غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ
قسط نمبر 2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔ غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ)ہو گیا کہ کوئی بیرا نظر نہ آنے والے گاہک سے آرڈر لینے نہیں آئے گا !میں نے سوچا کہ ہوٹل کے کچن کا رخ کروں اور وہاں جس کھانے سے چاہوں، اپنا پیٹ بھر لوں، میں چاہتا تو ہوٹل اور چکن میں سب چیزوں کو الٹ پلٹ کر کے ہوٹل کا سارا نظام تلپٹ کر سکتاتھا۔ غائب شخص سے براہ راست جوابی کارروائی یاارادی دفاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اگر مجھےروکنے کے لیے کوئی کچھ کرتا تو اس طرح وہ خودغائب آدمی کی طرف متوجہ ہونے کی بنا پر مستوجب سزا ٹھہرتا۔میں ہوٹل سے نکل آیا۔ نفیس ترین ہوٹل سے کھانا مفت کھانے کے بجائے میں نے ایک آٹو میٹک ہوٹل سے اپنا پیٹ بھر اجہاں مشین میں سکہ ڈالنے پر مطلوبہ کھانا سامنے آجاتا تھا۔ کیکٹس کے درختوں کی طرح مشینیں بھی میرے وجود کے احساس سے بے نیاز نہیں ہوئی تھیں مگر …. پورا ایک سال انسانوں کے بجائے مشینوں کی صحبت میں گزارنا۔ یہ تصور میرے لیے وحشت انگیز تھا۔اسی وجہ سے رات کو میں ٹھیک طرح سو بھی نہ سکا۔میری سزا کا دوسرا دن میرے لیے ایک اور امتحان کا دن تھا۔ میں ایک لمبی واک کے لیے نکل گیا۔ چلتے ہوئے میں نے یہ احتیاط ملحوظ رکھی کہ سڑک کے بجائے فٹ پاتھ پر ہی چلوں۔ میں نے چند شرارتی لڑکوں کے بارے میں سن رکھا تھا جو ہم جیسے سزا یافتہ لوگوں کو دھکا دے کر، گرا کر بھاگ جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان لڑکوں کے
خلاف کہیں شکایت بھی نہیں کی جاسکتی اور نہ قانون ایسی شرارتوں کو قابل سزا گردانتا ہے۔ اس لیے میرے لیے احتیاط سے چلنا ضروری تھا ۔ سڑکوں اور گلیوں کے فٹ پاتھ پر لوگوں کا ایک ہجوم چلتا نظر آتا تھا اور میں ان لوگوں کے درمیان سے یوں گزر رہا تھا جیسے ایک چھری مکھن کی ٹکیا میں سے گزرتی ہے۔ وہ سب میری پیشانی کا نشان دیکھتے ہی میرے لیے راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ دو پہر کے وقت میں نے اپنے ہی جیسے ایک سزا یافتہ نظر نہ آنے والے انسان کو دیکھا۔ وہ لمبے قد کا اد میٹر عمر اور خاصا معزز آدمی نظر آتا تھا، میری اور اس کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے چار ہوئیں اور دوسرے ہی لمحے وہ آگے بڑھ گیا۔ قانون کی رو سے ایک سزا یافتہ کسی دوسرے سزا یافتہ کو دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں اس صورتحال پر محض مسکرا کر رہ گیا۔ اس قسم کی سیکی مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتی تھی یا شاید ابھی اس کا وقت نہیں آیا تھا۔ دن کے پچھلے پہر میں ایک بڑے ہوٹل کے سوئمنگ پول سیکشن کی طرف جا نکلا، جہاں پر عورتیں اور مرد سوئمنگ کے لیے اپنے مخصوص مختصر لباس میں سوئمنگ اور سن ہاتھ میں مصروف تھے۔ عام حالات میں میں اس جگہ جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر اس وقت میں اپنی نئی زندگی کی تفریحوں میں کھویا ہوا تھا۔ وہاں موجودملازمین نے میری طرف حیرت اور خوف سے دیکھا ! تاہم کسی نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ میں ایک فاتحانہ کیفیت سے سرشار ہو کر وہاں
امریکی سائنس فکشن ادیب ، سسپنس تھرلر اور ہارر کہانیوں کے مصنف
رابرٹ سلور برگ 1935ء-حالرابرٹ سلور برگ RobertSilverberg امریکی سائنس فکشنادب میں ایک بڑا معروف اور معتبر نام ہے۔
رابرٹ سلور برگ 15 جنوری 1935ء کو بروکلین نیو یارک میں پیدا ہوئے ، انہیں بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور اسکول کے دور سے ہی رابرٹ نے امریکہ کے مختلف سائنس فکشن اور سسپنس رسائل کے لیے کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ کولمبیا یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں بی اے کرنے کے بعد 1955ء میں اپنا پہلا سائنس فکشن ناول ریوالٹ آن الفاسی شایع کیا اور پہلے ہی ناول پر بہترین ادیب کا ہیو گو ایوارڈ حاصل کیا۔ 1960 کی دہائی سے ناہوں نے پیشہ ورانہ طور پر مختلف سائنس فکشن رسائل کے لیے سینکڑوں کہانیاں اور ناول لکھے۔ انہیں اپنے ناولوں پر کئی ہیو گو اور نیبولا ایوارڈز مل چکے ہیں اور ان کی بیشتر کہانیاں 40 زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ 1999 میں انہیں سائنس فکشن اینڈ فناسی ہال آف فیم کے لیے نامزد کیا گیا، 2004ء میںامریکی سائنس فکشن مصنفین کی تنظیم نے انہیں گرینڈ ماسٹر کا اعزاز دیا۔رابرٹ سلور برگ کی مقبول کہانیوں میں Gilgamesh the King NightwingsA Time Sailing to Byzantium-Passengers-Born with the Dead Across a The Book Of Skulls Dying Inside of ChangesThe Man in the Maze Tales of Majipoor Billion Years، شامل ہیں۔رابرٹ سلور برگ کی کئی کہانیاں فلم اور ڈرامہ کے قالب میں ڈھالی 1جائیکی ہیں۔ 1999ء کی مشہور ہالی ووڈ اداکار رابن ولیمز کی سائنس فکشن فلم Bicentennial Man کی کہانی بھی رابرٹ سلور برگ کی تحریر کردہ تھی۔ ان کی کہانی پر ایک اور فلم Needle in a Timestack بھی یر تکمیل ہے جس میں آسکر ایوارڈیافتہ اداکارہ فرید پنٹو ہیں۔
83 سالہ رابرٹ سلور برگ تاحال حیات ہیں اور سائنسی ادب کے لیے اب بھی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔
گھومتا پھرتارہا۔ وہاں موجود دو چار نے نہیں، بہت سی عورتوں نے میرے ماتھے پر نمایاں داغ سے میری موجودگی کا احساس کیا ہو گا مگر وہ میری طرف سے پیٹھ پھیر کر ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھیں جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ جیسے وہاں کوئی موجود ہے ہی نہیں…. میں چند لمحے انہیں دیکھتا اور اس ستم ظریفانہ صور تحال پر دل ہی دل میں خوش ہوتارہا۔ اپنی سزا کی بدولت میں وہاں کھٹڑا اپنی آزادی پر مسکر اتار یا۔یہ سزا بھی کیسی انوکھی سزا ہے لیکن پھر ایک اور ہی احساس نے میرے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ کیسا احساس تھا….؟ غم کا احساس تھا….؟ اکتاہٹ کا احساس تھا….؟ کراہت کااحساس تھا ….؟میں اس کا تجزیہ کرنے سے قاصر تھا۔ وہ ماحول جس کا تصور ہی ایک مرد کے لیے انتہائی ہیجان خیز ہوتا ہے، اس ماحول میں مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ میں جلدی سے وہاں سے نکل آیا۔ کھانا بھی میں نے ایک آٹو میٹک ہوٹل سے کھایا اور اب مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ اپنی سزا میں تفریح کا جور نگ مجھے دکھائی دے رہا تھا، وہ ختم ہو گیا ہے۔ اپنی سزا کے تیسرے ہفتے میں مجھے بیماری نے آلیا۔ اس کا آغاز تیز بخار سے ہوا پھر معدے میں در در بہنے لگا۔ اس کے بعد ابکائیاں اور اسی قسم کی دیگر علامات ظاہر ہونے لگیں۔آدھی رات ہوتے ہوتے مجھے یقین ہونے لگا کہ میں کوئی دم کا مہمان ہوں۔ تشیخ اور اینٹھن کی تکلیف نا قابل برداشت تھی۔ میں اپنے آپ کو جیسے تیسے کیتے ہوئے غسل خانے میں پہنچا اور اس کے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر حیران رہ گیا۔ درد کی شدت سے میرے چہرے کی رنگت زرد پڑ گئی تھی۔ میں خاصی دیر تک اپنے غسل خانے کے فرش پر پڑا رہا۔ اس فرش کی ٹھنڈی ٹھنڈی ٹائلیں مجھے سکون سا بخش رہی تھیں۔ یکا یک میرے دماغ میں خیال آیا کہ کہیں میری یہ علامتیں اپنڈکس کے باعث تو نہیں ہیں ….؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری آنتوں میں ورم آگیا ہو ….؟مجھے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کیضرورت تھی!ٹیلی فون گرد سے اٹا پڑا تھا۔ محکمے والوں نے اس کا کنکشن نہیں کاٹنا تھا مگر اپنی گرفتاری کے بعد سے میں نے کسی کو فون نہیں کیا تھا اور نہ کسی نے مجھے فون کرنے کی ہمت کی تھی۔۔ میرے دوست احباب پہلے ہی محدود تھے۔ سزا کے بعد یہ دوست احباب بھی گو یا معدوم ہو گئے تھے۔ کوئی بھی مجھے فون کر کے سزا کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ میں نے ٹیلی فون تھاما اور اس کے پینل کا بٹن دبایا۔ پینل روشن ہو گیا اور ٹیلی فون ڈائریکٹری کے روبوٹ کی مشینی آواز آئی آپ کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں جناب ….؟ ڈاکٹر سے۔“ میں نے جواب دیا۔”یقیناً! ابھی لیجیے جناب !“ روبوٹ کی بچی تلی مشینی آواز آئی۔ روبوٹ کو سزا کے طور پر دوسروں کی نظروں سے غائب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ مجھ سے بات کرنے میں آزاد تھا۔ قانون شکنی کے کسی خدشے کے بغیر وہ آزادی کے ساتھ مجھ سے باتیں کر سکتا تھا! ٹیلی فون کے اوپر نصب اسکرین پر ایک ڈاکٹر کی تصویر نمودار ہو یہ اور وہ مجھ سے مخاطب ہوا کیا تکلیف ہے آپ کو ….؟
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2018