Daily Roshni News

لیس پاکستانی سیٹلائیٹ ایم ایم 1 چینی شی چانگ سپیس پورٹ سے لانچ کی

لیس پاکستانی سیٹلائیٹ ایم ایم 1 چینی شی چانگ سپیس پورٹ سے لانچ کی

تحریر۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی)سپارکو نے کل جدید ترین مواصلاتی آلات سے لیس پاکستانی سیٹلائیٹ ایم ایم 1 چینی شی چانگ سپیس پورٹ سے لانچ کی تو اس ضمن میں بہت سے سوالات موصول ہوئے، جن میں سے زیادہ تر اس متعلق تھے کہ یہ سیٹلائٹ پاکستان میں انٹرنیٹ کی فراہمی اور ٹیلی کمیونیکیشن کو کیسے بہتر بنائے گی؟

فی الحال پاکستان میں انٹرنیٹ فراہمی کے لیے دو طریقے موجود ہیں، پہلا آپٹیکل فائبر (پی ٹی سی ایل والا) اور دوسرا موبائل فون کمپنیوں کا انٹرنیٹ (جو کہ آخر میں آپٹیکل فائبر سے ہی لنک ہوتا ہے)، یہی وجہ ہے کہ آپٹیکل فائبر کو شارک کاٹ لے تو پورے پاکستان کا انٹرنیٹ ڈاؤن ہوجاتا ہے۔ ایم ایم ون سیٹلائٹ کی بدولت پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی شروعات ہوگی یعنی آپ کشمیر کے پہاڑوں میں موجود ہوں یا پھر تھر کے صحراؤں میں یا پھر گہرے سمندر کے بیچ میں، آپ محض پاور بینک جتنی ڈیوائس کے ذریعے سیٹلائٹ سے رابطے میں ہونگے اور تیز ترین انٹرنیٹ آپ کو ملتا رہے گا، مزید یہ کہ چونکہ یہ آپٹیکل فائبر سے لنک نہیں ہوگا جس وجہ اس انٹرنیٹ سے منسلک افراد آپٹیکل فائبر میں مسئلہ آنے کے باوجود بلاتعطل انٹرنیٹ سے منسلک رہیں گے۔ اگرچہ شروع میں اس کا پیکج کافی مہنگا ہوگا (اندازاً دس ہزار روپے ماہانہ) جس وجہ سے اسے صرف سرکاری ادارے، پرائیوٹ کمپنیاں یا پھر تیل و معدنیات کے ذخائر نکالنے والی کمپنیاں ہی استعمال کریں گیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ عام پاکستانی کی پہنچ میں بھی آجائے گا۔ یاد رہے کہ اسی طرح کا انٹرنیٹ دنیا میں بیشتر کمپنیاں فراہم کررہی ہیں، جن میں سب سے مشہور ایلون مسک کی سٹار لنک سیٹلائیٹس ہیں، سٹار لنک کی کوریج دنیا بھر میں ہے (آپ انہیں اکثر آسمان پر نقطوں کی شکل میں گزرتا دیکھ بھی سکتے ہیں) لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کا انٹرنیٹ بہت مہنگا ہے، تقریباً چالیس ہزار روپے ماہانہ سے پیکج شروع ہوتا ہے جبکہ رجسٹریشن اور ڈیوائسز کی فیس لاکھ روپے سے زائد ہے یعنی یہ پاکستان میں کسی بھی طرح عام آدمی کی پہنچ میں نہیں ہے، نیز ان غیر ملکی کمپنیوں سے انٹرنیٹ لیتے ہوئے ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو ریگولیٹ کرنا حکومت کے لئے کافی مشکل ہوگا، جس وجہ سے ان کمپنیوں کو پاکستان میں لائسنس حاصل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاک سیٹ ایم ایم ون سیٹلائٹ کی بدولت ہمارا پاس اپنا سیٹلائٹ انٹرنیٹ آجائے گا۔ اس سیٹلائیٹ کے علاوہ پاک سیٹ نامی بیس سال پرانی پاکستانی سیٹلائٹ خلاء میں آج بھی آپریشنل ہے لیکن یہ اگلے دو سالوں میں ریٹائرڈ ہوجائے گی لہٰذا موجودہ سیٹلائٹ اس کی جگہ لے لے گی۔

اس موضوع پر دوسرا سب سے زیادہ پوچھے جانے والا سوال یہ تھا کہ پاکستان سیٹلائٹ لانچنگ کے لئے چین پر اتنا انحصار کیوں کررہا ہے؟ کیا ہمارے اندر قابلیت نہیں کہ ہم خود سپیس میں سیٹلائٹ چھوڑ سکیں؟

اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں دو لانچنگ پیڈ موجود ہیں۔

پہلا: بلوچستان میں سونمیانی جزیرے پر ایک لانچنگ پیڈ موجود ہے، جس کا نام سونمیانی فلائٹ ٹیسٹ رینج ہے، جو کہ 1960ء میں ناسا کے تعاون سے بنایا گیا تھا، اسی فلائٹ ٹیسٹ رینج سے 1962ء میں ناسا کے تعاون سے پاکستان کا پہلا خلائی راکٹ “رہبر” لانچ کیا گیا تھا، جس نے خلاء میں پہنچ کر بحیرہ عرب کے اوپر ہوائی دباؤ سمیت مختلف ڈیٹا کو جمع کیا اور بعدازاں اسی اہم ڈیٹا کو ناسا نے چاند تک پہنچنے کے لیے اپالو مشنز میں استعمال بھی کیا۔

دوسرا: لانچنگ پیڈ جہلم سے 25 کلومیٹر مغرب میں ٹلہ جوگیاں کے مقام پر ہے، جس کا نام ٹلہ فلائٹ ٹیسٹ رینج ہے۔ یہ دونوں لانچنگ پیڈ فی الحال عسکری میزائلز کی ٹیسٹنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ مستقبل میں انہیں سائنسی مقاصد کے لئے بھی بروئے کار لایا جائے بہرحال ان دونوں لانچنگ پیڈز کو دنیا سپیس پورٹس نہیں مانتی بلکہ میزائل لانچ کرنے والی ٹیسٹ رینج کہتی ہے۔ نیز پاکستان کا سپیس پروگرام دہائیوں سے ٹھپ پڑا ہوا ہے، جس وجہ سے پاکستان کے پاس کوئی اتنا طاقتور راکٹ بھی نہیں کہ ہماری سیٹلائیٹس کو چاند پر یا زمین کے جیواسٹیشنری مدار میں پہنچا سکے۔ جیواسٹیشنری مدار زمین سے 36 ہزار کلومیٹر دوری پر ہے اور کمیونیکیشن سیٹلائیٹس کو عموماً یہیں پر رکھا جاتا ہے کیونکہ اس مدار پر موجود سیٹلائٹ چوبیس گھنٹے میں زمین کا ایک چکر مکمل کرتی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ زمین بھی ایک سپن چوبیس گھنٹے میں مکمل کرتی ہے یوں اس مدار پر پہنچنے والی سیٹلائیٹس ہمیشہ زمین کے ایک ہی مخصوص حصے پر موجود رہتی ہے۔ ایم ایم ون سیٹلائٹ بھی آسمان پر 38 ڈگری مشرق پر موجود رہے گی اور اس کی رینج میں پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران اور دبئی ہونگے۔ بہرحال اس طرح کی بہت سی وجوہات کی بناء پر ہماری سیٹلائیٹس کو چین سے لانچ کرنا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ ویسے بھی دنیا میں صرف تیرہ ممالک کے پاس ہی سپیس پورٹس ہیں، یعنی بقیہ 183 ممالک کو جب بھی سیٹلائیٹس لانچ کروانی ہو تو انہی دس بارہ ممالک کو پیسے دے کر ہی لانچ کرواتے ہیں۔جس وجہ سے سیٹلائٹ کسی دوسرے ملک سے لانچ ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ ملکی حالات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ سیٹلائٹ مشنز اگرچہ بہت بڑے نہیں ہیں مگر کہیں نہ کہیں پاکستان میں سائنسی شمع جلائے رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں گے لہٰذا اس گھٹن کے ماحول میں بھی سائنسی کاوشیں جاری رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ شکریہ۔

محمد شاہ زیب صدیقی

زیب نامہ

#سپارکو #ایم_ایم_ون #MM1 #ist #زیب_نامہ  #SUPARCO #PAKSATMM1

Loading