غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ
قسط نمبر 3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔ غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ)در د معدہ میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا ” شاید اپنڈکس ہو !
“ہم ابھی ایک آدمی بھیجتے “ وہ کہتے کہتے رک گیا۔ مجھ سے یہ غلطی ہو گئی تھی کہ شدت درد سے بے تاب ہو کر میں نے اپنا چہرہ اوپر اٹھا لیا تھا۔ ڈاکٹر نے میرے ماتھے پر نشان کو دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اسکرین سے ڈاکٹر کی تصویر غائب ہو گئی۔ اسکرین تاریکی میں ڈوب گئی اور میں چیخ اٹھا:
ڈاکٹر ڈاکٹر ! لیکن وہ تو جا چکا تھا۔ میں نےاپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپالیا۔میں سوچنے لگا کہ یہ تو بات حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ کیا ڈاکٹروں کا بقراتی حلف نامہ اس قسم کی حرکت کی اجازت دیتا ہے …. ؟ کیا ایک معالج کسی مریض کی طرف سے امداد کی التجا کو رد کر سکتا ہے ؟ مگر بقر اور بیچارے کو اس سزا کے بارے میں کیا خبر تھی …. ؟ ڈاکٹر پر اس شخص کے علاج معالجے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی جو سزا کے طور پر دوسروں کی نظروں سے غائب تھا۔ معاشرے کے لیے تو میں گویا موجود ہی نہیں تھا۔ اب میں خود اپنے اور اپنی علالت کے رحم و کرم پر تھا! یہ گویا تصویر کا دوسرا رخ تھا۔ آپ درد کے ہاتھوں بے چین ہو کر بے چینی و بے قراری سے بستر میں کروٹیں بدلتے رہیں اور آپ کی طرف کوئی بھی متوجہ نہ ہو۔ اپینڈڈ کس کے درد کے ہاتھوں بات یہاں تک پہنچ جائے کہ آپ کی آنت پھٹ جائے اور آپ کی جان چلی جائے تو پھر بھی کوئی آپ کی طرف متوجہ نہیں ہو گا۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت ہو سکتی ہے جو آپ کی طرح قانون کنی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔بہر حال قدرت کو میرے حال پر رحم آیا اور میں مرنے سے بچ گیا۔ گو میرا حال ابتر ہو کر رہ گیا تھا۔ آدمی دوسروں سے بات چیت کیے بغیر ایک سال گزار سکتا ہے، وہ آٹو میٹک گاڑیوں پر سفر کر سکتا ہے، وہ آٹو میٹک ہوٹلوں سے کھانا کھا سکتا ہے مگر وہ بیمار پڑ جائے تو وہ آٹو میٹک ڈاکٹر کہاں ہیں جو اس کا علاج کریں ….؟پہلی بار مجھے احساس ہورہا تھا کہ اس سزا کی صورت میں مجھے دنیا بدر کر دیا گیا ہے۔ قتل، چوری، ڈاکے اور زنا بالجبر کے مجرموں کو بھی جیل میں بیمار پڑنے پر علاج معالجے کی سہولت بہم پہنچائی جاتی ہے۔ میرا جرم تو اتنا شدید نہیں تھا کہ میں اس کے بدلے سزائے قید کا مستوجب ٹھہر تا مگر اس کے باوجود میری علالت پر کوئی ڈاکٹر میرا علاج کرنے کے لیے تیار نہیں تھا…. یہ تو سراسر ظلم تھا…. شدید نا انصافی تھی!میں عالم غضب میں ان ماہرین قانون کو گالیاں دینے لگا جنہوں نے یہ سزا تجویز کی تھی مگر میری گالیوں سے کسی کا کیا بگڑتا۔ ہر صبح مجھے اکیلے ہی اپنی سزا کی صلیب اٹھانی ہوتی تھی…. لاکھوں انسانوں کے اس شہر میں رہنے اور چلنے پھرنے کے باوجود میں بالکل اس طرح تنہا تھا جس طرح را بنفسن کر وسواپنے جزیرے میں تنہا تھا۔ میں اپنی طبیعت کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیات بیان کروں تو کیسے کروں ….؟ گزرتے وقت اور بدلتی رتوں کے ساتھ مجھے جن جن حالات و کیفیات سے گزر ناپڑ رہا تھا۔ وہ نا قابل بیان حد تکعجیب و غریب تھیں۔
کبھی ایسے مواقع بھی ہوتے تھے جب مجھے اپنی سزا ایک نعمت محسوس ہوتی تھی کہ میں ان قوانین کی پابندی سے آزاد ہوں، جنہوں نے عام انسانوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ میں کھلے بندوں چوری کر سکتا تھا۔ میں چھوٹے چھوٹے اسٹوروں میں داخل ہوتا اور کچھ بھی اٹھا لیتا۔ کوئی دکاندار مجھے روکنے کی کوشش نہ کرتا تھا۔ اسی طرح میں کئی ایسی دیگر جگہوں پر جاتا کرتا جہاں عام حالات میں جانا میرے بس کی بات نہیں تھی۔
عالی شان ہوٹلوں میں چلا جاتا تھا۔ ان کے کمروں میں ایک منتقدر ہستی کی طرح چکر لگاتا تھا اور اس کے باوجود کوئی مجھے نہیں روکتا تھا، کوئی میری طرف متوجہ نہیں ہوتاتھا۔آہستہ آہستہ میری طبیعت میں تلخی بڑھتی جارہی تھی۔ معاشرے کی طرف سے برتی جانے وایل بے نیازی میرے اندر نفرت اور حقارت کے رنگ میں ڈھلتی جارہی تھی۔ میں برستی بارش میں خالی سڑکوں اور ویران و سنسان چوراہوں میں آکر اپنے ارد گرد واقع بلند و بالا عمارتوں کو مخاطب کرتے ہوئے چینیا تمہاری ضرورت کسے ہے، مجھے تو نہیں! میں تم سب کو جوتی کی نوک پر رکھتاہوں۔
میں اس طرح چیختے چلاتے ہوئے قہقہے لگانے لگتا۔ یقینا یہ ایک طرح کی دیوانگی تھی جسے میری تنہائی کیفیت نے جنم دیا اور پروان چڑھایا تھا۔ میں تھپڑوں اور سینما ہالوں میں جا نکلتا جن کی نگاہیں اسٹیج یا اسکرین پر مرکوز ہو تیں میں ان کی نشستوں کے درمیانی راستے میں اچھل کود کرنے لگتا مگر کوئی تماشائی بھی میری اس حرکت پر اعتراض نہ کرتا۔ یہ دیوانگی کے لمحات تھے جب میں اپنے گردو پیش کی ہر چیز پر نفرت اور حقارت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے قدم اٹھا نا تھا ….دیوانگی اور مجنونانہ مسرت کے ان لمحات کے مقابلے میں ایسے لمحات بھی میری زندگی میں آتے تھے جب میری تنہائی میرے لیے جان لیوا عذاب بن جاتی تھی۔ میں پر ہجوم گلیوں، بارونق سڑکوں اور انسانوں سے بھرے پرے بازاروں میں چلتے چلتے تھک جاتا تھا مگر کوئی میری طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، کوئی میرے قریب نہیں آتا تھا …. اور تو اور کوئی فقیر تک میرے پاس نہیں بھٹکتا تھا۔ ایک روز یونہی چلتے چلتے میں شہر کے مضافات میں واقع ایک گندی سی آبادی میں پہنچ گیا۔ اس آبادی میں کتنے ہی بوڑھے اور معذور لوگ درد بھری آواز میں صدالگالگا کر بھیک مانگ رہے تھے، وہ قریب سے گزرنے والے ہر شخص سے سوال کرتے تھے۔ میں ان کے پاس سے گزرا لیکن مجھ سے کسی نے سوال بھی نہ کیا۔ ایک بار ایک اندھا فقیر میری طرف بڑھا اور اس نے گڑ گڑاتے ہوئےسوال کیا۔خدا کے نام پر میری مد کرو۔ مجھے کچھ دو کہ میں آنکھوں کے بینک سے آنکھیں خرید سکوں۔“
معروف سائنس فکشن ادیب رابرٹ سلور برگ کی سائنسی کہانیاں خلائی سفر ، ٹائم مشین ماضی اور مستقبل کی سیر ، حیرت انگیز ایجادات ، روبوٹ، کائنات میں نامعلوم دنیاؤں کی کھوج، انجان مخلوقات سے ملاقات ، ماضی کی ترقی یافتہ اقوال اور مستقبل کی انوکھی دنیاؤں جیسے اہم سائنسی موضوعات کا احاطہ تو کرتی ہی ہیں مگر ساتھ ہی انسانی فطرت اور انسانی کردار کے مخفی گوشوں کو بھی بڑی خوبصورتی سے قاری کے سامنے لاتی ہیں۔زیر نظر کہانی رابرٹ سلور برگ کی شاہکار کہانی To See The Invisible Man کا ترجمہ ہے، جو انہوں نے 1963ء میں لکھی تھیاور امریکی سائنسی رسالے Worlds of Tomorrow میں شایع ہوئی تھی ۔ بعد میں اسے رابرٹ سلورگ برگ کی کہانیوں کے مجموعے The Best of Robert Silverberg میں بھی شامل کیا گیا۔ اس کہانی کے انگریزی متن کو درج ذیل لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔https://www.scribd.com/document/140169435/1960 کی دہائی میں لکھی اس کہانی میں رابرٹ سلور برگ 1 نے 2104ء کا دور دکھایا ہے اور اس دور میں میں ڈرون کیمروں اور اسمارٹ فونز ویڈیو کالنگ کا تصور پیش کیا تھا، یہ تصور آج حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ رابرٹ سلور برگ کی اس کہانی کو 1985ء میں امریکی ٹی وی چینل CBS کی سائنس فشن سیریز The Twilight Zone میں ایک ڈرامے کے قالب میں بھی بھی ڈھالا جاچکا ہے۔ جسے مندرجہ ذیل یوٹیوب لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ پہلے ہر اور است الفاظ تھے جو کسی انسان نے خاص مجھ سے مخاطب ہو کر کہے تھے۔ میرا دل بھر آیا اور میرا ہاتھ فورا اپنی جیب کی طرف بڑھا۔ میں ان الفاظ کے لیے اس اندھے فقیر کا شکر گزار تھا اور چاہتا تھا کہ احسان مندی کے اعتراف کے بدلے اپنے پاس موجود تمام رقم اس کے حوالے کر دوں۔ مگر اس سے پہلے کہ میں جیب سے رقم نکالتا،
بیساکھیوں کا سہارا لیے ہوئے ایک بھکاری نہ جانے کہاں سے اور کیسے ، میرے اور اندھے فقیر کے درمیان حائل ہوا۔ اس نے اندھے فقیر کے کان میں سرگوشی کی جس میں سے غائب“ کالفظ ہی میرے پلے پڑا اور پھر وہ دونوں وہاں سے کھسک گئے۔ میں رقم اپنے ہاتھ میں تھامے رہ گیا۔ فقیر بھی مجھے سے بھیک نہیں لے سکتے تھے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2018