Daily Roshni News

قیام امن اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں۔۔۔ تحریر۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید

قیام امن اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں

تحریر۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ قیام امن اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں۔۔۔ تحریر۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید)خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے بعد حجر اسود کو اپنی جگہ نصب کرنے کا معاملہ در پیش ہے۔ ہر قبیلہ اپنا حق مقدم سمجھتا ہے۔ نزاعی صورت حال ہے جس کے نتائج سخت خوفناک معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے سب کو اس بات پر آمادہ کر لیتے ہیں کہ جو شخص علی الصبح سب سے پہلے خانہ کعبہ کی چار دیواری میں داخل ہو وہ اس نزاعی مسئلہ کا جو بھی حل پیش کرے سب کے لیے قابل قبول ہو گا۔ آنے والی صبح اہل مکہ کے لیے پیام امن لاتی ہے۔ محمد علم کعبہ کی چہار دیواری میں داخل ہونے والے پہلے شخص ہوتے ہیں اور سب بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ

یہ امین ہیں ہم ان کے فیصلہ پر راضی ہیں ۔ یہ محمد منی ایم ہیں ۔ (السیرۃ النبویۃ ابن ہشام) توجہ فرمائیے ! قیام امن کے لیے آپ میں ای از نیم کا عمل کیا ہے ؟…. آپ مینیم چاہتے تو خود حجر اسود اٹھا کر اسے اس کی جگہ نصب فرمادیتے اور کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر بات محبت واخوت کی تھی، دلوں کو جوڑنے کی تھی، جنگ و جدال کے بجائے امن و آشتی کی تھی۔ آ سی ای ایم نے چادر زمین پر بچھائی، اس پر حجر اسود رکھا اور تمام قبیلوں کے نمائندہ سرداروں کو چادر کا ایک ایک کونہ پکڑنے کو فرمایا اور دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ نصب فرمادیا اور یوں بعثت سے قبل ہی اپنے عمل سے اہل عرب کو ایک بہت بڑی خانہ جنگی سے نجات دلاتے ہوئے ان کے مابین امن قائم فرماتے ہوئے انہیں نئی زندگی بخش دی۔

ایک ایسے فساد کی جڑ کاٹ دی جس سے چند لمحوں میں خون ریزی کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہونے والا تھا۔

اسی داعی امن نے اپنے عمل سے جو انقلاب برپا کیا وہ بھی عجیب تھا۔ شاید چشم عالم نے ایسا انقلاب نہ دیکھا ہو۔ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو نہیں لایا گیا بلکہ اس قوم اور اسی معاشرے کی اصلاح کی گئی اور وہ بھی اس طرح کہ انسان کو انسان سے پیار کرنا سکھا دیا گیا، اس کی تعظیم و تکریم سکھادی اور اس کو مایوسی و ناامیدی سے نکال کر اتنا نوازا کہ وہ دوسروں کے لیے رحمت بن گیا۔

حیات طیبہ مٹی ایم سے قیام امن کی چند مثالیں : حضور اکرم ملی کار کریم نے اپنی اجتماعی جد وجہد کا آغاز کوہ صفا کے اعلان سے فرمایا۔ آپ می کنیم کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو پکارا۔ آپ میں نیم کی شخصیت ان کے دلوں میں اس قدر گھر کیے ہوئے تھی کہ ہر شخص آپ مینیم کی پکار سن کر دوڑا ہوا آپ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ ﷺ نے پہلے اپنی شخصیت کو ان کے سامنے رکھا اور فرمایا: لوگو! تمہاری میرے متعلق کیا رائے ہے۔ سب نے یک زبان جواب دیا ہم آپ کو امین و صادق سمجھتے ہیں…. رحمتہ للعالمین نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی ذات کے لیے مزید اقرار لینا ضروری سمجھا اور فرمایا کہ میں اگر یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے دشمن کا لشکر چھپا ہوا ہے اور وہ آن کی آن میں تم پر حملہ کیا چاہتا ہے تو کیا تم اس بات کو مان لو گے ؟…. قریش مکہ بے ساختہ بولے: ”اے محمد ( ﷺ ) ہم اس بات کو ضرور مان لیں گے …

آپ ﷺ نے ان کے سامنے وہ دین پیش کیا جو سراپا امن و سلامتی ہے۔ (فتح الباری شرح بخاری) اس کے بعد کے واقعات پر ہم اگر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر موقع پر آپ ﷺ نے اپنے عمل سے یہ ثابت فرمایا کہ آپ ﷺ انسانیت کو دعوتِ امن دینے آئے ہیں تا کہ انسانی معاشر ہ اطمینان نسانی معاشر اطمینان وسکون کی زندگی گزار سکے۔

اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔

1۔ مسلمانوں پر زیادتیاں ہوتے دیکھ کر آپ ﷺنے انہیں طاقت سے جواب دینے کے لیے نہیں فرمایا بلکہ قیام امن کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔(زاد المعاد۔ حافظ ابن قیم)

2۔ قریش کے قطع تعلق کا جواب قطع تعلق سے نہیں دیا بلکہ امن وامان کی خاطر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے۔ (زاد المعاد ۔ حافظ ابن قیم الجز الثانی)

3۔ سفر طائف میں جب آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے کی بجائے وہ لوگ آپﷺ کی ایذا رسانی کا سبب بنے تو بھی آپ ﷺ نے ان کے لیے امن و عافیت کی دعا کرتے ہوئے فرمایا میں ان لوگوں کی تباہی کے لیے کیوں بد دعا کروں یہ یہ اگر ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور اللہ پر ایمان لانے والی ہوں گی“۔ ( صحیح المسلم)

4۔ جب قریش نے مدینہ منورہ ہجرت کے لیے مجبور کر دیا اور سفر ہجرت کے دوران سراقہ بن مالک بن جعشم انعام کے لالچ میں پیچھا کرتے ہوئے مبتلائے عذاب ہونے کے بعد امن کا خواستگار ہوا تو اس دائی امن واخوت نے اسے بھی پروانہ امن لکھ دیا۔ زاد المعاد ۔ حافظ ابن قیم)

5۔ مدینہ پہنچنے پر آپ ملا کرام نے میثاق مدینہ اور رشتہ مواخات کا سلسلہ قائم کرتے ہوئے امن واخوت کی وہ بنیاد ڈال دی جو اصلاح معاشرہ کا ایسا سبب بنی کہ آج تک تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سےقاصر ہے۔ (زاد المعاد، سیرۃ النبوة)

صلح حدیبیہ کے بعد آپ علیم نے سلاطین اور امراء عالم کی طرف جو تبلیغی خصوط تحریر فرمائے ان میں بنیادی موضوع قیام امن واخوت تھا خصوصا کسری پر ویز بن ہرمز شاہ فارس کے نام محط میں بالکل واضح طور پر یہ عبارت موجود ہے۔

اسلم تسلم “

اسلام قبول کر لو امن میں رہو گے ۔ (فتح الباری) طرح مکہ کا وہ دن آپہنچا جو کسی بھی فاتح کے خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے۔ دنیا نے پہلی جنگ عظیم کے بعد Warsa Pact کی صورت میں فاتح اور مفتوح کا معاملہ دیکھا ہے اور دوسری جنگ عظیم کےبعد بھی۔ لیکن کیا دنیا کو امن کی نعمتوں سے سرفراز فرمانے والے محمد ﷺ کے اس عمل کی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اتنی عظیم فتح جو اکیس برس کی طویل اور جان لیوا کشمکش کے بعد حاصل ہوئی اور وہ بھی اس پر امن طریقہ پر کہ قتل و غارت سے اسلامی فوج کو بالکل منع کر دیا اور یہ اس شہر کی بات ہے جس میں آپ ﷺکے قدم قدم پر کانٹے بچھائے گئے، گلے میں کپڑا ڈال کر ایذا رسانی کی گئی، آپﷺ کے قتل کے منصوبے تیار کئے گئے اور آخر کار آپ سی ای اینم کو اس شہر سے نکل جانے پر مجبور کیا گیا۔ اسی شہر میں حضور ﷺ نے خون کا ایک قطرہ بھی گرانا پسند نہ فرمایا۔

بڑے بڑے جانی دشمن مفتوح ہو کر سامنے آئے تو اس داعی امن نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔

ترجمہ : ” آج کے دن تم سے کوئی باز پرس نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو“۔ (سورہ یوسف : 92، سیر والنبوة ، ابن ہشام)  

8۔ پیغمبر اسلام ﷺ اپنے عمل سے نا صرف وقتا فوت ہمارے لیے دعوتِ امن کی مثالیں چھوڑیں بلکہ اپنے آخری پیغام حجتہ الوداع میں ان تمام رسموں کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو امین کو درہم برہم کرنے اور معاشرے کی تباہی کا سبب تھیں۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی خاندان کا کوئی شخص کسی کے ہاتھ سے قتل ہوتا تو اس کا انتظام

لینا خاندان والوں کا فرض بن جاتا تھا اور سینکڑوں برس گزر جانے کے بعد بھی ادا ئیگی فرض کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ یوں لڑائیوں کا ایک غیر منقطع سلسلہ قائم

ماہر تعلیم ، محقق، معلم ڈاکٹر عبدالرشید

معروف معلم پر وفیسر ایمر میں ڈاکٹر عبدالرشید، کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک لرننگ کے ڈین رہ چکے ہیں۔ مذ ہبی موضوعات پر ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ آپ کے کئی مقالات قومی و عالمی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ اسلام، سیرت اور تصوف پر آپ کی کئی تصانیف ہیں۔ جن میں ادیان و مذاہب کا تقابلی جائزہ الہادی اسلامی تصوف اور صوفیائے سرحد، اسود در سول ملی نیم اور ہماری زندگی قابل ذکر ہیں۔

ہو جاتا اور لوگوں کے لیے امن کی زندگی ایک خواب بنی رہی۔

داعی امن ﷺ نے ناصرف اس دن اس بیہود و رسم کے خاتمہ کا اعلان کیا بلکہ اپنے عمل سے ہمیں مشعل راہ بھی دکھادی۔ رسالت مآب می کنیم نے فرمایا: “جاہلیت کے تمام انتظامی خون باطل کر دیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کی طرف سے آدم بن ربیعہ کا خون باطل کرتا ہوں“۔ (سنن ابی داؤد )

توجہ فرمائیے کہ ہم سے پیغمبر اسلام کی دعوت امن کا عملی تقاضا کیا ہے اور ہم کس جانب جارہے ہیں۔ ابھی تک آدمی صید زبوں شہریاری ہے

قیامت ہے، کہ انسان نوع انساں کا شکاری ہے کاش کہ آج کے دور کا انسان اس حقیقت سے آشنا ہو جائے تو اختلاف قوم رنگ و نسل اور زبان کے تمام جھگڑے ازخود مفقود و متروک ہو جائیں اور نہ صرف دنیائے اسلام بلکہ دنیائے عالم میں امن کا عظیم رشتہ قائم ہو جائے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2022

Loading