غزل
شاعر۔۔۔ناصر نظامی
زندگی میں بڑا شرمندہ ہوں
کب تو مر بھی گئی میں زندہ ہوں
میں شعر و سخن کا پرندہ ہوں
سوچ کی روشنی سے زندہ ہوں
ایک مدت کے بعد آ یا ہوں
میں اسی شہر کا باشندہ ہوں
لفظوں کے آ ئینے تراشتا ہوں
میں علم و ادب کا کارندہ ہوں
احساس کی خوشبو بکھیرتا ہوں
میں آ گہی کا نمائندہ ہو ں
لمحہء موجود میں جیتا ہوں
اس لئے رہتا میں پایندہ ہو ں
میں ہوں وقت کا دائرہ
میں ماضی و حال آ ئند ہ ہوں
آ پ کا عکس پڑا ہے مجھ پہ
اس لئے لگتا میں تابندہ ہو ں
سنگ ہوں ہیروں کے سنگ رہ کے
میں ناصر ہو گیا رخشندہ ہو ں
ناصر نظامی