عوام کی پرواہ نہیں ہوتی :
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )افلاطون کا سب سے اہم کارنامہ اس کا مکالمہ ”ریاست“ (The Republic) ہے، جس میں اس نے ایک ایسی ریاست (Utopia) کا تصور دیا ہے، جس کا حکمران یا بادشاہ فلسفی (Philosopher king) ہو یا پھر فلسفی کو حکمران بنایا جائے۔ اپنے استاد کی طرح اس نے کہا: ”ہم جو تا بنوانے کے لیے تو کسی موچی کے پاس جاتے ہیں کیوں کہ اسے اس کام کی تربیت ملی ہوتی ہے لیکن امور مملکت چلانے کے لیے ہم کسی تربیت یافتہ انسان کی تلاش کیوں نہیں کرتے ؟“ افلاطون کے بقول، انسان ازل سے لالچی اور آرام پسند ہے، اس کی فطرت میں ہی قناعت پسندی نہیں ہے۔ وہ ہر وقت ایک جستجو اور تلاش میں رہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پر قابض ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دوسرے انسانوں سے اس لیے بھی حسد کرتا ہے کہ ان کے پاس اس سے زیادہ کچھ ہے۔ وہ لالچ، حسد اور ہوس کے جنون میں دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے۔ ان کی املاک، جائیداد اور علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ چھیڑتا ہے یا دھن کمانے کے لیے تجارت وغیرہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک دولت مند اور تاجر طبقہ پیدا ہوتا ہے جو کہ ہمہ وقت خود سے کم۔
اور غریب طبقے کو مسلسل لوٹتا رہتا ہے۔ یہ طبقہ جب حد سے زیادہ امیر ہو جاتا ہے تو پھر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے اور Oligarch یعنی چند دولت مند خاندانوں کی حکومت جنم لے لیتی ہے، جس کا اولین مقصد محض دولت کمانا ہوتا ہے جب تمام نظام حکومت ناکام ہو جاتے ہیں تو انقلاب آتا ہے اور اس کے بعد جمہوریت آتی ہے اور ہر فرد خود کو آزاد اور اقتدار میں حصہ دار تصور کرتا ہے۔ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ ہر شخص کو اقتدار تک پہنچنے اور امور مملکت سنبھالنے کا مساوی حق حاصل ہے یا اپنے نمائندے کو حکمران بنانے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ اصول پہلی نظر میں تو نہایت خوب صورت اور دل کش دکھائی دیتا ہے لیکن اس کا خطرناک رُخ یہ ہے کہ عوام اس قدر تعلیم یافتہ اور باشعور نہیں ہوتے ہیں کہ کسی صحیح فرد کو حکمرانی کے لیے منتخب کر سکیں۔ عوام سے اس کی رائے یا ووٹ حاصل کرنا کوئی دشوار مسئلہ نہیں ہے۔ اگر عوام کی تعریف یا خوشامد بڑھ چڑھ کر کی جائے یا کوئی اچھا مقرر ہو تو عوام با آسانی بے وقوف بن جاتے ہیں اور اپنا ووٹ یہ خوشی دے دیتے ہیں۔ اس طریقے سے اقتدار حاصل کر لینے والے لوگ حکومت کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ ان کی حکومتیں ان کے اشارے کی غلام ہوتی ہیں جنھیں عوام کی منشاء کی ذرا پروا نہیں ہوتی۔