Daily Roshni News

علمِ لدنی کیا ہے اور کس کو عطا ہوتا ہے؟۔۔۔ تحریر  ۔۔۔  سید اسلم شاہ

علمِ لدنی کیا ہے اور کس کو عطا ہوتا ہے؟

تحریر  ۔۔۔۔۔۔۔۔  سید اسلم شاہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ علمِ لدنی کیا ہے اور کس کو عطا ہوتا ہے؟۔۔۔ تحریر  ۔۔۔  سید اسلم شاہ )علم لدنی روحوں کو بیدار کرنے کی تعلیم ہے۔ایک باریک نکتہ جسے تمام مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے خاص کر وہ شخصیات جن کا دینی معاملات سے براہ راست تعلق ہے تو امت کا بہت بھلا ہوگا، کہنے کو تو اہل سنت والجماعت میں کئی علماء کرام ایسے ہیں جوعلم لدنی کا ذکر کرتے ہیں اور اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ اُمت ِرسول میں متعدد اولیاء ایسے بھی گزرے ہیں کہ جنہیں اللہ نے علم لدنی سے سرفراز فرمایا اور اگر ایسی ہستیوں سے ان کی ملاقات ہو جائے اور ان کے طریقہ کار کو جب وہ ملاحظہ کریں تو پھران ولیوں سے یہ مولوی پوچھتے ہیں کہ یہ جو آپ کر رہے ہو اس کا حوالہ قرآن سے دو اور وہ ولی کہے کہ حضرت قرآن میں اس کا حوالہ نہیں ہے کیونکہ یہ نکتہ جو میں بیان کر رہا ہوں یہ علم لدنی سے متعلقہ ہے تو مولوی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ علم لدنی دیا ہے لیکن قرآن سے اس کا حوالہ نہ مانگوں ،

 ان کا یہ خیال ہے کہ علم لدنی بھی قرآن میں ہی ہے۔ علم لدنی اگر قرآن میں ہے تو پھر سب کے لیے ہے پھر علم لدنی کی خصوصیت کیا ہوئی ؟

ہر کس و ناکس کے پاس علم لدنی ہوگا۔سمجھنا یہ ہے کہ علم لدنی کیا ہے؟

سارا راز لفظ “لدن” میں بند ہے، لدن کا مطلب ہے میری طرف سے، ملدنک رحمہ، تیری رحمت اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا بھی ہے کہ اللہ اپنے دوستوں میں سے،صالحین میں سے جس کو چاہتا ہے اس کو اپنے خزانہ خاص علم ،علم لدنی عطا کرتا ہے۔

سب سے پہلے تو آپ یہ سمجھ لیں کہ علم لدنی اس علم کو کہیں گے کہ جو پہلے کسی کو دیا نہیں اب اللہ نے اس کا کچھ حصہ اپنے کسی خاص ولی کوعطا فرمایا ہے تو وہ حصہ علم کا قرآن میں نہیں ہے، اگر قرآن میں ہوتا تو پھر خصوصیت کیا ہوئی کیونکہ قرآن تو سب کے لیے ہے۔

ہم ایک درویش کی زبان بول رہے ہیں کہ کسی ولی کے عمل پر تنقید سے پہلے علم حاصل کر لو۔

اولیاء کرام کے اقوال اور واقعات سے علم لدنی کے حوالے:

بہت سی ہستیاں ایسی ہوئیں جیسے غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ ،خواجہ غریب النوازاور بابا بلھے شاہ کہ جن کے اقوال اور واقعات سے علم لدنی کے حوالے ملتے ہیں جیسے بابا بلھے شاہ نے فرمایاکہ

نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسباح کھڑکایا۔۔۔۔۔۔

بلھے نوں ملیا مرشد جو ایویں جا بخشایا

سوال یہ ہے کہ یہ کون سا اسلام ہے ،یہ تو اسلام سے باہر کی بات ہے،

آپ نے اللہ اللہ بھی نہیں کی، نمازیں بھی نہیں پڑھیں، تسبیح بھی نہیں کی تو پھر اللہ کیسے مل گیا؟

مرشد نے آپ کو اللہ کیسے دیا ؟

 معلوم ہوا کہ آپ کے مرشد کے پاس علم لدنی تھا جو قرآن سے ہٹ کے تھا اور اُس علم لدنی کا عنوان بھی یہ ہی تھا،

یہ قرآن کا علم تو نہیں ہے کہ کہا

کر لے دل دی صفائی جے دیدار چاہی دا

توں جہان توں کی لینا تینوں یار چاہی دا

بلھے نوں لوکی متی دیندے جا بہہ جا وچ مسیتی

وچ مسیتاں کی کجھ ہوندا جے دلوں نماز نہ نیتی

تیرا دل کھلاوندا منڈے کڑیاں تو سجدے کریں مسیتی

دنیا دارا ، رب دے نال وی توں چار سو وی کیتی

نہ میں آدم حوا جایا نہ کجھ اپنا نام دھرایا

نہ میں موسی نہ فرعون،بلھیا کی جاناں میں کون

نہ میں پاکاں وچ پلیتاں نہ میں وچ کفر دیا ریتاں

بلھیا کی جانا میں کون، اول آخر آپ نوں جانا

دوجا ہور نہ کوئی پچھانا، بلھیا کی جاناں میں کون

اللہ نے بھی یہ فرمایا اللہ نور السموات اوربائیبل میں عیسیٰ نے کہا میں ہوں دنیا کا نور

اور بلھے شاہ بھی کہہ رہے ہیں اول آخر آپ نوں جانا ،

تو یہ کون سا علم ہے؟

مولانا روم درباری مولوی تھا، اس کی بڑی شان تھی ، بڑا نخرا تھا، غصہ بھی بہت تھا، ایک دن وہ اپنے مدرسے میں بیٹھے کتاب لکھ رہے تھے اس دورمیں مور کے پر اور دوات سے کتابت کی جاتی تھی سیاہی میں قلم ڈبو کر لکھتے تھے اتنے میں ایک شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں پاس کھڑا ہو گیا اور پوچھنے لگا “ایں چیست”، یہ کیا ہے مولانا روم نے بڑی حقارت سے کہا “ایں آں علم است کہ تو نمی دانم “، یہ وہ علم ہے جس کے بارے میں تو نہیں جانتا ،

 اس فقیر کو غصہ آ گیا انہوں نے مولانا روم کے پیٹ پر توجہ کی اور اُن کو حاجت محسوس ہوئی تو مولانا روم نے کہا میں ابھی آتا ہوں تم یہیں کھڑے رہو ،

جیسے ہی مولانا روم گئے فقیر نے وہ تمام کتابیں اٹھا کر پانی کے حوض میں ڈال دیں ،واپس آ کر اپنی کتابوں کو پانی میں دیکھا تو ناراض ہوئے، فقیر نے کہا ناراض مت ہو اشارہ کیا اور خشک کتابیں پانی کے حوض سے باہر آ گئیں ، تو وہ حیرت زدہ رہ گئے اور پوچھا “ایں چیست” ؟

اب یہ کیا علم ہے؟

تو فقیر نے کہا، “ایں آں علم است کے تو نمی دانم”۔

اب مولانا روم کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

مولانا روم حدیث اور قرآن کا بہت بڑاعالم تھا لیکن وہ اس علم کو نہیں جان سکا کیونکہ یہ علم لدنی تھا، اس کے بعد انہوں نے کتابیں پھینک دیں اور شمس تبریز کی جوتیوں میں غلامی اختیار کر لی ان کی جوتیاں سیدھی کیں اور ان کی صحبت میں نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کیا اور اتنے بڑے ولی بن گئے۔

مولانا روم کی مثنوی میں کلام لکھا ہے کہ

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم۔۔۔۔

تا غلام شمس تبریزی نہ شد

اگر میں شمس تبریز کا غلام نہ بنتا تو ایک مولوی مُلا ہی رہ جاتا۔۔

علم لدنی کے لیےہمارے پاس حوالے تو بہت ہیں ، ہمارے پاس حکایات بھی بہت ہیں، قصے بھی بہت ہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کچھ علم ایسا ہے کہ جو قرآن میں نہیں ہے لیکن بہت سارے اولیاء کرام نے اس علم کے کرشمے دکھائے ،

اب مجھے سمجھ میں آتا ہے کہ نبی کریم نے جو فرمایا تھا کہ میری ُامت میں کچھ ولی ایسے ہوں گے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء بھی ان پر رشک کریں گے وہ رشک والی بات یہ ہی علم لدنی ہے،

یہ علم لدنی خاص علم ہے جو اللہ اپنی مرضی سے دیتا ہے۔جب یہ خاص علم معین الدین چشتی کو ملا تو اسی خاص علم کی پاور سے انہوں نے موسیقی کو جائز قرار دیا۔ یہ قوالیاں خواجہ غریب کا فیض ہے جو علم لدنی سے انہوں نے عام کیا۔

علم لدنی کتابوں،حدیثوں قرآن میں نہیں ہے،

علم لدنی دراصل کوئی علم نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے طاقت عطا ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق ہدایت کا جو مروجہ طریقہ ہے اس طریقے سے ہٹ کر کسی کو مومن بنا دیا جائے، اور یہ صرف علم لدنی سے ہوتا ہے۔

مثال کے طور پرجب ولی دیکھتا ہے کے بری صحبت والے اور برے اعمال والے، اِدھر اُدھر بھٹکنے کی وجہ سے کسی ازلی مومن روح کو اس کی ُبری صحبت نے اس کو مرشد کامل ڈھونڈنے سے روک رکھا ہے اور اس کا وقت ضائع ہو رہا ہے اور اس کی تقدیر میں لکھا ہوا ایمان لکھا کا لکھا نہ رہ جائے تو پھر ان لوگوں کے لیے وہ ولی علم لدنی کی طاقت استعمال کرتے ہیں۔

ابو سعید خدری غوث پاک کے مرشد اپنے مریدوں کے پیچھے کتے دوڑا دیتے تھے، میر کلال لوگوں کو کبڈی کھلاتے تھے، یہ باتیں قرآن و حدیث میں کہاں لکھی ہیں کہ کبڈی کھیلو ؟

بلھے شاہ نے کہا نچ نچ کے یار منا لے بانویں کنجری بننا پے جاوے۔

قرآن و حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ کنجری بن جائو؟ اور یار کو منا لو،

لیکن انہوں نے تو ایسا کیا ناچ ناچ کر یار کو منایا۔

لال شہباز قلندر نے دھمال کروائی یہ کہاں لکھا ہے قرآن و حدیث میں؟

اب چونکہ ہمارے صوفی اسکالرز کے پاس علم لدنی،باطنی علم نہیں ہے

لہذا جب وہابی دیوبندی ان کو کہتےہیں کہ دھمال کا شریعت میں کہاں لکھا ہے تو ان سے کوئی جواب بن نہیں پڑتا تو اتنا کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے کرایا ہے تو حق ہی ہو گا۔اگر اہل سنت والجماعت نے اپنے عقیدے کا دفاع کرنا ہے تو ان کے پاس پورا علم ہونا چاہئیے، جواب ایسا ہونا چاہئے کے سامنے والا نہ خود شک کرے نہ کسی کو منع کرے۔

علم لدنی اگر قرآن و حدیث میں شامل نہیں ہے اس کے علاوہ کوئی علم ہے تو کیا اس علم سے دین میں فتنہ پیدا ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں ۔۔

جو لوگ امت کے اندر ہوتے ہوئے بھی گناہوں میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے دین میں فتنہ ہو رہا ہےتو ولی اللہ اسی علم لدنی کے ذریعے دوبارہ ان کو امتی بنا رہے ہیں اور فتنہ کو ختم کر رہے ہیں۔جن کو کعبہ اور مسجد نبوی میں جا کر راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا ان کو وہ اپنی نظروں سےراہ راست پر لا رہے ہیں ، کعبہ اور مسجد نبوی کے قابل بنا رہے ہیں ۔

یہ علم لدنی ہے اور اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو یہ علم لدنی دیتا ہے۔۔۔

Loading