فرانسیسی تحقیق
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل ۔۔۔ فرانسیسی تحقیق۔۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم ) ہر دور میں انسان نے تحقیق کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کیا ہے۔اور غاروں میں رہنے والا انسان آج مریخ اور چاند پر رہائش کے خواب دیکھ رہا ہے۔سائنسی تھیوریز محدود مشاہدات کی بیس پر ہوتی ہیں۔اس لیے جب کسی چیز پر تحقیق جاری رہتی ہے تو یہ تھیوریز بھی بدلتی رہتی ہیں۔ نہ صرف دنیاوی علوم بلکہ دینی علوم پر بھی تحقیقی کام ہوتا ہے اور دنیا کے تمام خطوں میں ہوتا ہے۔
حال ہی میں فرانس نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے کئی سالوں کی محنت کے بعد ایک ایسا آلہ بنا لیا ہے جس سے وہ 1400 سال پہلے کی آوازیں ریکارڈ کر سکیں گے۔اور 2030 تک وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجتہ الوداع سنوا سکیں۔اس سلسلے میں ان کا دعوی ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ، جو کہ عظیم محقق تھے، بھی اس پراجیکٹ کا حصہ تھے۔
حسب معمول ہم پاکستانی پرجوش ہو گئے کہ جی بس اب تو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سننے کی سعادت حاصل کرنے ہی والے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے سوشل میڈیا پر وہ دو زنگ آلود سیونگ مشینز کی تصاویر کے نیچے لکھا پاتے ہیں عائشہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہما کی سلائی مشینز اور بنا یہ سوچے سمجھے کہ سلائی مشین تو ایجاد ہی 1830 میں ہوئی تھی سبحان اللہ ماشاء اللہ کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔اس اعلان نے بھی ہمیں پکا سچا مسلمان بنا دیا۔حالانکہ یہ خطبہ ریکارڈڈ فارم میں ہمارے پاس 1400 سال سے موجود ہے اور ہم نے کبھی اس کی ایک بھی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی مگر ہم اسے سننے کے لیے بے تاب ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارے ہر دل عزیز صحافی اقرار الحسن نے فلائٹ پکڑی اور فرانس پہنچ کر ادارے سے رابطہ کرنے کی بجائے کچھ پاکستانیوں کو سڑک پر کھڑا کر کے انٹرویو لیا جنہوں نے اس کی تصدیق فرمائی کہ ہاں جی ایسی تحقیق جاری ہے۔اور اقرار صاحب اتنے بے خبر تھے کہ ڈاکٹر حمید اللہ سے ملاقات کے لیے چل دئیے۔جس پر انہیں مطلع کیا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کا تو 2002 میں انتقال ہو چکا ہے۔مجھے تو یہ بات ہی مضحکہ خیز لگی کہ اتنے بڑے اسکالر کے بارے میں اقرار صاحب کو کچھ معلوم ہی نہ تھا۔بہرحال ادارے کے تو کسی فرد نے نہ ان سے بات کی نہ ہی تصدیق لیکن ہمارے ہاں صحافیوں اور یو ٹیوبرز کی چاندی ہو گئی۔
چلیے مان لیجئے کہ یہ پراجیکٹ کامیاب ہو جاتا ہے چند سال بعد عربی زبان میں خطبہ حجتہ الواداع کی ریکارڈنگ سامنے آ جاتی ہے۔میرا سوال صرف اتنا ہے کہ مسلم امہ کے پاس کوئی ایسا پیمانہ یا انسان ہے جو اس کے اصل ہونے کو ماپ سکے اس کی تصدیق کر سکے؟ کیا آج کوئی ایسا شخص ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی ہو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا یہ مشکل ہے کہ کسی بھی عربی زبان میں مہارت رکھنے والے شخص کو، چند پیسوں کے عوض تو کوئی مسلمان بھی یہ کر دے گا، ہائر کر کے اس سے یہ خطبہ ریکارڈ کروا لیا جائے؟یہاں کون ایسا ہے جو اسے غلط قرار دے گا۔
اگر ایسا کوئی پراجیکٹ چل ہی رہا ہےتو انہوں نے ذرا سی کوشش کر کے عیسی علیہ السلام کی آواز کیوں نہ ریکارڈ کر لی۔اور یہ کیوں نہ جان لیا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں۔بلکہ درس توحید ہی دیا تھا۔ فرانسیسیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کب سے اتنی محبت ہو گئی کہ جس نبی کا وہ مذاق اڑاتے ہیں اسی کی آواز کے لیے کروڑوں ڈالرز خرچ کر کے اس کی آواز ریکارڈ کر کے مسلمانوں کو سنوائیں گے؟
اگر آج ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سن نہیں سکتے تو کیا ہوا ان کی ہر بات، ہر عمل اور ہر ایکسپریشن احادیث کے ذریعے محفوظ اور ہمارے پاس موجود ہے۔جن لوگوں کو اس پر عمل کرنا ہے وہ بلا حیل و حجت کرتے ہیں اور جنہوں نے نہیں کرنا وہ منکر حدیث بھی بن جاتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں اس پراجیکٹ کی حیثیت وہی ہے جو برٹش دور میں مرزا کے ذریعے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے پلان کی تھی۔
اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سننے ان سے ملنے کا اتنا ہی شائق ہے تووہ کرے جس کا انہوں نے حکم دیا ان شاء اللہ جنت میں نہ صرف ان سے ملے گا گفتگو کرے گا بلکہ اعمال کے مطابق ان کے ساتھ رہائش بھی حاصل کر سکے گا۔