Daily Roshni News

عورت کے تین روپ ساس بہو اور نند

عورت کے تین روپ

ساس بہو اور نند

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2022

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عورت کے تین روپ ساس بہو اور نند)ہمارے معاشرے میں خود خاندانی نظام جو ہماری ثقافت کا حصہ ہے، برسوں سے کامیاب چلا آرہا ہے لیکن اب اس نظام میں بعض جگہ دراڑیں پڑتی محسوس ہو رہی ہیں کیونکہ اکثر گھروں میں ساس بہو اور نند کا جھگڑا حزب اقتدار، حزب اختلاف کا جھگڑا بن چکا ہے۔ ساس، بہو اور نند کی مثلث جہاں ہوگی وہاں جھگڑے کا پایا جانا یقینی امر سمجھ لیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ساس بہو اور نند کے جھگڑے ہوتے ہی کیوں ہیں ….؟

اینٹ، بحری، لوہا اور لکڑی سے تعمیر ہونے والا اسٹرکچر مکان کہلاتا ہے۔ انسانی رشتے ایک مکان کو گھر بنا دیتے ہیں۔ گھر، وہ جگہ ہے جہاں محبت اور وفا کے دیپ جلتے ہیں، یہاں رشتے پیارے سے بنتے ہیں، یہ ایک ایسی آماجگاہ ہے، جہاں آکر دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی ہے۔ اس گلشن کو ہرا بھرا رکھنے میں سب سے زیادہ ایثار عورت کرتی ہے۔جس کے کئی روپ ہیں۔

ماں کے روپ میں گھر کی کرتا دھرتا، بیٹی کے روپ میں گھر کی رونق، بہو کے روپ میں گھر کی جنت ، بہن ہے تو باعث عزت و احترام، بیوی کے روپ میں گھر کی جنت کو پروان چڑھانے کا اہم پرزہ، گویا ان سارے کرداروں میں عورت ایک جنت نما گھر کی تشکیل دیتی ہے۔

اس کے ساتھ گھر کے دوسرے مکینوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گھر کے ماحول پر سکون رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پورا کریں۔ خوش گوار ماحول کے لیے مکینوں کے آپس میں دوستانہ تعلقات ہونا ضروری ہیں۔ اگر صور تحال اس کے برعکس ہو تو اپنا ہی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔

جب تک بچوں کی شادیاں نہیں ہوتیں، عموماً گھر کا ماحول خوش گوار ہی رہتا ہے۔ اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ماں اور بہن بہو اور بھا بھی کی صورت میں ایک لڑکی کو اپنے گھر لے آتے ہیں۔ بعض بہوئیں آہستہ آہستہ اپنے ایسے رنگ دکھانے شروع کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہی بیٹا جو کل تک ماں، باپ، بہن بھائیوں کا فرمانبردار تھا آج وہ بیوی کا بے دام غلام ہے اور اگر لڑکے کی کوئی بہن کنواری ہو تو پھر دیکھیے بھاوج کا طرز عمل ۔ ایسا لگتا ہے دو فریقوں میں سرد جنگ چل رہی ہو۔ نند بھاوج کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگتی ہے ، وہی بہن جو کل تک بھائی کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے ، لیکن بھاوج اسی سے بھائی کو بدظن کر دیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ساری بہوئیں ایسی ہوتی ہیں بہت سی اتنی نیک ہوتی ہیں کہ اپنی ساس نندوں کو ہی اپنا سب کچھ مانتی ہیں، انہیں خوش رکھتی ہیں، ان کی خوشی میں خوش اور غم میں ان سے زیادہ غمگیں ہو جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں نہ صرف اپنے لیے دنیا میں اچھائی کرتی ہیں بلکہ وہ اس طرح اپنا دین بھی سنوارتی ہیں۔

ایسی عور تیں اپنے میکے اور سسرال دونوں جگہ وہ مقام بنا لیتی ہیں جس سے لوگ ان کی مثالیں دیتے ہیں۔

بہوا ایک کوری کتاب ہوتی ہے ، ایک نئے گھر نئے ماحول میں آتی ہے۔ اس ماحول کو سمجھنا اس کی سمجھ داری کی نشانی ہے۔ صرف اپنے شوہر سے ہی اپنی دنیا وابستہ کرنا اور سانس نندو کو کم نظر سے دیکھنانا سمجھی کی نشانی ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ گھروں میں بہوئیں بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن ساس نندیں انہیں طرح طرح سے پریشان کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں کئی گھر ایسے ملیں گے جہاں بہوئیں ساس نندوں کو خاطر میں نہیں لاتیں ، ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں۔

آج کل کئی لڑکیوں کے ساتھ ان کے میکے والوں کی بھی یہ اولین خواہش ہوتی ہے کہ ہماری بیٹی اور داماد اپنے گھر والوں سے جلد سے جلد علیحدہ ہو جائیں۔آخر لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں ….؟ یہ صرف لڑکی اور اس کے میکے والوں کی سوچ ہوتی ہے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد یہ سوچ لڑکے کی زبان پر الفاظ کا روپ لے لیتی ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو لڑکی اس کے ساتھ شادی کر کے آئی ہے وہ تو ساس نندوں کے رنگ میں رنگ نہیں رہی لیکن بے چارے میاں مٹھو بیوی اور اس کے میکے والوں کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہے ہیں ۔ ان کے رنگ میں اتنا ر نگ گئے ہیں کہ خود اپنے گھر والے غلط اور سسرال والے صحیح نظر آرہے ہیں۔ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ الگ تو ایک نہ ایک دن سب ہی کو ہونا ہوتا ہے۔ نندوں اور دیوروں کے گھر بسنے کے بعد سب بھائی عموماً الگ الگ ہی رہے لگتے ہیں۔

جن ماں باپ نے ہزاروں تکلیفیں اٹھا کر بیٹوں کو پالا پوسا ، زندگی میں قدم قدم پر ان کے لیے قربانیاں دیں وہ بڑے ہو کر اپنا گھر بس جانے کے بعد ان ماں باپ سے علیحد گی چاہتے ہیں۔ جبکہ ماں باپ زندگی کے اس دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں ان کے کم زور و ناتواں وجود کو سہارے اور پیا ر کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ انہیں عزت دیں اور گھر میں ان کا مقام ہو۔

ذیل میں نئی بہو، ساس اور نند کے لیے چند مشورے پیش کیے جارہے ہیں، جن کی روشنی میں وہ اپنا لائحہ عمل ترتیب دے کر گھر کو جنت بنا سکتے ہیں۔

بہو خود کو ماحول میں ڈھالیں:ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے لڑکی کو اپنے فرائض سے اچھی طرح آگاہی ہونی چاہیے۔ وہ تمام لڑکیاں جو زندگی کی شاہراہ پر کسی کی ہم سفر بننے جارہی ہیں یا بن چکی ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شادی کے بعد سسرال کو اپنا اصل گھر سمجھیں اور ساس، سسر کو ماں باپ کا درجہ دیں۔

وفا، قربانی اور برداشت ایک نسخہ ہے جس سے نا صرف ازدواجی بلکہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ساس آپ کی ماں کی جگہ ہیں اور نندیں بہنوں کی مانند۔ بہوا نہیں ماں اور بہن کی محبت اور خلوص دے گی تو یقینا بہو کو بھی بیٹی اور بہن کی محبت ملے گی۔

پیار اور محبت ایسا گر ہے۔ جس سے سب کو اپنا بنایا جا سکتا ہے۔ زندگی تو وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے۔ دوسروں کو محبت دیں گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو محبت نہ ملے، نفرت غصہ انتقام جیسے جذبات ناصرف زندگی میں زہر گھولتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی اذیت سے ہمکنار کرتے ہیں۔

سب کے لیے مسرت اور سکھ کا باعث بننے کی کوشش کرنے والی خواتین کا گھر بہت جلد جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔

ساس ! ماں کی جگہ ہیں:بیٹے کی شادی سے پہلے صرف اور صرف ماں کب اور کیوں ساس بن جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ اگر وہ اب بھی صرف ماں ہی بنی رہے تو زندگی بہت آسان ہو جائے اور گھر کا ماحول کبھی خراب نہ ہونے پائے۔ بہو ایک الگ ماحول سے آئی ہوتی ہے، اسے نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے میں کچھ وقت تو لگے گا، اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں نظر انداز کر دینی چاہئیں۔ ڈانٹنے کے بجائے اسے پیار سے سمجھانا چاہیے۔ بہو کے بجائے اسے بیٹی سمجھنا چاہیے۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں بیٹے بہو کے ساتھ رہنے کا موقع دیں، ان کے گھومنے پھرنے پر اعتراض نہ کریں۔ ساس یہ سوچیے کہ جب آپ گھر میں بہو بن کر آئیں تھیں تو کیا آپ کے لیے حالات بہت اچھے تھے ، اگر ہاں۔ تو ایسے ہی حالات بہو کے لیے پیدا کیجیے اور اگر حالات آپ کے بہتر نہیں تھے تو اس تجربے کی بنیاد پر بہو کے لیے ماحول بہتر بنانے کی کوشش کیجیے۔ ابتدائی دنوں میں ساس کی خاموشی بہو کے دل میں ساس کا احترام بڑھادے گی اور گھر کا ماحول خراب نہیں ہو پائے گا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2022

Loading