Daily Roshni News

لہروں کے دوش پر۔۔۔قسط نمبر1

لہروں کے دوش پر

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ لہروں کے دوش پر) انسان جانوروں درختوں ، جمادات، ستاروں اور دوسری مخلوقات سے رابطہ کر سکتا ہے۔سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا نام ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو اونٹ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کے مالک سے ارشاد فرمایا کہ یہ اونٹ تیری شکایت کر رہا ہے کہ تو اس پر بوجھ پورا لاد تا ہے لیکن اس کے خورد و نوش کا انتظام پورا نہیں کرتا“۔ [ سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد ]

حضرت سلیمان نے (کسی مہم کے سلسلہ میں ) جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے۔ جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بولی کہ اے چیونٹیو 1 اپنے گھروں میں چلی جاؤ تمہیں بے خبری میں سلیمان اور ان کا لشکر کچل نہ ڈالیں۔ سلیمان اس چیونٹی کی آواز سن کر مسکرائے۔ چیونٹی کی نہایت بار یک آواز جو ہم کو قریب سے بھی معلوم نہیں ہوتی حضرت سلیمان نے دور سے سن لی۔ تاریخ اسلام میں حضرت عمر فاروق کا دریائے نیل سے بظاہر بذریعہ خط رابطہ کر ہاہار یخ عالم میں اپنی مثل آپ ہے۔ حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں ایک بار مصر کا دریائے نیل خشک ہو گیا۔ مصری رعایا نے مصر کے گورنر حضرت عمر بن العاص کی خدمت میں عرض کی کہ ہمارا یہ دستور تھا کہ جب دریائے نیل خشک ہو جاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ اس کے بعد دریا پھر جاری ہوا کرتا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اب ہم کیا کریں ….؟

گورنر نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق کو محط لکھ کر دریائے نیل خشک ہونے اور مصریوں کے رواج کا حال بتایا امیر المومنین حضرت عمر نے دریائے نیل کے نام خط لکھا کہ: “اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اللہ تعالی کے حکم سے جاری ہو تا تھا کہ تو پھر اللہ تعالیٰ کے نام پر جاری ہو جا ….

چنانچہ جوں ہی آپ کا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا فوراً جاری ہو گیا اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک خشک نہیں ہوا۔ [ ازالہ الخلفاء، شاہ ولی اللہ ]

حضرت شاہ ولی اللہ : کے والد محترم حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی بیان کرتے تھے کہ رمضان کے آخری روز جبکہ چاند رات ہونے کا گمان تھا مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک چڑیا آئی اور کہا کل عید ہے۔ میں نے یہ بات حاضرین کو بتادی۔ فرہاد بیگ

نے کہا حیوانات کی زبان کا کیا اعتبار ۔ میں نے مخیال کے ذریعے یہ بات چڑیا کو بتائی تو اس چڑیا نے کہا کہ جھوٹ انسان کی خاصیت ہے ہماری جنس میں جھوٹ نہیں ہوتا۔ پھر وہ اڑ گئی۔ دوسری چڑیا بھی آئی تھی اس نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔

اس واقعے کے تھوڑی دیر بعد ہی قاضی کے سامنے چاند دیکھنے کی شہادتیں پیش ہو گئیں “۔[ انفاس العارفین۔ شاہ ولی اللہ ]

سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم بر خیاہ نے تحریر فرمایا کہ

ایک دن حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ وا کی شریف کے جنگل میں پہاڑی بے پر چند لوگوں کے ہمراہ چڑھتے چلے گئے۔ آپ مسکرا کر کہنے لگے:میاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جائے ، میں تو یہاں ذراسی دیر آرام کروں گا۔ خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی۔ تم لوگ خواہ مخواہ انتظار میں مبتلا نہ ہو ، جاؤ کھاؤ پیو اور مزہ کرو“۔ بعض لوگ ادھر ادھر چھپ گئے اور زیادہ چلے گئے۔ میں نے حیات خاں سے کہا، ”کیا ارادہ ہے۔ پہلے تو حیات خاں سوچتا رہا۔ پھر زیر لب مسکرا کر خاموش

ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سوال کیا چلنا ہے یا تماشادیکھتا ہے ؟….

ھلا ہا ہا صاحب کو چھوڑ کے میں کہاں جاؤں گا !“

حیات خان بولا۔ گرمی کا موسم تھا۔ درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہو اخمار کے طوفان اٹھارہی تھی۔ تھوڑی دور ہٹ کر میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر حیات خاں اس طرح بیٹھ گیا کہ نانا تاج الدین کو کن انکھیوں سے دیکھتا رہے۔ اب وہ دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ فضا میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ چند منٹ گزرے تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ آدھ گھنٹہ ، پھر ایک گھنٹہ ۔ اس کے بعد بھی کچھ وقفہ ایسے گزر گیا جیسے شدید انگار ہو۔ یہ انتظار کسی سادھو ، کسی جوگی ، کسی ولی، کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندہ کا تھا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کر رہا تھا۔

یکا یک نانا کی طرف نگاہیں متوجہ ہو گئیں۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ بڑی آہستہ خرامی سے ، بڑے ادب کے ساتھ ۔ شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تاج الدین کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ذرادیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا۔ نانا گہری نیند میں بے خبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھو رہا تھا۔ چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہو گئیں۔ سر زمین پر رکھ دیا۔ نانا تاج الدین ابھی تک سورہے تھے۔ شیر نے اب زیادہ جرات کر کے تلوے چانا شروع کر دیئے۔ اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی۔ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا کہنے لگے تو آگیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ اچھا اب جاؤ“۔ شیر نے بڑی ممنونیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔تذکرہ بابا تاج الدین ]

کتاب تذکرہ قلندر بابا اولیاء” میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی تحریر کرتے ہیں:

جس کمرے میں حضور قلندر بابا اولیان قیام فرما تھے اس کے سامنے احاطہ کی دیوار سے باہر بادام کا ایک درخت تھا۔ ایک روز باتوں باتوں میں حضور بابا صاحب نے فرمایا: یہ درخت مجھ سے اس قدر باتیں کرتا ہے کہ میں عاجز آگیا ہوں۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ کہا ہے کہ زیادہ باتیں نہ کیا کر۔ میرے کام میں خلل پڑتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری 2016

Loading