Daily Roshni News

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔ادبی میلے اور اوورسیز اہل قلم کی نمائندگی۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف

فیضان عا رف

ادبی میلے اور اوورسیز اہل قلم کی نمائندگی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف) اردو کو ایک بڑی سہولت یہ حاصل ہے کہ اس زبان کے نام پر گذشتہ چند دہائیوں سے دنیا کے مختلف ملکوں میں بڑی بڑی کانفرنسز، جشن، سیمینارز اور ادبی میلے منعقد ہو رہے ہیں جبکہ مشاعروں کی روایت تو کئی صدیوں قدیم ہے۔ کچھ محققین کے مطابق مشاعروں کا آغاز امیر خسرو(1253-1325)کے دور سے ہوا۔ کئی تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ باقاعدہ مشاعروں کی ابتدا ولی دکنی (1667-1707)کے عہد میں ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلا بڑا شاہی مشاعرہ لال قلعہ دلی میں شاہ عالم ثانی کی سرپرستی میں ہوا۔ مشاعرہ اردو زبان کا بہت اہم اور مقبول ترین حوالہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف شعرا کو اپنے کلام کی تاثیر کا اندازہ ہو جاتا ہے بلکہ حاضرین اور سامعین کے ذوق کی بھی آزمائش ہو جاتی ہے۔ لندن شہر میں اردو کے عالمی مشاعروں اور بڑی بڑی ادبی تقریبات کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ بی سی سی آئی کے ذیلی ادارے اردو مرکز نے 80کی دہائی میں نامور ادیبوں اور شاعروں کے اعزاز میں جن شاندار اور معیاری ادبی تقریبات کا اہتمام کیا۔ باذوق لوگ آج بھی اُن کا حوالہ دیتے اور تعریف کرتے ہیں۔ اس اردو مرکز کی وجہ سے ہی لندن کو اردو کا تیسرا بڑا مرکز کہا جانے لگا تھا۔ نامور اور معتبر شاعر افتخار عارف اسی ادارے کے سربراہ تھے جن کی پروقارشخصیت اور شاندار شاعری نے اردو مرکز کی اہمیت اور افادیت کو چار چاند لگا دیئے۔ لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں آج بھی مشاعرے اور تقریبات منعقد ہوتی ہیں لیکن اُن کا معیار ویسا نہیں ہوتا جیسا کہ اردو مرکز کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ شاہد علی سید اور سید مجاہد علی نے لندن میں 90کی دہائی میں دو شاندار عالمی مشاعرے فاصلے انٹرٹینمنٹ کے ذریعے منعقد کئے تھے جن میں احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، احمد فراز، عبید اللہ علیم، سلیم کوثر، جمال احسانی اور دیگر کئی نامور شعرائے کرام نے شرکت کی تھی۔ لندن کے اہل ذوق اب تک برطانیہ میں اس طرح کے معیاری عالمی مشاعروں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ گذشتہ برس سنجیو صراف نے لندن میں جشن ریختہ کا اہتمام کیا اور رواں سال ستمبر میں طارق فیضی نے برطانوی دارالحکومت میں اردو کے تحبیب فیسٹیول کا اجرا کیا۔ اِن دونوں نے پُروقار تقریبات کے اہتمام سے لندن میں اردو زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کا خوب چرچا ہوا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں اردو کی ادبی تقریبات کو سراہا گیا۔ مشاعروں اور ادبی فیسٹیولز کے سلسلے میں میرا مشاہدہ ہے کہ ایسے شاعروں اور ادیبوں کی اکثریت جنہیں اِن تقریبات میں مدعو نہیں کیا جاتا وہ اپنے دِل کے پھپھولے پھوڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پہلے تو وہ اِن مشاعروں اور ادبی میلوں کو جینوئن ادیبوں اور شاعروں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں (حالانکہ اردو کا ہر شاعر اور ادیب اپنے علاوہ کسی اور کو جینوئن رائٹر نہیں سمجھتا) اور پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے تو ادبی فیسٹیولز کے منتظمین کے لتے لینا شروع کر دیتے ہیں اور شرکا کو دو نمبر شاعر اور ادیب قرار دینے کے لئے ہر حربہ آزمانے لگتے ہیں۔ ایک ایسے ہی شاعر نے مجھے لاہور سے فون کر کے کہا کہ آپ کراچی میں اپنے ”فلاں“دوست سے کہیں کہ وہ آرٹس کونسل کی ادبی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے بھی بھجوائیں۔ میں نے جواب میں انہیں بتایا کہ جن دوست سے سفارش کے لئے آپ نے مجھے کہا ہے میری اُن سے دوستی نہیں، محض سلام دعا ہے۔ اور اگر میری دوستی بھی ہوتی تو میں اس معاملے میں کسی قسم کی سفارش کو جائز نہیں سمجھتا۔ کوئی مشاعرہ ہو یا ادبی کانفرنس اس کے لئے مہمانوں کا انتخاب میزبان کا استحقاق ہوتا ہے۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ لندن میں بہت سی ادبی تقریبات اور مشاعرے ایسے ہوئے ہیں جن میں مجھے نہیں بلایا جاتا لیکن میں کبھی اس کابُرا نہیں مناتا اور کئی ادبی محفلوں میں دعوت کے باوجود مجھے اِن میں شریک ہونے کی فرصت نہیں ہوتی تو میزبان اس کا برا نہیں مناتے۔ جہاں تک کسی کے جینوئن ادیب یا شاعر ہونے کا تعلق ہے تو اس کی پہچان یہ ہے کہ حقیقی تخلیق کار تقریبات اور میلوں یا فیسٹیولز میں شرکت کی دعوت ملنے یا نہ ملنے سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ تو اپنی ترنگ میں اچھی یا بُری شاعری یا نثر تخلیق کرنے میں مگن رہتا ہے۔ برطانوی شاعروں میں ساقی فاروقی اور انجم خیالی کے نام حوالے کے طور پر لئے جا سکتے ہیں جنہوں نے کسی انٹرنیشنل ادبی کانفرنس اور مشاعرے میں شرکت کو درخوراعتنا نہ سمجھا اور صرف اچھی شاعری تخلیق کرنے کی جستجو میں رہے۔ اسی لئے اِن کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔ آج بھی لوگ جب دونوں مذکورہ شاعروں کے اچھے اچھے شعر حوالے کے طور پر سناتے ہیں تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے کہ اچھا شعر کبھی نہیں مرتا۔ وہ دو نمبر شاعر اور شاعرات جو مشاعروں اور ادبی کانفرنسز میں اپنی شرکت کو ممکن بنانے کے لئے ہر حربہ اور سفارشی حوالہ آزماتے ہیں اُن کے کتنے اشعار یا نظمیں باذوق لوگوں کے حافظے میں ہیں؟ دو نمبر اہل قلم کی پہچان یہ ہے کہ وہ خودنمائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور انٹرنیشنل کانفرنسز اور فیسٹیولز میں شرکت کے لئے خود کو ہلکان کئے رکھتے ہیں۔ جو توانائی انہیں لکھنے پڑھنے اور اچھا ادب تخلیق کرنے کی کوشش پر صرف کرنی چاہئے تھی وہ ساری توانائی مشاعروں اور ادبی میلوں میں شرکت کے لئے بھاگ دوڑ اور جوڑ توڑ پر خرچ ہو جاتی ہے۔ غالباً دو ہزار پانچ میں نامور شاعر مرتضیٰ برلاس نے جمخانہ لاہور میں ایک عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا تھا جس میں دنیا بھر سے اردو کے منتخب شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ برطانیہ اور امریکہ سے جن شعرا کو بلایا گیا تھا اُن کو ریٹرن ٹکٹ اور جم خانہ میں تین دِن قیام کے علاؤہ مشاعرے میں شرکت کا خطیر اعزازیہ بھی دیا گیا تھا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ کراچی میں جو اردو کی سالانہ عالمی کانفرنس منعقد ہوتی ہے اس میں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک سے شریک ہونے والے اردو کے اہل قلم کو ریٹرن ٹکٹ، فائیو سٹار ہوٹل میں قیام کے علاؤہ معقول اعزازیہ بھی پیش کیا جاتا ہو گا کیونکہ کوئی جینوئن ادیب یا شاعر اپنے اخراجات پر ایسی عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے کا تو متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ جن اوورسیز شاعروں ادیبوں کو اِن کانفرنسوں اور فیسٹیولز میں بلایا جاتا بلکہ بار بار بلایا جاتا ہے کراچی کے باذوق لوگ اور سخن فہم آرٹس کونسل سے بار بار تقاضا کرتے ہیں کہ اِن اہل قلم کو ہر بار اس عالمی کانفرنس میں شرکت کی زحمت دی جائے کیونکہ اِن کی شاعری نے اہل کراچی کے دِل موہ لئے ہیں۔ اِن اوورسیز شاعروں اور شاعرات کے درجنوں شعر اور نظمیں زبان زدِ عام اور باذوق حاضرین کے حافظون اور ڈائریوں میں محفوظ ہو چکی ہیں۔مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ جو اہل قلم برطانیہ اور یورپ سے شاعروں اور ادیبوں کی نمائندگی کرنے کے لئے عالمی اردو کانفرنس میں جاتے ہیں وہ ساقی فاروقی اور انجم خیالی کے علاؤہ باصر کاظمی، اقبال نوید، صابر رضا اور دیگر لکھنے والوں کے ناموں کی بھی لاج رکھ لیتے ہیں اور منتظمین کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جن شاعروں اور ادیبوں کو انہوں نے سات سمندر پار سے مدعو کیا اور اُن کی آمد و رفت پر لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں وہ سب سے بہترین اور نمائندہ اہل قلم ہیں۔ اللہ ہمارے اِن نمائندہ اوورسیز اہل قلم کو سلامت رکھے اور وہ ہر سال یونہی پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس کی رونق اور رعنائی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جہاں تک حسد کرنے اور جلنے والے دو نمبر شاعروں اور ادیبوں کا تعلق ہے اُن کی پرواہ نہ کریں عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ عالمی اردو کانفرنس میں شرکت سے جو عزت آپ کو ملتی ہے کوئی اور اس کا حق دار نہیں ہو سکتااور نہ یہ عزت کوئی آپ سے چھین نہیں سکتا ہے۔ اللہ ہماری اوورسیز شاعرات کے حوصلے اور جذبے کو سلامت رکھے۔ اُن کی وجہ سے باقی تارکین وطن رائٹرز کی توقیر اور وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے جو ادیب اور شاعر اوورسیز اہل قلم کی پذیرائی اور میزبانی کرتے ہیں اس کے جواب میں برطانیہ، یورپ، کینیڈا اور امریکہ کے شاعروں اور ادیبوں کو چاہئے کہ جب پاکستان سے کوئی اہل قلم اِن ملکوں میں آئے تو اس کی پذیرائی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی جائے کیونکہ میزبانی کے تقاضے اور آداب یہی ہیں۔

Loading