا (۲) مکشلینا (۳) مثلینا (۴) مرنوش (۵) دبرنوش (۶) شاذنوش۔ ساتواں ایک چرواہا تھا جو ان کے ساتھ تھا اور رہا۔ حضرت علی نے اس کا نام ذکر نہیں فرمایا مگر کتے کا نام قطمیر بتایا ہے۔ اصحاب کہف کے شہر کا نام ’’افسوس‘‘ اور ان کے ظالم بادشاہ کا نام ’’دقیانوس‘‘ تھا (مدارک التنزیل ج ۳ ص ۸)
٭ اﷲ رب العزت نے اپنے حبیب لبیبﷺ کو ماہ رجب المرجب کی ۲۷ ویں شب کو معراج بھی عطا فرمائی۔ جب اﷲ کے رسول مکہ معظمہ سے براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچے تو کل انبیاء و رسل نے محمد رسول اﷲﷺ کی اقتداء میں دو رکعت نماز پڑھی۔ حضور ﷺ کی امامت میں ان کی جو صفیں قائم ہوئیں وہ بھی سات تھیں۔ تین صفیں رسل عظام کی اور چار صفیں انبیائے کرام کی (حاشیہ جلالین شریف)
٭ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نافرمان اور سرکش بندوں پر عذاب بھی نازل کئے۔ قوم عاد پر اﷲ کی طرف سے آندھی کا عذاب سات رات اور آٹھ دن ہوا۔ قرآن حکیم میں ہے۔
واما عد فاہلکو ریح صر صر عاتیۃ سخر ہا علیہم سبع لیال وثمنیۃ ایام (الحاقہ آیت ۶)
اور رہے عاد‘ وہ ہلاک کئے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن۔
٭ بخاری شریف میں رسول اﷲﷺ کی یہ حدیث شریف موجود ہے کہ ’’جس نے کسی کی کچھ زمین ناحق لے لی اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کی انتہا تک دھنسا دیا جائے گا‘‘ دوسری جگہ ہے ’’جس شخص نے ظلم کرکے ایک بالشت بھر زمین لے لی‘ خدا ا سے ایک بالشت زمین ساتوں زمین کی انتہا تک کھدوائے گا‘‘
قرآن حکیم میں انبیاء و رسل علیہم السلام سے متعلق بہت سارے واقعات ہیں۔ ہم انہیں قصص القرآن بھی کہتے ہیں۔ سورہ یوسف میں ان کی زندگی کے دلچسپ واقعات ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند سورج اور گیارہ ستارے انہیں سجدہ کررہے ہیں جسے سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں تاکید کی تھی۔
یابنی لاتقصص رویاک علی اخوتک
اے میرے بیٹے اپنے بھائیوں کو یہ خواب مت بتانا
جس وقت یوسف نے یہ خواب دیکھا تھا اس وقت ان کی عمر صرف سات برس کی تھی (عجائب القرآن ص ۴۳ از عبدالمصطفی اعظمی)
٭ آگے چل کر جب وہ بادشاہ مصر کی قید میں رہے تو قید کی یہ مدت بھی سات برس کی تھی
٭ حضرت یوسف علیہ السلام ظاہری قید میں ہی تھے کہ بادشاہ ریان بن ولید نے یہ خواب دیکھا
وقال الملک انی اریٰ سبع بقرات سمان یاکلھن سبع عجاف وسبع سنبلت وخریبست (سورہ یوسف آیت ۴۳)
اور بادشاہ نے کہا میں نے خواب میں سات فربہ گائیں دیکھیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہری اور دوسری سات سوکھی۔
حضرت یوسف نے تعبیر بتائی۔
قال تزرعون سبع سنین دابا۔ کہا تم کھیتی کروگے سات برس لگاتار (آیت ۴۵)
ثم یاتی من بعد ذالک سبع شداد‘ پھر اس کے بعد سات برس کڑے برس آئیں گے
(آیت ۴۸)
اگلے نبیوں کی زندگی پڑھیئے تو ان کے ساتھ بھی عدد ’’سات‘‘ کہیں نہ کہیں اہمیت رکھتا ہے۔
٭ کہتے ہیں حضرت یونس علیہ السلام سات دن مچھلی کے پیٹ میں رہے
قرص خورشید در سیاہی شد
یونس اندر دہان ماہی شد
٭ حضرت ایوب علیہ السلام سات سال پھوڑوں کے مرض میں مبتلا رہے۔
٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قد اس زمانے کے سات گز کے برابر تھا‘ نیز ان کاعصا بھی ان کے قد کے برابر تھا۔
٭ قرآن مجید میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے سات جگہ انبیاء علیہم السلام پر سلام بھیجا ہے اور یہ ہفت سلام کے نام سے مشہور ہے۔ ماہ صفر المظفر کے آخری چہار شنبہ کو یہ سات سلام کے لئے پتے یا
طشتری پر لکھ کرصحت و عافیت کی نیت سے پیتے ہیں۔ وہ یہ ہے۔
سلام قولا من رب الرحیم سلام علی نوح فی العلمین‘ سلام علی ابراہیم‘ سلام علی موسیٰ و ہارون‘ سلام علی الیاس‘ سلام علی طٰہ‘ ویٰسین‘ سلام علیکم طبتم فادخلوہا خالدین‘ سلام حی حتی مطلع الفجر
٭ خاتم المرسلین سیدنا محمد رسول اﷲﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے سات اولادیں عطا کیں۔ تین بیٹے اور چار بیٹیاں مگر صرف فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہ
سے نسل پاک چلی اور وہ انا اعطینٰک الکوثر کی تفسیر بنیں۔
٭ امت مسلمہ پر فرض عبادات میں حج بیت اﷲ شریف کی بڑی فضیلت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ طواف کعبتہ اﷲ میں بھی سات پھیرے (اشواط) ہی ضروری ہوئے۔ پہلے چار فرض اور بعد کے تین واجب۔
٭ پھر سعی صفاء و مروہ میں بھی سات چکر سنت بی بی حاجرہ کے لازم قرار دیئے گئے۔
٭ وادی منیٰ میں رمی جمار (شیطان کو کنکری مارنے) کے لئے سات کنکریاں ہی ضروری ہیں۔ لہذا دس‘ گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو رمی جمار کے لئے مزدلفہ سے ۷x۷=۴۹ کنکریاں لانی ہوتی ہیں۔
٭ افضل العبادات نماز میں جب اپنے مالک حقیقی کو سجدہ کرتے ہیں تو جسم کے سات عضو ہی زمین پر ہوتے ہیں۔ دونوں پائوں کے چوے‘ دونوں گھٹنے‘ دونوں ہتھیلیاں اور سر
٭ فراغت حج کے بعد اگر قربانی کرنے کی وسعت نہ رہی ہو تو سات روزے اس کا بدل ٹھہرائے گئے۔ تین منیٰ میں اور چار گھر واپس آکے۔
٭ قربانی کے لئے بڑے جانوروں گائے بھینس‘ بیل اور اونٹ میں سات حصے سات شرکائے قربانی کے لئے قرار دیئے گئے۔
٭ اﷲ تعالیٰ نے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کو اجروثواب کی مثال یوں دی ہے
مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اﷲ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ (سورۃ البقرہ آیت ۲۶)
ان کی کہاوت (مثال) جو اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح (ہے) جس نے اگائیں سات بالیاں اور ہر بالیاں میں سو دانے۔
٭ شریعت محمدی میں رشتے کی سات عورتوں سے نکاح حرام ہے اور وہ ہیں
(۱) دادی (۲) نانی (۳) پھوپھی (۴) خالہ (۵) بھتیجی (۶) بھانجی (۸) بہن
(سگی یا رضائی)
٭ امت مسلمہ میں سات قسم کے مرنے والوں کو درجہ شہادت دیا گیا ہے۔
(۱) جو اﷲ کی راہ میں قتل ہوا (۲) جو پانی میں ڈوب کر فوت ہوا (۳) جو حادثاتی طور پر آگ میں جل کر جاں بحق ہوا (۴) جو کسی وبائی مرض ہیضہ یا چیچک میں ہلاک ہوا (۵) جو کسی دیوار کے گرنے سے اور اس کے نیچے دب کر مرا (۶) جو شخص دوران سفر بے یارومددگار اﷲ کو پیارا ہوا (۸) وہ عورت جو وضع حمل کے دوران جان سے گزری۔
٭ تلاوت قرآن بھی عبادت ہے۔ اس کی قرات (پڑھنے کے طریقے) بھی سات طرح کی بیان کی گئی ہے۔
٭ پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی ایک خاص فن ہے۔ نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے پر جنگی قیدیوں کو رہائی بخشی تھی۔ عربی میں خطاطی (لکھنے) کے لئے سات رسم الخط ایجاد ہوئیں جنہیں ہفت قلم بھی کہتے ہیں اوروہ ہیں
(۱) ثلث (۲) محقق (۳) توقیع (۴) ریحان (۵) رقاع (۶) نسخ (۷) تعلیق
٭ اہل عرب کو اپنے نطق و کلام پر سوناز تھا یہاں تک کہ وہ غیر عرب کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔ شعرائے عرب نے (عہد جاہلیہ میں) فخر و مباہات کے لئے سات قصاید عربیہ غلاف کعبہ میں آویزاں کردیئے تھے۔ وہ سات قصاید اسی لئے ’’سبعۂ معلقہ‘‘ کے نام سے مشہور ومذکور ہیں مگر نزول قرآن کے بعد ان کی اہمیت ووقعت ہوا ہوگئی۔ آب زر سے لکھے ہونے کی وجہ سے انہیں سبع مذہبات اور السموط بھی کہتے ہیں۔ اصحاب معلقات میں یہ سات شعراء ہیں۔
(۱) امراء القیس (۲) زہیر (۳) طرفہ (۴) لبید (۵) عمر ابن کلثوم (۶) عنترہ (۷) نابغہ ذیبانی
زبان عربی دنیا کی مہتم بالشان اور سب سے اعلیٰ زبان ہے۔ قدسی اپنی نعت میں لکھتے ہیں۔
ذات پاک تو دریں ملک عرب کرد ظہور
زاں سبب آمدہ قرآن بہ زبان عربی
٭ عربی زبان کے قواعد میں فعل کی سات قسمیں ہیں جنہیں ہفت وجود صرف کہتے ہیں
(۱) صحیح (۲) مضاعف (۳) مثال (۴) ناقص (۵) لفیف (۶) مہموز (۸) اجوف
٭ حروف ابجد کو سات سات کے پانچ گروہ میں رکھا گیا ہے جن کے نام یوں ہیں۔ ہفت حرف آبی ہفت حرف آتشی‘ ہفت حرف استعلا ہفت حرف خاکی ہفت حرف بادی۔
٭ جہاں تک زمین و زماں کا تعلق ہے۔ زمانے (وقت) کو دنوں‘ ہفتوں اور مہینوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہفتہ سات دنوں کا مقرر ہوا جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ وہ سات دن سبھی جانتے ہیں۔
(۱) سنیچر (۲) اتوار (۳) سوموار (۴) منگل (۵) بدھ (۶) جمعرات (۷) جمعہ
٭ انہیں نظام شمسی کے ہفت سیارگان سے متعلق قرار دیاگیا۔ ہفتہ کا ہر ایک دن ایک سیارے سے منسوب ہے
(۱) عطارد (۲) زحل (۳) مریخ (۴) خورشید (۵) زہرا (۶) مشتری (۷) ماہ
قدماء نے ان کے رنگ بھی بتائے۔
(عطارد سیاہ‘ زحل بھورا‘ مریخ سرخ‘ خورشید زرد زہرہ سفید‘ مشٹری نیلا‘ ماہ سبز)
٭ ستاروں کی بات آئی تو بنات النعش (Great bear) کو کیسے نظر انداز کیا جائے۔ جنہیں ہفت دادران‘ ہفت رخشان ‘ ہفت نوری‘ ہفت برادران اور نہ جانے کن کن ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ سات ستاروں کا یہ مجموعہ قطب ستارے کا اشارہ نما ہے۔ رات کے وقت سمندروں اور بیابانوں میں اس سے سمت کے تعین میں آسانی ہوتی ہے۔
٭ ہاں! تو ہفتہ کے بعد مہینے کی بات آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سال کے بارہ مہینوں میں کل سات مہینے ایسے ہیں جو ۳۱ دنوں کے ہوتے ہیں۔
(۱) جنوری (۲) مارچ (۳) مئی (۴) جولائی (۵) اگست (۶) اکتوبر (۷) دسمبر
٭ کرہ ارض کے بری (خشک) حصوں کو قدماء نے ہفت اقلیم میں تقسیم کیا تھا جن کے نام کتابوں میں یوں ہیں۔
(۱) ہندوان (۲) عرب وحبشان (۳) مصر و شام (۴) ایران شہر (۵) صقلاب روم (۶) ترک ویاجوج (۷) چین و ماچین
٭ اسی طرح زمین کے آبی حصوں کو بھی ہفت دریا کے نام دیئے گئے
(۱) دریائے اخضر (۲) دریائے عمان (۳) دریائے قلزم (بحر احمر) (۴) دریائے بربر (۵) دریائے اوقیانوس (۶) بحر الروم (۷) دریائے اسود
٭ آسمان پر موسم باراں میں جب دھنک (قوس قزح) کھلتی ہے تو اس میں بھی سات رنگ نظر آتے ہیں۔
(۱) سرخ (۲) نیلا (۳) سبز (۴) زرد (۵) نارنجی (۶) بیگنی
قدرت کے کرشمے کہاں کہاں نظر نہیں آتے۔ گرگٹ کا رنگ بدلنا مشاہدے میں آتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ گرگٹ بھی سات رنگ بدلتا ہے اور اپنے جذبات و احساسات کے تحت (ہماری کتاب‘ نصاب C.B.S.C برائے درجہ سوم ص ۵۳)
٭ اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے بے شمار نعمتیں بنائی ہیں۔ بالائے زمیں بھی‘ زیرزمیں بھی‘ معدنیات بڑی دولت ہیں۔ زمین کے اندر دھات بھی بنیادی طور پر سات ہی قسم کے ہیں جنہیں ہفت گنجینہ کہتے ہیں۔
(۱) سونا (۲) چاندی (۳) لوہا (۴) سیسہ (۵) تانبا (۶) ٹین (۷) جستہ
دھات کی دیگر قسمیں ان کی آمیزش کا نتیجہ ہیں یعنی Metalloid ہیں۔
اہل علم ودانش نے بھی عدد سات کی قید کے ساتھ ہی اکثر معلومات فراہم کی ہیں مثلا ہفت فرشتہ اور سات فرشتوں کے نام یہ بتاتے ہیں۔
(۱) جبرائیل (۲) میکائیل (۳) عزرائیل (۴) اسرافیل (۵) شیمائیل (۶) رقاعیل (۷) انائیل
٭ دنیا میں سلاطین بہت گزرے ہیں مگر سات نام ایسے ہیں جنہیں لفظ سلطان کے سابقے کے ساتھ ہی لکھتے ہیں اور وہ ہیں۔
(۱) سلطان ابراہیم ادھم (۲) سلطان بایزید بسطامی (۳) سلطان ابی سعید ابی الخیر (۴) سلطان محمود غزنوی (۵) سلطان سنجر معاذی (۶) سلطان اسمعیل سامانی (۸) سلطان خراسان
٭ ہفت برگ ایک مشہور پودا ہے جس میں صرف سات ہی پتے ہوتے ہیں نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔
٭ اہل دنیا نے بھی عدد سات کی پراسرار اہمیت کو سمجھتے ہوئے اکثر باتوں میں اس عددل کا خیال رکھا ہے مثلا دنیا کے سات محیر العقول عجائبات۔
٭ لڑکیوں کے عنفوان شباب
کو سات برسوں سے موسوم کیا ہے۔
٭ علم الاعداد ایک نہایت دلچسپ وسیع وعمیق شعبہ علم ہے۔ عدد (گنتی) بتانے کے لئے ۱ تا ۹ کل نوہندسے ہیں۔ ان کے باہم ملنے سے بے انتہا عدد و شمار بنتے جاتے ہیں۔ مگر ایک تا ۹ ہندسے میں صرف سات عدد (ہنسے) ۳ تا ۹ ہی ’’بضع‘’ کہے جاتے ہیں۔ کلام اﷲ شریف میں یہ لفظ ’’بضع‘‘ دو جگہ آیا ہے۔
فی بضع سنین (سورہ روم آیت۳)
فی السجن بضع سنین
(سورہ یوسف آیت ۴۳)