فور بی
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ فور بی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )فور بی چار کوریائی اصطلاحوں کا مخحف ہے: بی یون اے (کوئی ڈیٹنگ نہیں)، بی سیکس (کوئی جنسی تعلق نہیں)، بی ہون (کوئی شادی نہیں) اور بی چول سان (بچے کی پیدائش نہیں)۔
یہ ایک ایسی تحریک ہے جو جنوبی کوریا کے فیمینسٹ حلقے کی طرف سےشروع کی گئی، جنھوں نے معاشرے میں خواتین کے خلاف نفرت کے جواب میں مردوں کے بغیر رہنے کا فیصلہ کیا۔فور بی تحریک اب دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہی ہے ۔خواتین کا خیال ہے کہ مرد انہیں بس جنسی تسکین اور بچے پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس لیے انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ان سے بے وفائی کرتے ہیں جب کہ وہ بھی انسان ہیں جنہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔اس لیے اب وہ نہ ہی کسی مرد سے تعلق رکھیں گی نہ شادی کریں گی نہ ہی بچے پیدا کریں گی۔
ہر مذہب خواہ الہامی ہو یا مین میڈ میں شادی کا تصور اس لیے ہے کہ زمین پر امن قائم رہے نسل انسانی کی بقا ہو۔گھر اور معاشرہ تشکیل پائے۔کوئی بھی مذہب ہم جنس پرستی یا بدکاری کی نہ اجازت دیتا ہے نہ ہی اسے پسند کرتا ہے۔لیکن انسان مسلسل پستی میں گرتا جا رہا ہے حتی کہ جانوروں سے بھی بدتر ہو گیا ہے۔کچھ عشروں قبل شادی کو ختم کر کے کورٹ شپ، ڈیٹنگ، کو لیونگ کا نام دے کر مردوزن نے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی۔بچے پیدا تو کیے مگر نہ باپ نے اپنی کفالت کی ذمہ داری نبھائی نہ ماں نے تربیت کی مغرب میں فوسٹر چائلڈ، اورفن ایجز تو مشرق میں الیگل ابارشن فلاحی اداروں نے ایسے بچوں کو سنبھالا۔پھر پارٹنرز سے بے وفائی، ہم جنس پرستی اور جانوروں سے جسمانی تعلق کے ذریعے تسکین چاہی گئی جس کا نتیجہ ٹرانس جینڈر ایڈز کی صورت میں نکلا۔
خواتین نے پہلے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کر کے صرف گھریلو ذمہ داریوں سے آزادی چاہی لیکن اب تو انہیں مادر پدر آزاد زندگی گزارنی ہے جس میں مرد کا ذکر تک نہ ہو۔اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ کسی بھی مرد سے کسی بھی قسم کا تعلق نہیں رکھیں گی بچے پیدا نہیں کریں گی تو زندگی بڑی پرسکون اورخوشحال ہو گی۔حالانکہ چین اور کوریا شادی نہ کرنے اور بچہ پیدا نہ کرنے کی پالیسی و رواج کی وجہ سے پہلے ہی خطرے میں ہیں۔
اللہ نے مرد و زن کی تخلیق مختلف اشکال و اجسام میں کی تو اس کی وجہ زندگی میں ان کے مختلف کردار تھے۔آدم علیہ السلام جنت میں بھی حوا علیہ السلام کے کفیل تھےزمین پر بھی ان کی ذمہ داری محنت مشقت کر کے بیوی بچوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت رہی۔اور عورت کو اللہ نے تخلیق کا شرف بخشا۔مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔اگر دونوں میں سے ایک بھی اپنے فرائض سے کوتاہی برتے گا تو اس کی تخلیق کامقصد فوت ہو جائے گا زندگی غیر متوازن اور فساد کاشکار ہو جائے گی۔جو لوگ شادی نہیں کرنا چاہتے وہ بھی جسمانی تعلق ضرور رکھنا چاہتے ہیں بس کفالت اور تخلیق سے بچنا چاہتے ہیں اور اگر بچے پیدا کر ہی لیں تو ان کی ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتے خصوصا مرد بچے اور عورت کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے ساتھ زندگی انجوائے کرتا ہے۔ ہم جنس پرست جوڑے بھی ایک مرد اور ایک عورت کے کردار ادا کرتے ہوئے میاں بیوی کی طرح رہتے ہیں بچے بھی ایڈاپٹ کرتے ہیں۔اگر زندگی صنف مخالف کے بغیر ہی اچھی لگتی ہے تو پھر یہ سارے ڈرامے کرنے کا مقصد؟؟؟ لوگ کیوں تجرد کی زندگی نہیں گزارتے؟کیوں خواہش نفس کے غلام بن کر مذہبی و معاشرتی حدود کو توڑتے ہیں۔انسان جب بھی فطرت کے خلاف جاتا ہے سراسر خسارے کا سودا کرتا ہے۔اس لیے جلد ہی پچھتاوں کا شکار بھی ہوتا ہے اور نت نئی بیماریوں کے عذاب بھی سہتا ہے۔امید ہے اب ہماری پاکستانی خواتین ماڈرن بننے کے شوق میں می ٹو کی طرح فور بی کو بھی فالو نہیں کریں گی۔اور خاندانی نظام کو تباہ کر کے شیطان کو اس کے چیلنج میں کامیاب ہونے کا ذریعہ نہیں بنیں گی کہ وہ ضرور مخلوق کو خالق کی نافرمانی اس کی تخلیق بدلنے پر مجبور کرے گا۔یقین مانیے رب کا نظام ہر کسی کے لیے بہترین ہے اس لیے اپنے چھوٹے سے دماغوں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیے اور سکون سے اپنا کردار ادا کیجئے