غیر مرئی شخص رابرٹ سلور برگ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انہوں نے باقاعدہ مقدمہ چلا کر مجھے مجرم ٹھہرایا اور مجھے ایک سال تک غیر مرئی یا غیبی انسان بنے رہنے کی سزا سنادی۔ 11 مئی 2104 ء سے مجھ پر یہ سزا نافذ کر دی گئی۔ سزا سنانے سے قبل وہ مجھے کمرہ عدالت کے نیچے ایک تہہ خانے میں لے گئے اور وہاں انہوں نے میرے ماتھے کو اس سزا کے خاص نشان سے داغ دیا۔ یہ کام میونسپلٹی کے دو تنخواہ دار مسٹنڈوں نے انجام دیا۔ ایک نے مجھےکرسی پر بٹھا دیا اور دوسرے نے خاص نشان والی ایک مہر ہاتھ میں لی اور ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہنے ہوگی۔
اس سے تمہیں ذراسی بھی تکلیف نہیں یہ کہتے ہوئے اس نے وہ مہر میرے ماتھے پر لگا دی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ٹھنڈک کا احساس ہوا اور بس …. اب میرے لیے کیا حکم ہے….؟“ میں نے ان سے پوچھا۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی میری بات کا جواب نہ دیا۔ وہ مڑے اور ایک لفظ کہے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ جاتے ہوئے دروازہ وہ کھلا ہی چھوڑ گئے تھے۔ اب یہ میری مرضی پر تھا کہ میں وہاں سے چلا جاؤں یا وہیں پڑا سڑتا رہوں …. اب پورے ایک سال تک کوئی شخص مجھ سے بات نہیں کرے گا۔ میری طرف نہیں دیکھے گا۔ دیکھے گا تو صرف اس خاص نشان کے علاوہ میرا سارا وجود سر سے پاؤں تک دوسروں کی نظروں سے غائب رہے گا۔ ایسا پورے ایک سال تک ہو گا ! …. یہی میری سزا تھی۔
سزا کے طور پر میرا دوسروں کی نظروں سے غائب ہونا صرف ایک استعارہ تھا۔ میرا اپنا جسم بالکل اسی طرح تھا۔ جسم کے تقاضوں اور احتیاجات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے مگر دیکھ سکنے کے باوجود نہیں دیکھتے تھے۔ ہے نا عجیب و غریب سزا….؟
ویسے میرا جرم بھی عجیب و غریب تھا۔ شقادت یعنی سرد مہری کا جرم۔ میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میں چار مرتبہ اس جرم کا ارتکاب کر چکا تھا اور اس کی سزا یہ تھی کہ مجھے ایک سال تک دوسروں کی نظروں سے غائب کر دیا جائے۔
مجھ پر باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا تھا۔ باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی سزا سنائی گئی اور سزا کا خاص نشان میرے ماتھے پر داغ دیا گیا۔ اب میں دوسروں کی نظروں سے مجاز آغائب تھا….! میں تہہ خانے کی سرد فضا سے نکلا اور باہر کی دنیا میں آگیا۔ وہ دنیا جو طرح طرح کے رنگارنگ ہنگاموں اور گرما گرم دلچسپیوں سے بھر پور تھی۔ سہ پہر کے وقت بارش ہو چکی تھی۔ شہر کی گلیاں اور بازار دھل کر خشک ہورہے تھے۔ باغات سے سوندھی سوندھی خوشبو آرہی تھی۔ کیا مرد، کیا عور تیں، سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف آجارہے تھے۔ میں ان کے درمیان سے ہو کر گزرتا رہا مگر کسی نے میری طرف دھیان نہ دیا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ سزا یافتہ غائب شدہ انسان سے بات کرنا بھی مستوجب سزا ہے۔ جرم کی نوعیت کے لحاظ سے یہ سیزا ایک مہینے سے ایک سال تک دوسروں کی نظروں سے غائب رہنا ہو سکتی ہے۔ لیکن میں یہ سوچ کر حیران ہورہا تھا کہ معلوم نہیں، اس قانون پر عمل درآمد ہوتا بھی ہے یا نہیں….؟ ہوتا بھی ہے تو اس میں کس حد تک سختی رکھی جاتی ہے…..؟ اس سوال کا جواب مجھے جلد ہی مل گیا۔ میں ایک لفٹ میں داخل ہوا اور معلق باغات کی گیارھویں منزل پر پہنچ گیا۔ اس منزل پر بہت سے درخت تھے اور ان وہاں بیٹھ کر میں اپنا موڈ خوشگوار کرنا چاہتا تھا۔ میں ٹوکن لینے کے لیے کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔ ایک بھرے چہرے والی عورت کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھی تھی۔ میں نے جیب سے سکہ نکال رک کاؤنٹر پر رکھا اور کہا ” ایک ٹوکن۔“ عورت کی آنکھوں میں خوف سا لہرایا اور پھر غائب ہو گیا۔ ” ایک ٹوکن“ میں نے دوبارہ کہا۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ میرے پیچھے دوسرے لوگوں کی قطار تھی۔ میں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔ عورت نے بے بسی سے اوپر نگاہیں اٹھائیں اور میرے بائیں کندھے سے پیچھے سے ایک آدمی کا ہاتھ آگے بڑھا اور اس نے کاؤنٹر پر ایک سکہ ڈالا۔ عورت نے وہ سکہ اٹھایا اور اس آدمی کو ٹوکن دے دیا۔ اس آدمی نے ٹوکن دروازے پر نصب مشین میں ڈالا اور باغ کے اندر چلا گیا۔
مجھے بھی تو ٹو کن دیجیے ! میں نے تیزی اور کسی قدر غصہ سے کہا۔ دوسرے لوگ مجھے ایک طرف دھکیل دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے۔ تب مجھے اپنے دوسروں کی نظروں سے غائب ہونے کی سزا اور اس سزا کی نوعیت کا کچھ کچھ احساس ہوا۔ وہ لوگ مجھ سے ایسا سلوک کر رہے تھے گویا وہ مجھے بالکل دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔ تاہم اس سزا کے کچھ فائدے بھی تھے۔ میں نے اپنا سکہ اٹھا کر واپس جیب میں ڈال لیا اور کاؤنٹر کے پیچھے جا کر وہاں سے ایک ٹوکن اٹھالیا۔ میں نے اس ٹوکن کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کی ، مگر اس سے کیا فرق پڑتا تھا چونکہ میں دوسروں کی نظروں سے غائب تھا، اس لیے کوئی مجھے روک بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے ٹوکن مشین میں ڈالا اور بالغ کے اندر داخل ہو گیا۔ پہلے باغ میں آنا میرے موڈ کو خوشگوار کر دیتا تھا مگر کچھ دیر وہاں پھرنے کے بعد وہاں موجود لوگوں کے نظر انداز کرنے پر ایک ناقابل بیان ہے چینی ہونے لگی اور مجھے وہاں مزید ٹھہرے رہنے کی کوئی خواہش نہ رہی۔ باغ سے باہر نکلتے ہوئے میں نے کیکٹس کے ایک کانٹے پر اپنی انگلی رکھ کر ذرا د با یا تو خون نکل آیا۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ چلو یہ کیکٹس کا پودا تو میر اوجود تسلیم کرتا ہے۔
میں اپنے اپارٹمنٹ میں واپس آگیا۔ میری کتابیں میری راہ دیکھ رہی تھیں مگر مجھے ان میں کوئی رغبت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ میں بستر پر دراز ہو گیا اور اپنی سزا کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی یہ سزا کوئی ایسی سخت سزا نہیں ہے۔ زندگی بسر کرنے کے لیے میں نے کبھی دوسرے انسانوں پر انحصار نہیں کیا تھا۔ اب اگر مجھے دوسرے انسانوں سے سرد مہری کے ساتھ پیش آنے پر سزا دی گئی ہے تو مجھے ان کی کیا پر واہو سکتی ہے….؟ وہ بڑے شوق سے مجھے نہ دیکھیں! ایک بار نہیں، سو بار مجھے نہ
دیکھیں!
میں نے سوچا کہ اس سزا کے ذریعے تو مجھے آرام ملے گا۔ ایک سال تک مجھے کسی قسم کا کام نہیں کرنا پڑے گا۔ دوسروں کی نظروں سے غائب رہنے والے آدمی تو کام نہیں کرتے اور نہ انہیں کام کرنے کی ضرورت ہی ہوتی ہے۔ وہ کام کر بھی کیسے سکتے ہیں …. ؟ ایسے ڈاکٹر کے پاس کون سا مریض جائے گا جو دکھائی نہ دے ….؟ ایسے کلرک کو فائل یا دوسرے کاغذات کون دے گا جو نظر نہ آرہا تو گویا یہ طے ہے کہ ایک سال تک مجھے کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ کام نہیں ہوگا تو کوئی کمائی بھی نہیں ہوگی…. مگر کمائی کی ضرورت کسے ہے …. ؟ مالک مکان نظر نہ آنے والے انسان سے تو کرایہ لینے سے رہا اور نظر نہ آنے والے انسان بغیر کسی خرچ کے جہاں جی چاہے آجا سکتے ہیں۔ باغات کی سیر کے دوران یہ بات میرے تجربے میں آہی چکی تھی!
میں محسوس کر رہا تھا کہ میرا دوسروں کی نظروں سے غائب ہونا معاشرے کے ساتھ ایک مذاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سزا تو میرے لیے ایک سال تک مکمل اور بھر پور آرام کے سوا کچھ نہیں تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میں اس سے لطف اندوز ہوں گا مگر اس کے کچھ عملی نقصانات بھی تھے۔ اپنی سزا کی پہلی رات میں نے شہر کے نفیس اور مہنگے ترین ہوٹل کا رخ کیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اپنے لیے بہترین کھانا منگواؤں گا اور بل پیش کیے جانے سے پہلے ہی کھسک جاؤں گا۔ کسی کو میری اس حرکت کی خبر تک نہ ہو گی! مگر ہوٹل میں جا کر میری سوچیں الجھ سی گئیں۔ ہوٹل کے بیرے بار بار میرے دائیں بائیں سے گزرتے رہے۔ جلد ہی مجھے احساس۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2018