Daily Roshni News

عورت کا اصل گھر سسرال ہے۔

عورت کا اصل گھر

 سسرال ہے۔۔

نئے ماحول سے خود کو ہم آہنگ کیجئے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ عورت کا اصل گھر سسرال ہے)اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہو اچھی بیٹی اور ساس اچھی ماں بننے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ یہاں سے ہی گھر میں تکرار شروع ہوتی اور کئی مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ ساس بہو کے جھگڑے خاندان کے تمام افراد کا ذہنی سکون برباد کر دیتے ہیں، نئے ماحول سے خود جس کے نتیجے میں زندگی کے دیگر معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔

یہ جھگڑے جب معمول بنتے ہیں تو بچوں پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات مرتب کرتے اثرات پوری زندگی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

جھگڑوں کی وجہ ہر جگہ کے معاملات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہر انسان اپنی تربیت، طبیعت اور عادت میں جد ا ہو تا ہے ،اس لیے کوئی اصولی بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ کس جگہ جھگڑے کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ البتہ کچھ عمومی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیال اگر رکھا جائے تو خاندان کے افراد میں جھگڑوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

کو ہم آہنگ کریں! عام طور پر ہمارے ہاں اس طرح کے مسائل کا آغاز شادی کے فوری بعد ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب ایک بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے۔ شادی کے بعد لڑکی کو اپنا گھر چھوڑ کر سسرال میں جاکر رہنا ہوتا ہے۔ ایک لڑکی کے لیے یہ نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اس کے ذہن میں اپنے گھر اور اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک حسین تصور ہوتا ہے۔ وہ لڑکی صرف اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک نئی زندگی شروع نہیں کر رہی ہوتی بلکہ ایک پورے  خاندان کا حصہ بن رہی ہوتی ہے۔ اس خاندان کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں ، ملنے جلنے اور لینے دینے کے آداب ہوتے ہیں، تعلقات کا ایک دائرہ ہوتا ہے ، رہنے سہنے اور کھانے پینے کا ایک طریقہ ہوتا ہے، معاملات سے نمٹنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ آنے والی لڑکی، چاہے خاندان کی ہی کیوں نہ ہو، اکثر ایک مختلف پس منظر سے آتی ہے۔

اب اگر وہ لڑکی اس حقیقت کو سمجھ لیتی ہے اور خود کو نئے حالات میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جیسے سی۔ ہی وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے صرف اپنی نا مرضی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے تو جھگڑے اور رہے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ اور بھی سنگین اس وقت ہوتا ہے جب دونوں کو لگتا ہے کہ ہو پیے ان کے اصول کمپرومائز ہو رہے ہیں۔ ایسے میں حالا جب کوئی بھی پیچھے بنے کو تیار نہیں ہوتا تو سرد سر جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ کسی ایک طرف سے بھی نہیں اگر لچک کا مظاہرہ کیا جائے تو معاملات کو خراب وہی کچھ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے مگر ہر کوئی دوسرے ہی چونکہ سے اس لچکد ار رویے کی توقع رکھتا ہے۔

یہ بنیادی حقیقت ہے، جس سے والدین کو اپنی بیٹی کو واقف کرانا چاہیے کہ ہماری سوسائٹی زبر دست مغربی معاشرے کی طرح نہیں جہاں صرف لڑکا جھگڑے اور لڑکی اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ ہماری کی۔ سوسائٹی میں لڑکی کو شوہر کے ساتھ سسرال کے ساس اچھی طور طریقوں کے مطابق ایڈ جسٹ ہونے کا ہنر آنا چاہیےجس لڑکی کو اس بات کی سمجھ ہوتی ہے ، وہ خاندان کے عام طور پر بہت کامیاب زندگی گزارتی ہے۔

آنے والی لڑکی کو سمجھیے

 ایڈ جسٹمنٹ اگر نئی آنے والی لڑکی کی ریقہ ہوتا ذمہ داری ہے تو بہر حال سسرال والوں کو بھی یہ تا ہے۔ بات یاد رکھی چاہیے کہ لڑکی اپنا گھر بار اور ماں نہ ہو، باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا تصور لے کر اس گھر میں آئی ہے۔ اسے موقع ملانا ہتی ہے چاہیے کہ وہ نئے حالات میں ایڈ جسٹ کر سکے۔ نے کی اس دوران میں اس سے غلطیاں ہوں گی، وہ بھول جیسے میں مبتلا بھی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی اپنی ناپسندیدہ بات بھی کر بیٹھے لیکن اسے رعایت ملنی چاہیے۔

ہمارے ہاں کئی گھرانوں میں اکثر ایسا نہیں کہ ہو پاتا۔ عام طور پر ایک ساس بحیثیت بہو خود برے حالات سے گزری ہوتی ہے۔ اس نے اپنی سسرال اور ساس کی طرف سے اچھے معاملات ی نہیں دیکھے ہوتے ، اس لیے وہ طے کر لیتی ہے کہ وہی کچھ بہو کے ساتھ بھی لازماً ہونا چاہیے۔ زمانہ چونکہ ہمیں پچیس سال آگے بڑھ چکا ہوتا ہے، زمانے کے طور طریقوں میں بدلاؤ آچکا ہوتا ہے۔ اس لیے ساس کے برخلاف نئے زمانے کی بہو زبر دست مزاحمت کرتی ہے اور پھرجھگڑے ہو جاتے ہیں۔

کسی ساس کا یہ سمجھنا کہ جب وہ بہو تھی تو اسے ساس اچھی نہیں ملی اور جب وہ ساس بنی تو بہو اچھی نہیں ملے گی بالکل غلط سوچ ہے۔ اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اس وقت کے تقاضے کچھ اور تھے اور آج وقت کافی آگے جاچکا ہے۔ مثلا اگر ایک خاتون کو لڑکی اس کی ساس نے میکے جانے سے روکا ہوتا ہے تو وہ اگر ان بھی اکثر یہی کچھ اپنی بہو کے ساتھ کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اس پر کام کاج کا تمام بوجھ ڈال دیا گیا ہوتا ہے تو یہی کچھ وہ بھی اپنی بہو کے ساتھ کرتی ہے۔ حالانکہ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ جو کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا ہے، اگر وہ اس وقت اس کے لیے، برا تھا تو میں پچیس سال بعد اس نئے زمانے کی لڑکی کے لیے یہ کہیں زیادہ ناپسندیدہ ہو گا۔

سب سے بڑی بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین بیٹیوں اور بہوؤں کے لیے الگ الگ معیار قائم کر لیتی ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کو تو سسرال سے الگ دیکھنے کی خواہاں ہوتی ہے اور توقع کرتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات میں آزاد ہو۔ اس کا شوہر اس کی ہر بات کو تسلیم کرے، اسے محبت دے اور اس کے ناز نخرے اٹھائے لیکن یہی بات خود وہ اپنی بہو کے لیے دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ اصولاً تو اسے جو اپنی بیٹی کے لیے اچھا لگتا ہے وہی دوسرے کی بیٹی کے لیے بھی کی ہو اچھا لگنا چاہیے۔

سب سے بڑی بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین بیٹیوں اور بہوؤں کے لیے الگ الگ معیار قائم کر لیتی ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کو تو سسرال سے الگ دیکھنے کی خواہاں ہوتی ہے اور توقع کرتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات میں آزاد ہو۔ اس کا شوہر اس کی ہر بات کو تسلیم کرے، اسے محبت دے اور اس کے ناز نخرے اٹھائے لیکن یہی بات خود وہ اپنی بہو کے لیے دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ اصولاً تو اسے جو اپنی بیٹی کے لیے اچھا لگتا ہے وہی دوسرے کی بیٹی کے لیے بھی کی ہو اچھا لگنا چاہیے۔

رے کوئی بھرے کوئی!

 حقوق بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے اس پر کبھی ہمارے ہاں یہ بھی ایک عام روش ہے کہ کسی اعتراض نہیں کرنا چاہیے کہ وہ انہیں وقت دیتا ہے کا غصہ دوسرے پر اتار دو۔ بعض گھرانوں میں اگر یا ان کی مالی مدد کرتا ہے۔ ان کی بیٹی کے ساتھ اس کے سسرال میں کوئی ان لینا زیادتی ہوئی ہے تو اس کا بدلہ وہ اپنی بہو سے لیتے یہ قطعی نامناسب اور ناقابل قبول رویہ ہے۔

ظلم اگر ان کی بیٹی کے ساتھ ہوا ہے، طنز کے تیر کی بیٹی نے سہے ہیں۔ اپنے شوہر کی بے رخی کا صدمہ اگر ان کی بیٹی کو ملا ہے تو اس میں بہو بے چاری کا کیا قصور ہے….؟ اسی لیے وٹے سٹے کی شادیوں میں ناچاقی کا احتمال زیادہ رہتا ہے۔ ہوتا تو یہ چاہیے کہ اگر ان کی بیٹی سے کوئی زیادتی ہوئی ہے تو کم از کم وہ اپنی بہو کو ایسے صدمے سے بچائیں۔ انہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ایک بہتر روایت کا آغاز کرنا چاہیے۔

شوہر کسی کا بیٹا بھی ہے

 گھریلو جھگڑوں کا ایک اہم سبب اکثر وہ مرد بن جاتا ہے جو ایک طرف ایک خاتون کا شوہر ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ کسی اور کا بیٹا اور بھائی ہوتا ہے۔ جھگڑے کا سبب اکثر یہ ہوتا ہے کہ اس مرد پرنس کے حقوق زیادہ ہیں۔ بیوی کے پاماں کے ۔ اس مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ ہر شخص کو کچھ نہ کچھ ایثار کر نا چاہیے۔

 لڑکی کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو لڑکا اس کا شوہر ہے، ایک دوسری خاتون کا بیٹا اور کسی اور کا بھائی بھی ہے۔ انہوں نے اسے پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا ہے۔ اس لیے اس شخص پر ان لوگوں کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے اس پر کبھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے کہ وہ انہیں وقت دیتا ہے یا ان کی مالی مدد کرتا ہے۔

میاں بیوی کی نجی زندگی کا احترام کریں سرال والوں کو بھی یہ بات یادر کھنی چاہیے

کہ میاں بیوی کی ایک نجی زندگی بھی ہوتی ہے۔ انہیں ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھنا بیوی کو میاں سے دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ایک غیر فطری اور ناپسندیدہ عمل ہے، جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ کبھی بچوں کے معاملات بھی نا اتفاقی کا سبب بنتے ہیں۔ نئے دور کی مائیں اپنے ڈھنگ سے بچوں کو پالنا چاہتی ہیں اور پرانے دور کی دادی امائیں اپنے تجربے اور پسند و نا پسند کو درست سمجھتی ہیں۔ دادی لاڈ کرتی ہے اور ماں سمجھتی ہے کہ بچہ بگڑ رہا ہے۔ ماں کسی وجہ سے بچے کی پٹائی کرتی ہے اور دادی کے نزدیک یہ ان کے پوتے پر ظلم ہوتا ہے۔ ان چیزوں کا حل آسان نہیں کیونکہ ہر شخص اپنا حق زیادہ سمجھتا ہے۔ اہم بات یہی ہے کہ ہر فریق کو دوسرے کا حق تسلیم کر کے قابل قبول راہ اختیار کرنی چاہیے۔

دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا!

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج بھی اور عادات نہیں مل پاتیں۔ یعنی جھگڑے کے ہو اصل فریق وہی دونوں بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک کئی سبب اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اور ہیں بہنیں خود فریق کے بجائے اس لڑکے کے کندھے ساحت پر رکھ کر بندوق چلاتی ہیں۔ یعنی بھائی اور بیٹے کے میں سامنے لڑکی کی شکایت کرنا، اس کے عیوب گنوانا بنادی اور اس کی زیادتیوں کا رونا رونا۔ اسی طرح بیوی پیدا بھی گھر آتے ہی میاں کے سامنے شکایات کی پٹاری کھول دیتی ہے۔ لڑکا اگر ماں باپ اور بہن بھائیوں میاں کا دفاع کرتا ہے تو اس پر بھی جھگڑا ہو جاتا ہے۔ محبت کی شادی اور توقعات! پسند کی شادی میں بالعموم میاں بیوی کے تھے اختلافات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بات محبت برابری کا تعلق ہے جبکہ گھر کے سربراہ کی ملی ں حیثیت سے مرد کو کچھ درجے اوپر رکھا گیا ہے۔ کود اپنے بیوی کو بہر حال اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ محبت کی شادی میں دونوں اطراف سے توقعات بھی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اکثر جوڑے ایک تھی ی دوسرے کو اس بات کے طعنے دیتے ہیں کہ وہ شادی سے پہلے بہت بلند بانگ دعوے کرتا تھا لیکن حقیقت میں وہ اس پر پورا نہیں اتر ایا اتری۔ یہی چیز میاں بیوی میں اختلافات کا باعث بنتی جاتی ہے جس کا نتیجہ بعض اوقات انتہائی خطرناک بھی نکلتا ہے۔

شریک حیات کی عزت کریں

 ہمارے ہاں اکثر مرد اپنی طاقت کا غلط استعمال اور غیر بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنے حقوق سے واقف ہوتے ہیں۔ بیوی کا کوئی حق انہیں نظر نہیں آتا۔ کئی مروجب چاہتے ہیں اپنی بیوی کی پٹائی کر دیتے کی بڑی تہ ہیں، میکے جانے سے روک دیتے ہیں، اس کے ساتھ بد کلامی کرتے ہیں۔ ایسی خواتین کے دل میں محبت کی جگہ خوف لے لیتی ہے۔ شوہر کی بناوٹی عزت ہوتی ہے لیکن دل ہی دل میں نفرتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2019

Loading