كفن چور
ترجمہ۔۔۔صاعقہ ناز
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ كفن چور۔۔۔ترجمہ۔۔۔صاعقہ ناز)نہیں ملتا۔ پہلے کھانے اور پینے کے لیے ایک جان تھی پھر دو اور پھر پانچ ہو گئے۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے اللہ نے اپنی نوازش سے مجھے عطا کیے لیکن میری تنخواہ جو پہلے دن سے مقرر تھی۔ اس کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مسجد کے متولین سے کئی بار عرض کی۔ انہوں نے یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ اور اس سے زیادہ کیا دیں ….؟ میری بہت زیادہ منت سماجت اور آہ و زاری پر دوروپے بڑھادیے۔
میری بڑھتی ہوئی اولاد اور شہر میں بڑھتی ہوئی چیزوں کی قیمت سے میرا پورا نہیں ہوتا تھا۔ پہلے محلے سے اتنی نیاز آتی تھی کہ سب پیٹ بھر کر کھا سکتے تھے۔ اب کوئی وقت ایسا بھی آتا ہے کہ سب بھو کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ پہلے عید، شب برآت پر محلے سے کوئی کپڑا ملتا تھا لیکن اب یہ بھی بند ہو گیا۔ میں سفید پوش آدمی کس کے سامنے جا کر ہاتھ پھیلاؤں ….؟ ایک دو مہربان جن سے امید تھی میرے ہر وقت کے مانگنے سے اتنے تنگ آگئے کہ مجھے دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں۔ جیسے واقف ہی نہیں ہیں۔ میری گھر والی بچوں کی بھوک کے غم میں بیمار ہو گئی۔ گھر میں ایک کوڑی بھی نہیں تھی کہ اسے خرچ کیا جائے۔ میں رو رو کر اللہ کےدر پر گڑ گڑایا۔
“اے دنیا کو شفاء بخشنے والے میری بیوی کو شفاء بخش ……اپنے چھوٹے بیٹے کو بھوک میں روتا دیکھ کر اللہ کے دربار میں التجا کی۔ “اے جنگ کی روزی بخشنے والے ہماری بھوک کو دور کر دے …..ایک دن جب اپنے گھر آیا تو دیکھا کہ میری جوان بیٹی ہاجرہ کے کپڑے جگہ جگہ سے بوسیدہ ہو کر پھٹنے لگے تھے۔ ان کپڑوں میں وہ میرے آنے پر گھر
کے کونے میں چھپنے کی کوشش کرتی۔
اس کے بوسیدہ لباس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا۔ مجھے ایسا لگتا کہ بیٹی کہہ رہی ہو ”بابا کیا تو مجھے دو گز چولی اور تین گز شلوار کے لیے کپڑا بھی لا کر نہیں دے سکتا جس سے میں اپناجسم چھپا سکوں …. ؟
اس دن میں بارگاہ الہی میں بے حد گڑ گڑایا، سجدے میں سر رکھ کر روتا رہا۔
اے پردہ رکھنے والے اے ستار! کیا تو مجھے مسکین پر اتنی مہربانی بھی نہیں کر سکتا کہ اتنا کپڑا عطاکر دے کہ میری ہاجرہ اپنا جسم ڈھک سکے۔
میری دعائیں بے اثر ثابت ہوئیں۔ میں جب بھی گھر جاتا ہوں تو ہر وقت ہاجرہ کے بوسیدہ کپڑے مجھ سے وہی سوال کرتے تھے۔ میں شرم کی وجہ سے زمین میں گڑھ جاتا تھا۔ دن بہ دن میرے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں، نہ کوئی امید نہ کوئی آسرا۔ نماز پڑھاتے وقت ایک ہی آیت دو مر تبہ پڑھ لیتا تھا۔ کسی وقت رکعت بڑھ جاتی تھی اور کسی وقت کم ہو جاتی تھی۔ متولین نے مجھے بلا کر تمیمہ کی، اس وقت دل میں آیا کہ منہ کھول کر ان سے کہہ دوں کہ : کاش….! آپ کے گھر میں بھی کوئی جوان بیٹی ہو، اس کے بوسیدہ پھٹے ہوئے کپڑوں میں سے جسم عیاں ہو تا ہو اور آپ کے پاس کچھ بھی نہ ہو اس کے جسم کو ڈھکنے کے لیے!
کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ دوسرا طریقہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ سوچا کپڑے پھاڑ کر کشکول لے کر نکل جاؤں، لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔ میں نے سوچا آخر مرنے والے کو زندہ سے زیادہ کپڑے کی ضرورت ہے۔ مردہ کا اگر کفن نہیں ہو گا تو زمین اس کی عریانی ڈھک لے گی، لیکن اگر زندہ آدمی کے پاس کپڑے نہیں ہوں گے تو دنیا کی نظروں میں اس کی عریانیت کس طرح چھپی رہ سکتی ہے۔
میں نے محسوس کیا کہ ہاجرہ کو اس لاش سے زیادہ کپڑے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا جسم ڈھانک سکے۔ کورٹ میں چاروں جانب خاموشی چھا گئی۔ہر ایک کا چہرہ اداس ہو گیا۔
حج صاحب اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے، کورٹ میں لوگوں کی باتیں شروع ہو گئیں۔ سب حج صاحب کے فیصلے کے منتظر تھے۔
حج صاحب اپنے چیمبر سے نکل کر کرسی پر آکر بیٹھ گئے، ہتھوڑا ٹھا کر دوبارہ ٹیبل پر مارا خاموش، خاموش“ کی آواز سے کورٹ میں خاموشی چھا گئی۔ اس میں شک نہیں کہ کرم اللہ نے ایسا کام کیا ہے جو قانونی اور اخلاقی لحاظ سے جرم ہے لیکن اس کے پہلے چال چلن اور مجبوری کو دیکھ کر کورٹ کو اس پر رحم آگیا ہے۔“ ج نے شمردن اونچی کر کے کرم اللہ کی جانب دیکھا۔ ” تین مہینے سخت مشقت کے ساتھ جیل کی
سزادی جاتی ہے۔“ کرم اللہ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے، جیسے کہہ رہا ہو، بیٹی مجھے قید کی پرواہ نہیں ہو گی اگر مجھے یہ یقین ہو جائے کہ اب تیرا بدن کپڑوں ڈھک جائے گا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2017