غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ
قسط نمبر 5
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔ غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ)اعاجزی و انکساری پیدا ہو گئی تھی۔معاشرے میں دوبارہ اپنی جگہ بنانا اور خود کو قابل قبول مقام بنانا میرے لیے ایک نیا مسئلہ تھا۔ ایسا نیا مسئلہ جو میری سزا سے بھی زیادہ عجیب و غریب تھا۔ مجھے پرانے دوستوں سے ملنا تھا۔ اپنی غیر حاضری کے عذر پیش کرنے تھے اور ان کے ملاقاتوں سے قاصر رہنے کے عذر سنتے تھے۔ منقطع روابط کو دوبارہ بحال کرنا تھا۔ میں نے اپنے ہی شہر میں ایک سال تک جلا وطنی کی زندگی گزاری تھی اور جلا وطنی سے واپسی کچھ آسان کام نہ تھا۔
دوست احباب ملاقاتوں کے لیے آتے تھے، باتیں ہوتی تھیں لیکن کسی کی زبان پر میری سزا یا سزا کے طور پر گزارے ہوئے وقت کا ذکر نہ آتا تھا۔ اسے ایک ایسی درد بھری بپتا سمجھ لیا گیا تھا، جس کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہو۔ میرے نزدیک یہ پرلے درجے کی منافقت تھی مگر اسے قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، مجھے اندازہ تھا کہ گزرے ہوئے وقت کی بات چھیڑ کر وہ میرے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں چاہتے تھے۔دوست احباب کے ساتھ باتیں ہوتی تھیں مگر ان باتوں میں ایک خلا رہ جاتا تھا۔ میں انہیں اپنے اس سال تجربے کے بارے میں بتا تو سکتا تھا مگر وہ نهایت دانش مندی سے موضوع بدل کر باتوں کا رخ کسی اور طرف پھیر دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے پاس اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرنے کے لیے کوئی موضوع ہی نہ رہا۔ یوں بھی ایک سال تک عملا کو نگار بنے کے باعث میں روانی سے بات کرنا اور دوست احباب کی گفتگو اور بحث میں مستعدی سے حصہ لینا بھول ہی گیا تھا۔ مجھے اپنی پرانی زندگی کے لگے بندھے معمولات کے مطابق اپنے آپ کو از سر تو ڈھالنے میں بھی سخت دشواری پیش آرہی تھی۔ تاہم میں نے حالات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور برابر ہمت، محنت اور مستقل مزاجی سے اپنے آپ کو حالیہ تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ گلے لگا ہے مجھے کوئی نہ کوئی انسان ایسا بھی دکھائی دے جاتا تھا جسے میری طرح مزا کے طور پر ایک سال یا کسی دیگر کم یا زیادہ مدت کے لیے دوسروں کی نظروں سے غائب کر دیا گیا تھا۔ ان کا سرایا اور خاص طور پر ان کے ماتھے پر ثبت سزا کا نشان اس کی ساری داستان سنا دیتا تھا۔ ایسے انسانوں سے صرف نظر کرنا تو نا ممکن تھا مگر سال بھر کی سزا کی کڑی تربیت نے مجھے بہت کچھ سکھا اور سمجھا دیا تھا۔ جب بھی کسی ایسے انسان پر میری نظر میں پڑتی تھیں تو میں فوراً تیزی سے یوں دوسری طرف نظریں پھیر لیتا تھا جیسے اچانک میں نے کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی عجیب الاقت مکروہ اور بھیانک مخلوق کو دیکھ لیا ہو ! میری سزا کو ختم ہوئے چوتھا مہینہ گزر رہا تھا جب ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی بدولت میری سزا کا حتمی سبق میرے ذہن نیشن ہوں۔ میں اپنے کام پر بحال ہو چکا تھا کام نمٹانے کے بعد پر ہجوم چوک سے گزر رہاتھا تو چانک ہجوم سے ایک ہاتھ ظاہر ہوا اور اس نے میرا بازو تھام لیا۔
پلیز !“ ایک التجا آمیز آواز آئی۔ ذرا ایکمنٹ ! میری بات تو سنو !“میں نے حیران ہو کر نظریں اوپر اٹھائیں۔ میں نے اس انسان کے ماتھے پر سزا کا مخصوص نشان دیکھ لیا اور اسے پہچان بھی لیا۔ یہ وہی نوجوان تھا جس سے میں سنسان گلی میں کوئی چھ ماہ پہلے اسی طرح مخاطب ہوا تھا۔ اب وہ درماندگی و پریشانی کی تصویر تھا۔ اس کی آنکھوں سے وحشت جھانک رہی تھی۔ اس نے میرا بازو تھام رکھا تھا میرے سارے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ یہ جگہ اس گلی کی طرح ویران اور سنسان نہیں تھی۔ یہ تو شہر کا بار وفق ترین اور سب سے زیاد ہ پر ہجوم چوک تھا۔ میں نے اپنا بازو اس کی گرفت سے چھڑا لیا اور اسسے پرے چلے جانے کے لیے قدم بڑھائے۔ نہ جاؤ! خدا کے لیے نہ جاؤ ! وہ چلایا کیا تم مجھ پر ترس نہیں کھا سکتے….؟ تم جو خود بھی اس مصیبت سے گزر چکے ہو !
“میرے قدموں میں لغزش سی آگئی…. پھر مجھے یاد آگیا کہ کس طرح میں نے سنسان گلی میں اس کی منت کی تھی، اس سے دور نہ جانے کی التجا کی تھی۔ مجھے یاد آگیا کہ اس وقت میں کیسے شدید احساس تنہائی کی گرفت میں تھا….! تاہم میں نے اس سے پرے جانے کے لیے ایک اور قدم اٹھایا۔ و تم ڈرپوک ہو! بزدل ہو۔“ وہ میرےعقب میں چینا:تم میرے حال پر ترس کیوں نہیں کھاتے….؟”
یہ سب کچھ سننا اور سن لینا میری برداشت سے باہر تھا۔ ایک دم میرا دل بھر آیا، آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور میرے قدم وہیں جم گئے۔ میں تیزی سے اس کی طرف مڑا اور پھر میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ میں نے اس کی سوکھی ، پتلی سی کلائی تھام لی۔ دوسرے ہی لمحے میں اس سے بغل گیر ہو گیا۔
نگرانی کے لیے ادھر ادھر پھرنے والے ڈرون سکیورٹی روبوٹ ایک دم آگے بڑھے اور انہوں نے ہم دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے اس نوجوان کو تو ایک طرف دھکیل دیا، البتہ مجھے اپنی تحویل میں لے لیا۔
اب وہ مجھے گرفتار کر کے لیے جارہے ہیں۔ یقینا اب وہ پھر مجھ پر مقدمہ چلائیں گے ۔ مگر اب کی بار یہ مقدمہ شقادت یاسنگ دلی کے جرم کی بنا پر نہیں بلکہ سخاوت یا رحم دلی کے جرم کی بنا پر ہوگا…. ہو سکتا ہے کہ وہ سارے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے در گزر سے کام لیں اور مجھے رہا کردیں…. اور ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو….! کیا ہو گا اور کیا نہیں ہو گا ….؟
اب مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ ہاں ایک بات ضرور ہے، اگر انہوں نے مجھے سزا دی تو اب میں اس سزا کو اپنے لیے سزا نہیں، انعام سمجھوں گا اور میرے ماتھے پر ثبت ہونے والا سزا کا نشان میرے لیے سزا کا نشان نہیں، تمغہ افتخار ہوگا ….!
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2018