بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
عشرہ مبشرہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)️حُلیہ فاروق رضی اللہ عنہ
سید نا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پر غالب تھی۔ قد نہایت لمبا تھا، پیادہ پا چلنے میں معلوم ہوتا تھا کہ سوار جا رہا ہے۔ رخساروں پر گوشت کم تھا، ڈاڑھی گھنی، مونچھیں بڑی، سر کے بال سامنے سے اڑ گئے تھے۔ سیدنا ابن عساکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے روایت کی ہے کہ سید نا عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ دراز قد موٹے تازے تھے۔ رنگت میں سرخی غالب تھی، گال پچکے ہوئے تھے، مونچھیں بڑی تھیں اور ان کے اطراف میں سرخی تھی۔ آپ کی والدہ شریفہ ابو جہل کی بہن تھیں، اس رشتے سے آپ ابو جہل کو ماموں کہا کرتے تھے۔
⚜️خلافت فاروقی رضی اللہ عنہ کے اہم واقعات:
23جمادی الثانی 13ھ بروز سہ شنبہ مدینہ منورہ میں تمام مسلمانوں نے بلا اختلاف سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 22 جمادی الثانی 13 ھ بروز دوشنبه سید نامثنٰی بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے آنے اور حالات سنانے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو بلا کر جو حکم دیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے:
٭”مجھے قوی امید ہے کہ میں آج ہی مر جاؤں گا، پس میرے مرنے کے بعد تم کل کا دن ختم کرنے سے پہلے مثنٰی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کےساتھ لوگوں کو لڑائی پر روانہ کر دینا، تم کو کوئی مصیبت تمہارے دینی کام اور حکم الہی سے غافل نہ کرنے پائے۔ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد کیا کیا تھا حالانکہ وہ سب سے بڑی مصیبت تھی۔ جب اہل شام پر فتح حاصل ہو جائے تو اہل عراق کو عراق کی طرف واپس بھیج دینا کیونکہ اہل عراق، عراق ہی کے کاموں کو خوب سرانجام دے سکتے ہیں اور عراق ہی میں ان کا دل خوب کھلا ہوا ہے۔” ٭
ان الفاظ سے ایک یہ حقیقت بھی خوب سمجھ میں آجاتی ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے وفات نبوی ﷺ کے بعد جو کچھ کیا، دینی کام اور دینی مقصد کو مقدم سمجھ کر کیا۔ مرتے وقت بھی ان کو دینی کاموں ہی کی فکر تھی، اپنی اولاد و ازواج کے حق میں کوئی وصیت نہیں فرمائی۔ سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے بیعت خلافت لینے کے بعد لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی، مہاجرین و انصار کو خاص طور پر مخاطب کر کے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے پکارا مگر مجمع نے آمادگی اور جوش کا اظہار نہ کیا۔ تین دن تک سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے لوگوں کو جمع کر کے جہاد کا وعظ سنا، مگر لوگوں کی طرف سے خاموشی رہی۔ چوتھے روز سیدنا ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے جہاد عراق کے لیے اپنی آمادگی ظاہر کی ان کے بعد سیدنا سعد بن عبید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انصاری کھڑے ہوئے پھر سیدنا سلیط بن قیس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آئے اور اسی طرح بہت سے لوگ یکے بعد دیگرے آمادہ ہو گئے اور ایک لشکر عراق کے لیے تیار ہو گیا۔
سیدنا عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا ابوعبیدہ بن مسعود رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ہی کو جو سب سے پہلے آمادہ ہوئے تھےاس لشکر کا سردار بنا کر سید نامثنٰی بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہمراہ عراق کی جانب روانہ کیا۔
⚜️ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی معزولی:
سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو افواج شام کا سپہ سالار اعظم بنا کر بھیجا تھا۔ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ایک زبردست جنگجو اور بے نظیر بہادر سپہ سالار تھے۔ عراق میں بھی اب تک سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے سپہ سالار اعظم تھے اور ان کی حیرت انگیز بہادری اور جنگی قابلیت نے دربار ایران اور ساسانی شہنشاہی کو حیران و ششدر اور مرعوب کر دیا تھا۔ رومی سلطنت کو بھی ابتدا میں اسی طرح مرعوب بنانے اور ایک زبردست ٹکر لگانے کی ضرورت تھی، لہذا سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا سیف اللہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو شام کی طرف سپہ سالار اعظم بنا کر بھیج دیا۔ ان کا اندازہ نہایت صحیح ثابت ہوا کیونکہ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے شام میں پہنچ کر یرموک کے میدان میں ایسی زبردست ٹکر لگائی کہ رومی شہنشاہی کی کمر ٹوٹ گئی اور قیصر کے رعب و وسطوت میں زلزلہ برپا ہو گیا۔ ان ابتدائی لڑائیوں کے بعد لشکر اسلام کے قبضے میں ایران و روم کے آباد و سرسبز صوبے آنے والے تھے اور دونوں شہنشاہیوں کی باقاعدہ افواج سے معرکہ آرائی و میدان داری شروع ہونے والی تھی۔ لہذا اب ضرورت تھی کہ اسلامی افواج نہ صرف ایک فتحمند و ملک گیر سپہ سالار کے زیر حکم کام کریں بلکہ ایک مدبر اور ملک دار افسر کی ماتحتی میں مصروف کار ہوں۔
سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی جنگی قابلیت کے منکر نہ تھے بلکہ وہ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو کسی قدر غیر محتاط شخص سمجھتے تھے ان کو شروع ہی سے یہ اندیشہ تھا کہ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بے احتیاطی کہیں مسلمانوں کی کسی جمعیت کو ہلاکت میں نہ ڈال دے سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بھی اس احساس میں سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے مخالف نہ تھے لیکن وہ عراق و شام کے ابتدائی معرکوں میں سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ہی کو سب سے زیادہ موزوں اور مناسب سمجھتے تھے وہ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی سرداری کے نقائص کو خوبیوں کے مقابلے میں کمتر پاتے تھے اور اسی لیے انہوں نے دنیا کی دونوں سب سے بڑی طاقتوں (ردم و ایران) کو سیدنا سیف اللہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی برق و تابانی دکھانی ضروری سمجھی یہ مدعا چونکہ حاصل ہو چکا تھا لہذا اب ضرورت نہ تھی کہ سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ہی سپہ سالار اعظم رہیں اس موقع پر ان الفاظ کو پھر ایک مرتبہ پڑھیں، جو سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو اپنے آخری وقت میں لشکر عراق کی نسبت فرمائے تھے اور جو او پر درج ہو چکے ہیں سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ:
٭”خدائے تعالی ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ پر رحم کرے کہ انہوں نے سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی امارت کی پردہ پوشی کر دی کیونکہ انہوں نے مجھ کو سید نا خالد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہمراہیوں کی نسبت اپنے آخری وقت میں حکم دیا کہ عراق کی جانب واپس بھیج دینا لیکن سیدنا خالد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا کچھ ذکر نہیں کیا ۔”٭
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے جو خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی معزولی کا حکم دیا وہ منشائے صدیقی کے خلاف نہ تھا اور یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ خلیفہ ہوتے ہی سب سے پہلا کام وہ کرتے جو سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے منشاء اور خواہش کے بالکل خلاف ہو تا ۔
سید نا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی خلافت کا حال شروع کرتے ہوئے عام طور پر مؤرخین اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو لشکر سیدنا اسامہ بنی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے صرف اس لیے جدا کر کے اپنے پاس رکھا تھا کہ امور خلافت میں ان کے مشورے سے امداد حاصل کریں اور خلافت صدیقی کے پورے زمانہ میں آخر وقت تک فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے وزیر و مشیر رہے، صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا کوئی کام ایسا نہ تھاجس میں فاروق سے امتزاج و استصواب نہ کر لیا گیا ہو۔ دنیا میں بہت سے لوگ ظاہر بیں ہوا کرتے ہیں اور وہ اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بڑے بڑے آدمیوں سے ایسی ایسی باتوں کو منسوب کر دیتے ہیں جن کا ان بڑے آدمیوں سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا۔ سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بعض بے احتیاطیوں پر ضرور اظہار ناراضگی کیا لیکن یہ اظہار ناراضگی بس وہیں تک تھا جہاں تک شریعت اور ان کی تحقیق و اجتہاد کا تعلق تھا۔ اس اظہار ناراضگی کو عداوت و عناد کا درجہ ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہوا۔ وہ فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تھے، اللہ نے اسیران بدر کی نسبت یہ آزادانہ حکم دیا کہ جو جس کا عزیز رشتہ دار ہے، وہ اسی کے ہاتھ سے قتل کیا جائے۔ اس کی نسبت یہ رائے قائم کرنا کہ ان کو سیدنا خالد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے کوئی کد یا ذاتی عداوت تھی، سراسر ظلم اور نہایت ہی رکیک و بےہودہ خیال ہے۔
سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو معزول کر کے در حقیقت امت محمدﷺ پر بڑا احسان کیا اور ایک ایسی نظیر پیدا کر دی کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور خدمت دینی کے مقابلہ میں اپنی ہستی کو ہیچ سمجھنے کی مثالوں میں سب سے پہلے ہم سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا نام لیتے ہیں۔ سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اگر مرتے دم تک افواج اسلام کے سپہ سالار اعظم رہتے، تب بھی ان کی بہادری اور جنگی قابلیت کے متعلق اس سے زیادہ کوئی شہرت نہ ہوتی جو آج موجود ہے۔ لیکن اس معزولی کے واقعہ نے سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی عزت و عظمت میں ایک ایسے عظیم الشان مرتبہ کا اضافہ کر دیا ہے جس کے آگے ان کی سپہ گری و بہادری کے مرتبہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہم ایک طرف سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے جنگی کارناموں پر فخر کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی للہیت اور اطاعت اولی الامر کو فخریہ پیش کرتے ہیں۔
بعض مؤرخین نے اپنی ایک لطیف رائے بھی بیان کی ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ چونکہ ہر ایک معرکہ میں فتح و فیروزی حاصل ہوتی رہی تھی، لہذا لوگوں کے دلوں میں خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ تمام فتوحات سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی سپہ سالاری کے سبب مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سیدنا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو معزول کر کے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی کامیابیاں اور فتح مندیاں کسی شخص سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ مشیت ایزدی اور اسلام کی برکات ان فتوحات کا اصل سبب ہیں۔ اس روایت کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے جس طرح افواج شام کی سپہ سالاری میں تبدیلی فرمائی، اسی طرح افواج عراق کی سپہ سالاری بھی سید نامثنٰی بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو معزول کر کے سیدنا ابو عبیدہ بن مسعود رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا ماتحت بنا دیا تھا ۔
آج بھی اگر مسلمان اسلام کی پیروی میں صحابہ کرام رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا نمونہ بن جائیں تو وہی کامیابیاں اور وہی فتح مندیاں جو قرون اولٰی میں حاصل ہوتی تھیں پھر حاصل ہونے لگیں۔
سید نا عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جو قابل تذکرہ جنگی انتظامات کئے ان میں سب سے پہلا کام یہ تھا کہ سیدنا خالد بن الولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو افواج شام کی اعلیٰ سپہ سالاری سے معزول کر کے سید نا ابو عبیدہ ابن جراح رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو ملک شام کی اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم بنایا اس حکم کی فورا تعمیل ہوئی اور سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے سید نا ابو عبیدہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی ماتحتی میں نہ صرف جان فروشی اور کافرکشی میں پہلے سے زیادہ مستعدی دکھلائی بلکہ سید نا ابوعبیدہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو ہمیشہ مفید ترین جنگی مشورے دیتے رہے یہی وہ امتیاز خاص ہے جو سید نا خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے مرتبہ اور عزت کو تمام دنیا کی نگاہ میں بہت بلند کر دیتا اور ان کو روئے زمین کا بہترین سپہ سالار اور سچا پکا مخلص انسان ثابت کرتا ہے کہ جس کے دل میں رضائے الہی کے سوا شہرت طلبی اور ریا کا نام ونشان بھی نہ تھا۔
دوسرا کام سیدنا فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا یہ تھا کہ انہوں نے سید نا ابو عبیدہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بن مسعود کو ایک فوج کے ساتھ عراق کی جانب روانہ کیا اور ان کو ملک عراق کی تمام اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا۔
تیسرا کام فاروق اعظم رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا یہ تھا کہ سیدنا یعلیٰ بن امیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو ملک یمن کی جانب روانہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس آخری وصیت کو پورا کریں کہ ملک عرب میں مسلمانوں کے سوا کوئی یہودی اور کوئی نصرانی نہ رہنے پائے چونکہ مسلمان صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی خلافت کے سوا دو برس دوسرے عظیم امور کی انجام دہی میں مصروف رہے کہ اس وصیت نبوی ﷺکے پورا کرنے کا ابھی تک موقعہ نہیں مل سکا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔!!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭