عشق باز
ازقلم۔۔۔فرواخالد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عشق باز ۔۔۔ ازقلم۔۔۔فرواخالد)خانزادہ مینشن میں آج کے دن خوشیوں کی برسات اتری ہوئی تھی۔۔۔ ہر طرف قہقہوں اور مسکراہٹ کا جہاں آباد تھا۔۔ صبح سے سب لوگ ہی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔ جبکہ آریان خانزادہ ابھی تک اپنے روم سے نہیں نکلا تھا۔۔۔ جو بات کہیں نہ کہیں سب کو پریشان کررہی تھی۔۔۔ حنان تو صبح سے ہی کاموں میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔
ریحام کی تو ویسے ہی اسے فکر نہیں تھی وہ اپنی ساری تیاری خود ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ جبکہ ایزل بھی بہت گم صُم سی تھی۔۔۔ کل تک جو چہرا کھلا ہوا تھا وہ اس وقت پوری طرح سے مرجھایا ہوا تھا۔۔
دل کسی انہونی کے خیال سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
اسے آریان کے حوالے سے خبر مل چکی تھی کہ وہ اب تک باہر نہیں نکلا تھا۔ اس کی یہ خاموشی ایزل کا دل ہولا رہی تھی۔۔۔ آنکھیں بار بار نم ہورہی تھیں۔۔۔ وہ ایک بار آریان سے ملنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔ مگر اسے موقع نہیں مل پایا تھا۔۔۔
اس کی یہ گزری پوری رات آنکھوں میں ہی کٹی تھی۔۔۔ اپنے سگے باپ کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔ وہ سب یاد کرتے لبوں پر زخمی مسکراہٹ آن ٹھہرتی تھی۔۔۔
کیوں وہ کبھی پوری طرح سے خوش نہیں ہو پاتی تھی۔۔۔ کیونکہ ہر بار اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا جاتا تھا۔۔۔
“اللہ جی پلیز میں اتنی مضبوط نہیں ہوں۔۔ اگر اس بار ایسا کچھ ہوا تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔۔”
وہ سسکتے ہوئے دل کے ساتھ بیوٹیشن کی ہدایت پر کرسی پر بیٹھی تھی جب اسی لمحے اس کی نظر موبائل سکرین پر جگمگاتے میسج پر پڑی تھی۔۔۔
اسی نمبر سے میسج تھا۔۔
“گاڑی باہر کھڑی ہے۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے باہر آسکتی ہو۔۔۔”
میسیج پڑھتے اس کی آنکھوں میں آنسو آن ٹھہرے تھے۔۔۔ جس انسان نے پوری زندگی اس کی خبر نہیں لی تھی۔۔ اتنی کٹھنائیوں کے بعد آج جب ایک خوبصورت ہمسفر اس کا منتظر تھا جس نے اس کی زندگی سے سارے غم نکال دیئے تھے۔
بھیگتی آنکھوں کے ساتھ وہ فون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جب بیوٹیشن نے اسے پکارا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
“کہاں ہو اس وقت۔۔۔؟؟ میں ایک ایڈریس بھیج رہا ہوں۔۔۔ اپنی سیکیورٹی کے ساتھ فورا وہاں پہنچو۔۔۔ “
آفان گہری نیند سویا ہوا تھا۔۔۔ اس نے پچھلی پوری رات زاویار کے دیے گیے مشن کی وجہ سے جاگ کر گزار دی تھی۔۔۔ ابھی اسے سوئے بمشکل تین گھنٹے گزرے تھے جب زاویار کے نئے آرڈر پر اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔۔۔۔
“ہر کسی کو اپنے جیسا سنگی اور سٹون میں سمجھ رکھا ہے۔۔۔ خود تو سوتے نہیں ہو دوسروں کو بھی نہیں سونے دیتے۔۔۔ کہیں نہیں جارہا ابھی میں۔۔۔”
آفان تکیہ منہ پر رکھتے بولا تھا۔۔۔ وہ چار بجے سویا تھا اور ابھی صبح کے چھ بج رہے تھے۔۔۔
“بکواس بعد میں کرنا جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔۔۔ آدھے گھنٹے کے اندر تمہارا سجل سے نکاح ہے۔۔۔ اگر تم مقرر جگہ اور وقت پر نہ پہنچے تو اس زندگی میں کبھی دوبارہ تمہاری شادی ہو پائے یہ تو بھول ہی جانا تم۔۔۔”
آفان کا نام سیریس انداز اسے تپا گیا تھا۔۔۔
جبکہ آفان اس کی بات پر اچھل کر بستر سے اٹھا تھا۔۔
“ابھی نکاح۔۔۔”
وہ حیران ہوا تھا۔۔۔۔جبکہ دوسری جانب سے کال کاٹ دی گئی تھی۔۔۔ آفان بنا ایک لمحے کی بھی دیر کیے کپڑے بدلتا باہر کی جانب بھاگا تھا۔۔۔ جہاں گلاب خان اور باقی سیکورٹی گارڈز پہلے سے موجود تھے۔۔۔
اس کے دوست نے اس کی سیکورٹی کا پورا انتظام کیا تھا۔۔۔ آفان کا دل اس شخص کی دوستی کے آگے جھک گیا تھا۔۔۔
“زی کے وہاں پہنچ چکا ہے کیا۔۔۔”
اس نے گاڑی میں بیٹھتے گلاب خان سے پوچھا تھا۔۔۔
“نہیں باس تو اپنے آبائی گاؤں کے لیے نکل گئے تھے رات کو ہی۔۔۔ ابھی پہنچنے والے ہوںگے۔۔۔”
یہ بات کرتے گلاب خان کی رنگت متغیر ہوئی تھی۔۔۔ جیسے وہ یہاں نہیں وہاں ہونا چاہتا تھا اپنے جان سے پیارے باس کے ساتھ۔۔۔ جس کی جان اس وقت سب سے زیادہ خطرے میں تھی۔۔۔
یہ خبر سنتے آفان کے چہرے پر بھی کچھ ایسے ہی تاثرات تھے۔۔۔
“کیا۔۔؟؟ وہ وہاں اکیلے گیا ہے۔۔۔ تم کیوں نہیں گئے ساتھ۔۔۔ اور کیا وہ میرے نکاح میں شامل نہیں ہوگا۔۔۔”
آفان نے فوراً زی کے کو کال ملائی تھی۔۔ مگر اب اس کا فون آؤٹ آف ریچ جارہا تھا۔۔۔ آفان نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔۔۔
اس کے ساتھ اس وقت بہت کم لوگ تھے۔۔ اس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے آفان جو سیکورٹی دی تھی۔۔۔ یہ بات آفان کی آنکھوں کے کنارے نم کر گئی تھی۔۔۔ اس کا دل بے چین ہوا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
روحا کی آنکھ کھلی تو اس نے کمرے میں خود کو اکیلے پایا تھا۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی مگر اگلے ہی لمحے پوری وجود میں درد کی شدید لہر دوڑتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
“یہ کہاں چلا گیا۔۔۔؟؟”
وہ دھیرے سے اٹھی تھی۔۔۔ اپنے بالوں کو جوڑے میں لپیٹتی وہ پورے کمرے کا جائزہ لیتی باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ دن کے دس بج چکے تھے مگر پورے گھر میں ابھی بھی سناٹے چھائے ہوئے تھے۔۔
اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔ مگر اس سے بھی زیادہ اس کے دل میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔۔ اپنے شوہر کے ناپاک ارادے جان کر۔۔۔۔
وہ نیچے آئی ہی تھی جب دو گارڈز بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئے تھے۔۔۔
“میم آپ کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔”
وہ دونوں نظریں جھکائے مؤدبانہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوئے تھے۔۔۔
“اپنی اوقات میں رہو اور یہ سب اپنے اس گھٹیا باس تک رکھو۔۔۔ خبردار جو میرے راستہ روکنے کی کوشش بھی کی تو۔۔۔۔”
روحا ان کو خونخوار نگاہوں سے گھورتے اپنی گاڑی کی جانب بڑھی ہی تھی جب ان میں سے ایک گارڈ اس کے راستے میں آیا تھا۔۔۔ روحا بھڑک اٹھی تھی۔۔۔
“تمہاری اتنی ہمت۔۔۔’
روحا نے اپنے ہڈی کی پاکٹ میں چھپایا پسٹل نکالا تھا اور اس گارڈ کی ٹانگ پر گولی چلا دی تھی۔۔ وہ درد سے بلبلاتا پیچھے جا گرا تھا۔۔۔ دوسرے نے تیزی سے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ روحا اس کے پیر کا نشانہ لیتی گاڑی میں آن بیٹھی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ گھر والے گولیوں کی آواز سن کر نیچے پہنچتے روحا گیٹ کو گاڑی کی زور دار ضرب لگاتی گھر سے نکل گئی تھی۔۔۔
“یہ سب کیا ہوا۔۔۔؟؟ کہاں گئی روحا۔۔۔۔؟؟”
صلاح الدین داور بوکھلائے سے باہر نکلے تھے۔۔۔گارڈز کی حالت اور پورچ غیان اور روحا کی گاڑیاں غائب دیکھ وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گئے تھے۔۔۔
“یہ دونوں کہاں گئے۔۔۔”
صومیہ بیگم منہ پر ہاتھ رکھے اپنی بہو کا کارنامہ دیکھ دہل اٹھی تھیں۔۔۔ ان دو ہٹے کٹے گارڈز کو ڈھیر کرتی وہ لڑکی نجانے کہاں نکل گئی تھی۔۔۔۔
“آج تو ان دونوں کا ولیمہ ہے۔۔۔”
ریحانہ بیگم کے روہانسے لہجے میں کہنے پر ساتھ کھڑے صہیب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔
“کل والے ڈرامے سے سبق نہیں سیکھا آپ لوگوں نے جو ان کا ولیمہ بھی اناؤنس کردیا۔۔۔ جو خود نارمل نہیں ہیں ان کی شادی کیسے نارمل ہوسکتی ہے۔۔۔”
صوفیہ بھی وہاں آچکی تھی۔۔۔ صلاح الدین صاحب دونوں کے نمبر ملا رہے تھے۔۔۔ مگر کسی کی جانب سے انہیں کوئی رسپانس نہیں ملا تھا۔۔۔
“کیا کرنے والا ہے غیان اب۔۔۔؟؟”
وہ اپنی پیشانی مسلتے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہہ گئے تھے۔۔۔
ان کا دل بہت زیادہ گھبرا رہا تھا۔۔۔ کل غیان زاویار کی بات مان کر سجل اور آفان کے نکاح کا سن کر بہت بھڑکا تھا۔۔۔ وہ کسی بھی قیمت پر اس شخص کے آگے جھکنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔
زاویار کمال کو نیچا دکھانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔۔
وہ اس نکاح کو روکنے کے لیے بہت زیادہ غلط ارادے رکھتا تھا۔۔۔شاید اسے روکنے کے لیے ہی روحا اس کے پیچھے گئی تھی۔۔
جبکہ غیان یہ نہیں جانتا تھا کہ نکاح صبح ساتھ بجے طے پا چکا تھا۔۔۔ اپنے کی پوتے کے قہر سے بچنے کی خاطر انہوں نے یہ قدم اٹھایا تھا۔۔۔ جس کی خبر ابھی تک غیان کو نہیں تھی۔۔۔ روحا کا اس کے پیچھے جانا صلاح الدین صاحب کے دل کو لرزا رہا تھا۔۔۔ روحا ان کے مرحوم بیٹے کی اکلوتی نشانی تھی وہ اسے زرا سی تکلیف پہنچتے بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔
یہی وجہ تھی کہ آنے والے وقت کا سوچتے ان کا دل ہول رہا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
“تم دونوں کہ درمیان میں کیا چل رہا ہے میں نہیں جانتی مگر اس خوشی کے موقع پر جس دن کا ہم سب نے ہی بہت بے صبری سے انتظار کیا۔۔۔ میں کوئی بدشگنی نہیں چاہتی۔۔۔ تمہاری خوشی کی خاطر میں نے اس لڑکی کو قبول کیا جو اس گھر کی بہو بننے کی لائق بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔
اس لیے اب امید کرتی ہوں تم بھی عقلمندی سے کام لو گے۔۔۔ آریان کے ساتھ تمہارا جو برتاؤ چل رہا ہے وہ ہمیں کسی بھی صورت برداشت نہیں ہے۔۔۔ جاؤ اور جاکر آریان سے اپنے تمام اختلافات ختم کرو۔”
تسنیم بیگم نے حنان کو اپنے کمرے میں بلا کر اس کی خوب کلاس لی تھی۔۔۔
جس پر حنان خاموشی سے سر ہلاتا آریان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ وہ سب حیران تھے آریان کیوں کئی بار بلانے پر بھی کمرے سے نہیں نکلا تھا۔۔۔ وہ آریان سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔
ناب گھماتے ہی دروازہ کھولتا چلا گیا تھا۔۔ کمرے کی ملگجا سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔۔۔ لائٹ آن کرنے پر اسے آریان کہیں بھی دیکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔ ٹیرس کا دروازہ کھلا دیکھ وہ اس جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
جب سامنے ہی وہ اسے کرسی پر بیٹھا دکھائی دیا تھا۔۔۔
“کیا پرابلم ہے تمہارے ساتھ۔۔۔ ؟ جس لڑکی سے چاہا تھا اسی سے شادی ہورہی ہے۔۔ پھر مجنوں کیوں بنے بیٹھے ہو۔۔۔”
حنان اس کے قریب آتے بولا تھا۔۔۔
“تم کس کی اجازت سے اندر آئے ہو۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔”
آریان بنا اس کی جانب دیکھے اسے باہر کا راستہ دکھاتے بولا تھا۔۔
“ہممہ جیسے تم کہو گے اور میں چلا جاؤں گا۔۔۔ “
حنان کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب آن بیٹھا تھا۔۔۔۔
آریان نے سرد نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔۔۔
“کیا مسئلہ ہے تمہیں۔۔۔؟؟”
وہ بڑی بڑی مشکلات کو چٹکیوں میں حل کر لینے والا اس وقت اتنا پریشان کیوں تھا۔۔۔ سب کے لیے یہ تشویش کی بات تھی۔۔۔
“مجھ سے ایزل رفیق کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے اور دیکھو میں کچھ نہیں کررہا۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی میں پھر بھی کچھ نہیں کر پاؤں گا۔۔۔”
آریان کی سیاہ مقناطیسی آنکھیں رت جگے کی گواہی دے رہی تھیں۔۔۔
حنان نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
“تم کہیں خود تو اس شادی سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔۔؟؟”
حنان کے چہرے کی رنگت زرد ہوئی تھی۔۔۔
جبکہ آریان کی خون آشام نگاہیں اس پر جم گئی تھیں۔۔۔
“ایزل کہاں ہے۔۔۔؟؟”
آریان کا انداز حنان کو خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔۔۔۔
“پارلر گئی ہیں نرمین کے ساتھ۔۔۔”
حنان کے بات سنتے آریان بنا کچھ کہے واش روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔
“میرے خدا یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔۔ ان لوگوں کی آزمائش ختم کردے میرے رب۔۔۔ مزید کتنی تکلیفیں لکھی ہیں ان کی زندگی میں۔۔۔۔”
حنان کا دل عجیب سے احساس سے دھڑک اٹھا تھا۔۔۔
جب اسی لمحے اس کا موبائل بجا تھا۔۔۔ ریحام کا نمبر دیکھ اس نے فوراً کال پک کی تھی۔۔۔
“آئم سوری حنان میں یہ شادی نہیں کر سکتی۔۔۔ “
ریحام کا اچانک سے کیا گیا دھماکہ حنان کا دماغ ماؤف کر گیا تھا۔۔۔
“تمہیں اندازہ بھی ہے تم کیا بول رہی ہو۔۔؟؟”
وہ بہت مشکل سے اپنے غصے پر قابو رکھتے بولا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
زاویار کی گاڑی اطہر محمود شاہ کی حویلی میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ دور سے اس پر بندوقیں تانے کھڑے اس کے اپنے نام نہاد خاندان والے اس کا آج بھی ویسا ہی کروفر دیکھ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے تھے۔۔۔
وہ اس وقت بہت زیادہ غصے میں تھا۔۔۔
گاڑی رکتے وہ تیز قدموں سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ اس کے بھاری مضبوط قدموں کی دھمک سب کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔۔۔ سیاہ لباس میں ملبوس وہ اس وقت بنا ہتھیار کے وہاں آیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آگ نکل رہی تھی۔۔۔۔
“شانزے کہاں ہے۔۔۔؟؟”
اس نے سامنے بیٹھے اطہر محمود شاہ کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔
جو بہت سکون اور آرام دہ حالت میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
“تمہاری بیوی ہے تم جانو۔۔۔ ہمیں کیا خبر۔۔۔؟؟”
اطہر محمود اس کی جانب نفرت آمیز نگاہوں سے تکتے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔
“بہت بڑے غنڈے ہو تم۔۔۔ تمہیں لگتا ہے اپنے دادا کی ناک کے نیچے اتنا بڑا کھیل کھیلو گے اور ہم کچھ نہیں کریں گے۔۔۔”
وہ اس کے گرد چکر کاٹتے اپنے سب سے بہادر پوتے کے مضبوط کسرتی شانوں پر ہاتھ پھیرتے اسے عجیب سی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
“شانزے کو میرے حوالے کرو۔۔۔ “
وہ مٹھیاں بھینچے بہت تحمل سے بلوا تھا۔۔۔
“ارے اتنے نے اعتبار کیوں ہورہے ہو۔۔۔۔پوتی ہے ہماری۔۔۔ حفاظت سے ہی رکھا ہوگا اسے۔۔۔۔”
اطہر محمود قہقہ لگا کر ہنسا تھا۔۔۔
جبکہ زاویار نے نگاہیں اٹھا کر زنان خانے کے سامنے لگنے سفید پردے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں کھڑی اس کی پھوپھو شاہین بہتی آنکھوں اور اس کے آگے ہاتھوں ہو جوڑتے نفی میں سر ہلاتے اسے وہاں سے لوٹ جانے کا کہہ رہی تھیں۔۔۔ اس کے چاروں جانب تنگ ہتھیار ان کے دل میں خنجر کھونپ رہے تھے۔۔
“مراد کہاں ہے۔۔۔؟؟”
شاہین بیگم کی حالت دیکھ وہ بہت کچھ سمجھ چکا تھا۔۔۔۔ اس کی مٹھیاں سختی سے بھینچ گئی تھیں۔۔۔ کنپٹی کی رگیں تن گئی تھیں۔۔۔
“وہیں ہے جہاں اتنے سالوں سے قید ہے۔۔۔ اس نے کہاں جانا ہے۔۔ “
اطہر محمود کے سکون میں اب بھی زرا بدلاؤ نہیں آیا تھا۔۔۔۔
“اگر مراد یا شانزے کو زرا سی بھی خراش پہنچی تو یقین مانو میں اب تک رکھا ہر لحاظ بھول جاؤں گا۔۔۔ بھول جاؤں گا کہ میری رگوں میں تم جیسے گھٹیا درںدے کا خون گردش کررہا ہے۔۔۔ یہ بولتے زاویار کی آنکھیں لہو رنگ ہوئی تھیں۔۔۔
“اپنی بکواس بند کرو زاویار۔۔۔ اپنے ہی گھر کی عزت نیلام کرتے ہوئے زرا شرم نہیں آئی تمہیں۔۔۔ تم ہوتے کون ہو اتنا بڑا ڈرامہ رچنے والے۔۔۔ دادا جان نے تمہارے کہنے پر اس بدکردار لڑکی جو بدقسمتی سے اس خاندان کی بیٹی کے اس کی جان بخشی۔۔۔ اور تم نے کیا کیا۔۔۔ الٹا انہیں ہی دھوکا دے دیا۔۔
انہیں ہمیشہ تمہارے ہونے پر مان رہا ہے۔۔۔ فخر سے تمہارا ذکر کرتے رہے ہیں۔۔۔ اور تم جب بھی آتے ہو ان کی عزت دو کوڑی کی کر کے چلے جاتے ہو۔۔ “
جہانزیب آگے آتے غصے سب دھاڑا تھا۔۔۔
“جو جس کا قابل ہو اسے وہی ملتا ہے۔۔۔ شانزے کو بلاؤ۔۔۔۔”
وہ بہت ضبط سے کھڑا تھا۔۔۔
“شانزے بیوی ہے تمہاری یہی کہنا ہے نا تمہارا۔۔۔؟ تو ٹھیک ہے اس بیوی کے بدلے تمہیں اپنی دوسری بیوی کو ہمارے حوالے کرنا۔۔۔”
اطہر محمود شاہ کے الفاظ ابھی منہ میں ہی رہ گئے تھے جب زاویار کی جانب سے پڑنے والا تھپڑ اسے پیچھے اچھال گیا تھا۔۔۔
وہاں کھڑے گارڈز کی بڑی تعداد نے اس حرکت پر زاویار کے اوپر فائر کھولنے چاہے تھے۔۔۔ مگر ایک جانب کھڑے شانزے کے والد حشمت شاہ نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا تھا۔۔
“خبردار اگر میری بیوی کا نام بھی اپنی زبان سے نکلا تو۔۔۔۔ ہاں کھیلا کھیل میں نے تمہارے ساتھ۔۔۔ نہیں ہے شانزے میرے نکاح میں۔۔۔ اس دن اس کا نکاح مجھ سے نہیں مراد سے کروایا تھا میں نے۔۔۔ “
زاویار نے بنا خوف کھائے بندوقوں کے سائے تلے کھڑے ہوکر سوری سچائی بتا دی تھی۔۔۔
“تم ہوتے کون ہو اس بدذات سے میری پوتی کا نکاح کروانے والے۔۔۔ “
اطہر محمود اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے اتنی زور سے دھاڑے تھے کہ در و دیوار ہل گئے تھے۔۔۔
مراد ان کے خاندانی ملازمین میں سے تھا۔۔ مراد کا پورا خاندان پشتوں سے ان کے ملازمین میں سے تھا۔۔ اطہر محمود شاہ کو ہمیشہ اپنے نام اور مقام پر غرور رہا تھا۔۔ وہ اپنے ملازمین کو اپنے پیروں کی جوتی سمجھتے تھے۔۔ انہیں اس سے اوپر کا درجہ کبھی نہیں دیتے تھے۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔