كفن چور
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ كفن چور۔۔۔ترجمہ۔۔۔صاعقہ ناز)کفن چور“ سندھی ادب کے مشہور ادیب محترم جناب ایاز حسین قادری کے سندھی افسانے کفن چور ” کا ترجمہ ہے جس میں جناب ایاز قادری نے معاشرتی اور معاشی عدم استحکام سے پیدا ہونے والے مسائل کو بیان کیا۔ یقینا یہ ایک ایسا افسانہ ہے جو سلگتے ہوئے معاشرتی و معاشی مسائل کو عیاں کرتا ہے اور حقیقت سے قریب تر ہے۔“
تمام شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ کرم اللہ کو رات کفن چوری کرتے پکڑا گیا ہے۔ خبر ایسی تھی کہ لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں دے دیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ جب ایسے دیکھے بھالے لوگ ایسا کام کریں گے تو دنیا کہاں جائے گی۔ “قیامت قریب آگئی ہے۔“
چوری بھی کی، کفن کی چوری! “دنیا بھی خراب اور دین بھی “۔ دونوں جہانوں میں منہ کالا۔ مر دود شاید رات کو ہی نکلا تھا کہ چوکیدار کی نظر پڑ گئی اور اس نے گردن سے پکڑ لیا۔ قبر کھود کر مٹی کا ڈھیر ایک طرف کر کے ابھی مردے کا کفن اتار ہی رہا تھا کہ پکڑا گیا۔ ”بھی زمانے کا کیا اعتبار “کرم اللہ کی تمام محلے میں عزت تھی۔ ہر کوئی چھوٹا بڑا اس کو جانتا تھا۔ محلے کی امجد کا موذن تھا۔ صوم و صلوۃ کا پابند ۔ صبح سویرے اٹھ کر تہجد پڑھتا تھا۔ بلند آواز سے ذکر کر تا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد قرآن شریف کی تلاوت میں مشغول ہو جاتا تھا۔ قرآن شریف اتنی میٹھی آواز میں پڑھتا کہ را بگیر ه ناز بھی کچھ دیر کے لیے کھڑے ہو کر ان کی قرآت سنتا تھا۔
تمام دن ایسے ہی لب ملتے رہتے تھے۔ دل ہی دل میں درود اور تقسیمات پڑھتے تھے۔
نورانی چہرہ، لمبی سفید ڈاڑھی، سر پر سفید دستار، جسم پر سفید چونہ جو ان کے گھٹنوں سے نیچے لٹک رہا ہو تا تھا۔ سیدھی شلوار جس نے پاکچے چھوٹے اور ہمیشہ ٹخنوں سے اونچے ہوتے تھے۔ چونے کے اوپر خاکی واسکٹ جس میں سے لال سفید بنکیوں والا رو مال لٹک رہا ہو تا۔
ہاتھ میں لمبا عصاء جس پر نقش و نگار ۔ گلی سے گزرتے تو لوگوں سے انتہائی اخلاق اور محبت سے ملتے تھے ان کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی تھی۔ لوگ کہتے تھے فرشتہ ہے فرشتہ “
اگر چہ وہ اس شہر کے رہائشی نہیں تھے لیکن ان کو اس شہر میں آئے تقریبا ہیں سال ہو چکے تھے۔ ان میں سالوں میں اگر لوگوں نے سنی تو ان کی تعریف سنی۔ کبھی اس شخص نے یہ بھی نہیں کہا کہ کسی نےمیرے ساتھ تلخ انداز میں بات کی ہے۔
کرم اللہ کو کورٹ کے کٹہرے میں حاضر کیا گیا، کورٹ میں لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ اس سے پہلے شہر میں اتنا بڑا واقعہ ہوا ہی کہاں تھا، کئی لوگوں نے کرم اللہ پر پر جملے کے ”جناب آج کل کے ملا کا حال دیکھو کسی نے کہا ” بہ خلوت می روند کار دیگر می کند ” کسی کو کرم اللہ سے تھوڑی بہت ہمدری تھی اور اس راز کو سننے کے لیے فکر مند تھے کہ کرم اللہ نے یہ کام کیوں کیا ….؟
کرم اللہ کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ جیسے اس میں سے نورانیت غائب ہو گئی ہو، اس کی پیشانی پر بہت سی لکیروں کا جال تھا اور آنکھیں نیچے جھکی ہوئی تھیں، مجسٹریٹ نے ہتھوڑا ٹیبل پر مارا دوبارہ خاموش خاموش پکارا، کورٹ میں خاموشی چھا گئی۔
کرم اللہ کو بیان دینے کے لیے کہا گیا، اس کی نظر میں تمام کورٹ، کرسیوں پر بیٹھے لوگ، کالے کالے کوٹ والے وکیل اور شاندار ٹیبل پر بیٹھا مجسٹریٹ سرکس کے گولے کی طرح پھر تا ہوا نظر آیا، آخر یہ سب گھوم کر ایک نقطے پر ختم ہو گئے۔ جس میں ان کو اپنی بیمار بیوی، جو بیماری کے سبب مرنے کے قریب تھی نظر آئی، جس میں اس کو اپنی
جوان بیٹی، جس طرح جوانی پھٹے ہوئے کپڑوں میں عریاں نظر آرہی تھی۔ اسے اپنے معصوم بچے بھوک سے روتے نظر آئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، جو اس کی سفید ڈاڑھی سے بہہ کر زمین میں جذب ہو گئے۔
“جناب مجھے اپنا جرم قبول ہے” لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ میں تھر کا رہائشی ہوں۔ وہاں بھوک سے بیزار ہو کر یہاں آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے مجھے نوازا۔ یہاں جلد ہی مجھے محلے کی مسجد میں اذان دینے پر مقرر کر دیا گیا۔ دس روپے مسجد کی دیکھ بھال کے عوض مقرر کیے گئے۔ آس پاس سے صبح شام کچھ نیاز ملتی تھی جس سے کچھ خود کھاتا تھا اور کچھ فقیروں کو دے دیتا تھا۔ اپنا وقت بے فکری سے گزر رہا تھا۔ ستا وقت تھا دس روپے میں سے کچھ کپڑے لتے پر خرچ ہو تا تھا اور کچھ دوسری ضروری اشیاء پر ۔ پھر بھی دو تین روپے بچ جاتے تھے۔ اللہ کی مہربانی پر ہر وقت دو نفل پڑھ کر شکر بجا لاتا تھا۔ اس وقت گاؤں کے معزز لوگوں کی مہربانی سے میری شادی خانہ آبادی ہوئی۔ ایک سے دو ہوے اللہ تعالی اپنے کرم سے ہمارا وقت اچھا گزار رہا تھا۔ کبھی کسی کے در پر ہاتھ پھیلانا نہ پڑا۔ وقت اسی طرح گزر رہا تھا۔ نمازی جیسے پھر کم ہونے لگے۔ میری اولاد بڑھتی گئی، نیاز جو کہ پہلے ملتی تھی، پہلے کم اور پھر بالکل بند ہو گئی۔ چیزیں جو پہلے سنتی تھیں آج آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
آج دس روپے جو ملتے ہیں، وہ دو ہفتے چلتے ہیں۔کل کپڑا چار آنے گز تھا۔ آج وہ کپڑا چار روپے گز بھی۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2017