Daily Roshni News

غربت سے نجات برکتوں کے ساتھ

غربت سے نجات برکتوں کے ساتھ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پاکستان کے سامنے اس وقت ایک بہت بڑا پیج یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو بہتر اور مستحکم کیا جائے۔ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے لیے روزگار کا حصول آسان ہو ، پیداواری ذرائع کو ترقی دی جائے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد علیہ السلام کی تعلیمات میں توحید پر ایمان، اللہ کی خالص بندگی، آخرت پر یقین کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے احترام، حکومت کے فرائض اور عوام کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی واضح رہنمائی ملتی ہے۔

نبی کریم علیہ الصلواۃ والسلام نے حصول معاش کے لیے کوشش اور محنت کو پسند فرمایا ہے۔ اسلام نے انفاق کے ذریعہ مالی طور پر کم زور اور نادار لوگوں کی احترام کے ساتھ مدد کی بہت زیادہ تاکید کی ہے تاہم گدا گری کو پسند نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ السلام اللہ کے آخری نبی ہیں۔ حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام پر اللہ تعالی نے اپنا کلام قرآن نازل فرمایا۔ حضرت محمد رسول الله صل اعلام قرآن کے سب سے پہلے قاری، سب سے پہلے حافظ ، سب سے پہلے شارح ہیں۔ حضرت محمد علیہ اسلام کی حیات مبارکہ عملی قرآن – ہے۔ حضور کی حیات طیبہ کا ہر پہلو ہر دور کے انسانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے ۔ معلم اعظم علیہ الصلوة والسلام کی سنت مبارکہ پر عمل کرنا

لوگوں کے لیے ہمیشہ خیر و فلاح کا ذریعہ بنے گا۔ ہجرت (622ء) کے بعد مدینہ منورہ تشریف لاکر حضرت محمد صلی علیہ السلام نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی۔ حضور خود اس ریاست کے سربراہ تھے۔ نبی کریم نے امن وامان (Law & Order)کے قیام کے لیے مدینہ اور اطراف میں آباد قبائل سے کئی معاہدے کیے۔

کسی علاقے یا کسی شہر میں مختصر وقت میں – کثیر تعداد میں باہر سے لوگوں کی آمد وہاں کئی سماجی و معاشی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ یثرب (مدینہ ) میں صدیوں سے آباد بعض قبائل کے درمیان دیرینہ دشمنیاں بھی موجود تھیں۔ حضرت محمد صلی علیہ السلام کی پر حکمت، بصیرت افروز اور بابرکت قیادت میں یثرب کے ان متحارب قبائل کے باہمی معاملات درست ہوئے۔ مکہ میں مشرک سرداروں کے ظلم سے تنگ آکر ہزاروں مسلم مہاجرین ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ مہاجرین کی آمد سے آبادی کے تناسب میں

)Demographic ہونے والی اس تبدیلی (Change کو اعلیٰ بصیرت اور فہم و فراست کے ساتھ سماج کی بہتری اور ریاست کی بھلائی کے لیے بروئے کار لایا گیا۔ لوگوں میں خیر خواہی اور باہمی تعاون کے جذبات کو فروغ دیا گیا۔ اس بہت بڑے کام کے لیے انسانی تاریخ میں ایک بے مثال کام ہوا۔ تاریخ اس عمل کو مواخات کے نام سے جانتی ہے۔ نبی کریم نے کثیر تعداد میں مدینہ آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوششوں کے ساتھ ساتھ انصار و مہاجرین کو روزگار کی فراہمی بھی پیش نظر )Employment( رکھی۔ مصلح اعظم علیہ الصلواۃ والسلام نے ریاست مدینہ میں صحت عامه Public) )Literacy( کی بہتری، تعلیم Health( کے فروغ کے لیے اقدامات کیے۔ رحمتہ للعالمین خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ السلام نے بلا امتیاز سب انسانوں کوعزت و تکریم سے نوازا۔ حضور کی خدمت میں کئی ضرورت مند لوگ حاضر ہو کر مدد کے طلب گار ہوتے۔ نبی کریم علیہ الصلواۃ والسلام ان کی بہت -احسن انداز میں مدد فرماتے۔

دور نبوی کے ایک واقعہ میں اچھی معاشرت اور بہتر معیشت اور بعض دیگر پہلوؤں سے کئی سبق ملتے ہیں۔ نبی کریم کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے اور اپنے لیے مالی مدد کے طالب ہوئےحضور نے ان سے فرمایا …. تمہارے گھر میں کچھ ہے ….؟

ان صاحب نے عرض کیا …. میرے پاس ایک چادر ہے اور ایک پیالہ ہے۔حضور نے ان سے فرمایا: یہ دونوں چیزیں لےآؤ۔ صحابی یہ چیزیں لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے۔

حضور نے یہ سامان اپنے ہاتھ میں لیا اور وہاں موجود صحابہ سے پوچھا…. اس چادر اور پیالے کو کون خریدتا ہے ….؟ایک صاحب نے ان دونوں چیزوں کے لیے ایک درہم کی پیش کش (Offer) کی۔حضور نے پوچھا …. ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ وہاں خاموشی رہی۔ حضور نے یہ بات دو تین مرتبہ دہرائی۔

ایک صاحب نے اس سامان کے لیے دو درہم کی آفر دی۔ حضور نے دو درہم لے کر یہ سامان انہیں دے دیا۔

نبی کریم نے دو درہم اس سامان کے پرانے مالک کو دیے اور ان سے فرمایا …. ایک درہم سے کھانے پینے کا سامان خرید کر اپنے گھر والوں کو دو اور

ایک درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس آؤ۔ وہ صاحب کلہاڑی خرید کر حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ نبی رحمت نے اپنے دست

مبارک سے اس کلہاڑی میں لکڑی کا دستہ لگا کر فرمایا…. اس کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹو اور بیچو۔ مزید فرمایا …. میرے پاس پندرہ دن بعد آنا۔

دو ہفتوں بعد وہ صحابی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ ان کے پاس اب دس درہم ہیں یعنی لکڑیاں کاٹ کر بیچنے سے انہیں دس درہم کی آمدنی ہوئی تھی۔

حضور نے فرمایا …. ان دس درہم سے اب تم کچھ کا غلہ خرید و اور کچھ درہم سے کپڑا خرید و۔ اس کے بعد نبی کریم علیہ الصلواۃ والسلام نے ان صحابی سے فرمایا …. یہ (اپنی محنت کی کمائی ) اس سے کہیں بہتر ہے کہ قیامت کے دن تمہارے چہرے پر مانگنے کا داغ ہو۔

اس واقعے میں حکومت اور حکمرانوں کے لیے بہت بڑا سبق پنہاں ہے۔ وہ یہ کہ حکمران اور ریاست کو معاشرے کے کم زور ترین فرد کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ اس شخص کی عزت نفس مجروح کیے بغیر اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ حصول معاش کے لیے وسائل کی فراہمی میں اس کی مدد کرنی ہے۔ اسے اس کی صلاحیتوں(Skills)مطابق کام کا شعبہ (Career Path) اور حصول آمدنی کے طریقے تجویز کرنا ہے۔ مزید یہ کہ جس شخص کو کسی کام پر لگایا جائے اس سے اس بھی لی )Progress Report(کام کی خبرجاتی رہے۔

اس واقعے سے ہمیں ایک سبق یہ ملتا ہے کہ ایک صحت مند شخص کو جس کے پاس تھوڑے سے بھی وسائل ہوں ، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسے اپنے محدود سرمائے (Capital) اور اپنی محنت (Efforts) کے ذریعے اپنے لیے وسائل کی کوششیں کرنی چاہئیں۔

معاشی لحاظ سے دنیا کے مضبوط ترین ممالک کی حکومتیں بھی اپنے عوام کو بڑی تعداد میں ملازمتیں فراہم نہیں کر سکتیں۔ تعلیمات نبوی سے ہمیں یہ آگہی ملتی ہے کہ عوام کے بڑے حصے کو روزگار کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے لوگوں کو تجارت و زراعت (بشمول صنعت اور خدمات کے شعبوں میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی جائے۔ خود کام کرنے Self) (Employment کے لیے کم وسائل والے

افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

وسائل سے بالکل محروم یا کم وسائل والے افراد کی مدد احترام کے ساتھ اس طرح کی جائے کہ ان کی ضروریات زندگی پوری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مددان کے لیے مستقل آمدنی کا ذریعہ بن جائے۔

نبی کریم علیہ الصلواۃ والسلام سے صحابہ نےپوچھا …. طیب کمائی کون سی ہے ….؟

حضور نے فرمایا …..اپنے ہاتھ کی کمائی اور وہ کاروبار جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو۔

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا…..سچا اور ایمان دار تاجر قیامت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔(حوالہ جات : ابی داؤد، ابن ماجه ، مسند احمد ، ترمذی)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2024

Loading