غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ
قسط نمبر 4
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔ غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ)اس قسم کے واقعات سے میں پھر نرم پڑ گیا۔میرا احساس برتری، احساس مسرت، معاشرے کے لیے نفرت و حقارت، یہ سب احساسات اس قسم کے واقعات سے برف کی طرح پگھل گئے۔ اب کون مجھ پر شقادت و سرد مہری کا الزام لگا سکتا تھا ….؟ میں تو اسفنج کی طرح نرم پڑ گیا تھا۔ میں تو اب بے تاب تھا کہ کوئی شخص مجھ سے مخاطب ہو کر ایک دو لفظ کہے۔ کوئی میری طرف دیکھ کر مسکرائے یا مسکر اکر دیکھے۔ کوئی مصافحے کے لیے میری طرف بڑھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری یہ بے تابی بڑھتی جارہی تھی…. میری سزا کو چھ مہینے ہو چکے تھے۔ اس بڑھتی ہوئی بے تابی کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں ایک حماقت کر گزرا۔ اپنی لمبی اور بے مقصد سیروں کے دوران مجھے اپنے جیسے تین چار سزا یافتہ انسانوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک دن ایک سزا یاب انسان سے نظریں ایک لحظے کے لیے ملیں، وہ نظریں جھکا کر ایک طرف کر آگے بڑھ گیا۔ وہ چہرے مہرے سے وہ خاصا پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا اور میں یہ سوچ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ شخص کیوں اس سزا کا مستوجب ٹھہرا ہے…..؟یک بیک اس خواہش نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا کہ میں اس نوجوان کا پیچھا کروں اور اس سے دریافت کروں…! یہ ساری باتیں از روئے قانون منع تھیں۔ کوئی انسان مجھ ایسے کسی سزایاب سے بات نہیں کر سکتا تھا…. اور ہم سزایاب بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کر سکتے تھے۔
معاشرے کے قانون سازوں کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ سزا پانے والے انسان آپس میں رابطہ کر کے ایک برادری یا قبیلہ بنالیں۔مجھے یہ سب کچھ معلوم تھا۔ اس کے باوجودمیں اس نوجوان کے پیچھے ہو لیا۔ میں تین چوراہوں تک اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ اراد تا میں نے ہمیں سے پچاس قدم تک کا فاصلہ رکھا۔ ہماری اور دوسروں کی نگرانی کرنے والے ڈرون روبوٹ ہر جگہ پھر رہے تھے۔ یہ حفاظتی ڈرون روبوٹ غیر معمولی طور پر حساس آلات سے لیس تھے ، اس لیے مجھے بھرے بازاروں اور پر رونق چوراہوں میں کوئی غیر قانونی حرکت کرنے یا خلاف قانون قدم اٹھانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ پھر وہ نوجوان جب ایک پرانی اجاڑ اور سنسان گلی میں داخل ہوا تو میں نے اپنے قدم تیز کر دیے اور اس کے پیچھے جاپہنچا۔پلیز ! میں نے آہستگی سے کہا۔ ” یہاں ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا۔ یہاں ہم اطمینان سے باتیں کر سکتے ہیں۔ میر انام….“وہ میری طرف مڑا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا اور اس کا چہرہ ایک دم زرد پڑ گیا تھا۔ اس نے ایک لھے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور پھر یوں آگے کی طرف لپکا جیسے وہ میرے سحر سے آزاد ہو کرنکل جانا چاہتا ہو۔میں نے اس کا راستہ روک لیا۔ وہ مجھے ایک طرف ہٹاتے ہوے آگے بڑھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا لیکن اس نے اپنا کندھا ایک جھٹکے سے آزاد کر لیا۔
ذر استو تو ! میں نے التجا کی۔ مگر اس نے کچھ نہیں سنا۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ سخت لہجے میں اتنا بھی نہیں کہا کہ ”چھوڑو مجھے !“…. بس وہ مجھے ایک طرف ہٹاتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر دوڑلگادی۔میں اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی شدید ترین احساس تنہائی نے میرے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چند لمحوں کے بعد خوف کی لہر میرے رگ وپے میں دوڑ گئی۔ میں نے گھبراہٹ اور تشویش کے عالم میں ارد گرد دیکھا مگر وہاں کوئی نگرانی کرنے والا سکیورٹی روبوٹ موجود نہیں تھا بلکہ وہاں تو کوئی بھی موجود نہیں تھا۔میں وہاں تنہا تھا! میں مڑا اور اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے گلی میں چلنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے نہایت احمقانہ حرکت کی ہے لیکن حماقت سے زیادہ میری جذباتیت میرے لیےباعث تشویش تھی۔ ی تاریکی زیادہاس انتہائی اضطراب کی حالت میں اپنے جیسے ایک سزا یافتہ انسان سے گڑ گڑاتے ہوئے رجوع کرنا ایک طرح سے پنی تنہائی کا کھلے بندوں اعتراف کرنا اور اپنی احتیاج تسلیم کرنا تھا …. نہیں! نہیں….! اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جیت معاشرے کی ہو رہی ہے…. میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میں ہار نہیں مانوں گا…. معاشرے کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا !میں نے اپنی سوچوں اور جذبات کے بھنور سے نکل کر نگاہیں اٹھائیں تو دیکھا کہ میں معلق باغات کے پاس چلا آیا ہوں۔ میرا دھیان ایک بار پھر گیارہویں منزل پر واقع باغات کی طرف گیا۔ میں تیزی سے لفٹ میں داخل ہوا اور معلق باغات جا پہنچا۔ کاؤنٹر سے ایک ٹوکن اٹھایا۔ باغ میں داخل ہو کر میں تھوڑی دیر تک مختلف در مختوں کا جائزہ لیتا رہا اور پھر آٹھ فٹ اونچے ایک کیکٹس کے سامنے جا کر رک گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے جڑ سے اکھاڑ لیا اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے تنے اور شاخوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس کےہزاروں کانٹے میرے ہاتھوں میں چہھ گئے۔ میرے ہاتھ لہو لہان ہو گئے۔ میرے ارد گرد سینکڑوں لوگ موجود تھے مگر وہ ایسے ظاہر کر رہےتھے ، جیسے وہ کچھ دیکھ ہی نہیں رہے ہیں یاد یکھنے کے با وجود کچھ نہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں اپنے لہولہان ہاتھوں سے کانٹے نکالتا رہا اور ایک عجیب سےاحساس برتری سے سر شار وہاں سے چلا آیا۔آٹھواں مہینہ گزرا
…. پھر نواں اور پھر دسواں مہینہ بھی گزر گیا۔ اپنی سزا کے آخریمہینوں میں مجھ پر ایک بے حسی اور بے نیازی کی سی کیفیت کا غلبہ ہو گیا تھا۔ میرا ذہن اپنے ہی وسائل پر تکیہ کرنے پر مجبور ہونے کے باعث لاپر و یا شاید عادی ہو گیا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے میرے حواس پر دھندی چھا گئی ہے۔ مجھے پڑھا ہوا یاد بالکل نہیں رہتا تھا۔ میں کتاب کا صفحہ الٹتا تھا تو پہلے صفحے کی بیماری عبارت میرے ذہن سے نکل چکی ہوتیتی دن اسی طرح بے کیفی، بے زاری، بے حسی اور بے نیازی کے عالم میں گزرتے گئے۔ میں نے دوسروں کی طرح عالم اشتیاق میں اپنی سزا کے ختم ہونے میں باقی لمحوں کا شمار بالکل نہیں کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بات میرے ذہن سے بالکل ہی نکل گئی تھی کہ میری سزا کی مدتقریب الاختتام ہے۔
11 مئی 2105ء وہ دن جب میری سزا ختم ہو رہی تھی، اس دن بھی میں اپنے کمرے میں ایک کتاب کے ورق پہ ورق الٹ رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ یہ گھنٹی پورے ایک سال خاموش رہی تھی اور میں گویا اس گھنٹی کی آواز کا مفہوم و مقصد ہی فراموش کر چکا تھا تاہم گھنٹی کی آواز سنتے ہی میں اٹھا اور اٹھ کر دروازہ کھولا۔ دروازے پر میونسپلٹی کے وہی دونوں مسٹنڈے موجود تھے۔ اپنی زبان سے کوئی لفظ کہے بغیر آگے بڑھے اور انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اور ایک مشین کے ذریعے میرے ماتھے سے میری سزا کا نشان مٹادیا۔
ہیلو دوست!“ وہ خوش دلی سے بولے: آج کے دن تمہاری سزا ختم ہو رہی ہے۔ معاشرے میں تمہار امقام بحال کیا جاتا ہے۔“شکریہ !
آؤ ہمارے ساتھ چل کے کچھ کھاؤ پیو !“ نہیں، شکریہ !“قانون یہی ہے۔
“ وہ بولے آؤ۔“قانون کا نام سن کر میں خاموشی سے ان کےساتھ ہو لیا کہ قانون پر عمل کرنے سے انکار کے جرم میں کہیں مجھے پھر نہ دھر لیا جائے۔ ماتھے سے سزا کا نشان اتر جانے کے بعد مجھے اپنی پیشانی کے نگے ہونے کا عجیب سا احساس ہو رہا تھا جیسے کسی زخمپر طویل عرصے تک پٹہ بندے رہنے کے بعد پٹیاتارنے پر ہوتا ہے۔وہ دونوں مجھے ایک قریبی ریسٹورنٹ میں لے گئے۔ اب میں پہلی مرتبہ انسانوں کے درمیان بیٹھے کر کھا پی رہا تھا۔ مجھے اس سے خوشی بھی ہو رہی تھی اور یہ سب مجھے عجیب سا بھی لگ رہا تھا۔پھر ایک شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھ سے کہا کل ہونے والے میچ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے دوست ! کون جیتے”….
” پتہ نہیں“ میرے منہ سے نکلا۔واقعی ….؟ اس شخص نے حیرت سے کہا۔ ” یہ کچھ عرصہ باہر رہے ہیں۔“ دونوںسر کاری آدمیوں میں سے ایک نے کہا۔
اس شخص نے سرکاری آدمی کی بات سن کر میرے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر اس نے جیسے کچھ سمجھتے ہوے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے مجھے کچھ کھلانے پلانے کی پیشکش کی اور میں نے اس کی سیہ دعوت محض اس خیال سے قبول کر لی کہ کہیں یہ بھی قانونی روایت کا حصہ نہ ہو اور انکار کی صورت میں پھر قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں نہ آجاؤں۔ میں دوبارہ شہادت یاسنگ دلی کے جرم کے ارتکاب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایک سال کی سزا نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ اب میرے اندر بلا کی۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2018