مالٹوں کی چوری
)از قلم۔۔۔ آصف سانول جلوکا( دبئی
)ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ مالٹوں کی چوری۔۔۔ از قلم۔۔۔ آصف سانول جلوکا ( دبئی )2016 میں ، میں پاکستان گیا تھا اور دسمبر کا ٹھنڈا ٹھار مہینہ تھا۔۔دھند بھی شدید پڑتی تھی۔۔میرے بہنوئی نے گندم کی توڑی ( بھوسہ ) کھیتوں سے اٹھا کر گھر میں رکھنا تھا اور مجھے بھی ونگار کے لئے بلایا گیا، میں نے کہا کہ میری کیا ضرورت پڑ گئی آپ لوگ پہلے ہی اتنے سارے ہیں۔” ہمارے ہاں عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں” میرے بہنوئی کی بہنیں بھی تھیں ،اور بہنوئی بھی ، میری بہن بھی تھی۔۔
مجھے صرف سیکورٹی کے لئے بلایا گیا کہ آپ صرف بندوق لیکر ساتھ چلیں اور بس بیٹھے رہیں ،کام نہ کریں۔۔
“ان دنوں ہمارے علاقے میں ڈکیتیاں بہت ہوا کرتی تھیں”
ہمارے گاؤں کے مشرق میں نہر کا پل تھا اور اس پل پہ آئے روز ڈکیتی ہوتی تھی۔۔
رات کے وقت بھوسہ اٹھانا تھا اور عورتیں تو ویسے بھی رات میں بہت ڈرتی ہیں,خاص کر چوروں لٹیروں سے تو عورتوں کی جان جاتی ہے، دوسری بات ہماری برادری میں رواج ہے کہ سب عورتیں دو دو تولہ سونا کانوں میں گلے میں پہنتی ہیں۔۔
سات آٹھ عورتیں تھیں اور انکے کانوں ،گلے میں پندرہ سولہ تولے سونے کے زیورات تھے۔۔
ان عورتوں میں میری اپنی بہن بھی تھی سو مجھے بہن کی حفاظت کی خاطر یخ بستہ رات میں ٹریکٹر ٹرالی پہ بیٹھنا پڑا۔۔
میں نے رپیٹر میں سات کارتوس ڈالے اور دوسری کارتوسوں والی پیٹی بغل میں ڈالی اور عورتوں کے ساتھ ٹرالی میں بیٹھ گیا۔۔
جہاں سے ہم نے گندم کا بھوسہ اٹھانا تھا اسکے ساتھ ہی مالٹوں کا باغ تھا جو کہ بہت بڑا تھا اور ساتھ والے گاؤں کے لوگوں کا تھا ۔۔
” آپ کبھی چشتیاں سے ڈاہرانوالہ کا سفر کریں تو ڈاہرانولہ موڑ سے دو کلو میٹر آگے، روڈ کی لفٹ سائیڈ پہ مالٹوں کا بہت بڑا باغ ہے اسی باغ کا ذکر کر رہا ہوں”
ڈاہرانوالہ روڈ سے نیچے کچی سڑک باغ کے ساتھ ساتھ جاتی تھی۔۔
پہلی ٹرالی کے وقت تو سب نے کھانا کھایا ہوا تھا اور جب بھوسہ لوڈ ہوا تو کھانا ہضم ہوگیا ۔۔
جب دوسری ٹرالی لوڈ کرنے آئے تو رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے اور شدید دُھند بھی پڑ رہی تھی ، سردی سے ہر ذی روح جہاں کہیں بھی تھی دبکی ہوئی تھی۔۔
باغ کا مالی بھی سردی سے ٹھٹھرتا ہوا اپنی جھونپڑی میں رکھی چارپائی پہ رضائی اوڑھے سو رہا تھا۔۔۔
میرے بہنوئی کی ایک بہن بڑی ہنس مکھ تھی ،کہنے لگی کہ آج مالٹے کھانے کو بہت دل کر رہا ہے ،وہ باتیں دوسری عورتوں سے کرتی تھی اور سنانی مجھے مارتی تھی کیونکہ میں بھوسے سے تھوڑا ہٹ کے ایک پلی ( بوری کی چادر ) بچھائے رپیٹر تھامے بیٹھا ہوا تھا باقی سب کام کررہے تھے۔۔
کانی کو کان کُھڑک جاتا ہے، اشاروں والی باتیں میں بہت سمجھتا ہوں ،کیونکہ ” کورٹ میرج والی شادی میں نے اشاروں اور خطوط کے ذریعے کی تھی موبائل تو بعد میں کارآمد ہوا “
میں سمجھ گیا کہ اب میں فارغ بیٹھا ہوں اور مجھ سے مالٹوں کی ڈیمانڈ کی جارہی ہے۔۔
جب میں نے اشاروں والی باتیں ان سنی کردی تو وہ ڈرائیکٹ مجھ سے مخاطب ہوئی کہ ایسے جو بیٹھے ہو جاو مالٹے ہی توڑ کے لے آو ،
میں نے کہا، مالٹے آرائیں قوم کے ہیں، اور بڑی سیانی قوم ہے نگرانی کررہے ہونگے۔۔
مجھے کہتی کہ آپ بہادر تو بڑے ہیں، کونسا پکڑے جاو گئے۔۔
میں نے کہا کہ یہ ساتھ دو کلو میٹر پہ ڈاہرانوالہ موڑ ہے وہاں سے مالٹے خرید کر لے آتا ہوں ابھی بارہ نہیں بجے موڑ پہ فروٹ شاپ کھلی ہوگی، کہنے لگی کہ نہیں خریدے ہوئے میٹھے نہیں ہوتے ،یہ والے مالٹے بہت بڑے بڑے ہیں اور خوبصورت بھی بہت ہیں،
مجھے کہنے لگی، اپنا قد شان دیکھو اور ڈر رہے ہو ، جب بات عزت و نفس کی آئی تو مجھے مجبوراً باغ کی طرف جانا پڑا ، میں نے رپیٹر اور کارتوسوں والی پیٹی چادر پہ رکھی اور خود باغ کو چل دیا ۔۔باغ ساتھ ہی تھا دو تین ایکڑ پہ۔۔
میں دل میں اسے برا بھلا کہتا جا رہا تھا کہ ٹھنڈ سے بندے مر رہے ہیں ناکوں سے نلیاں چل رہی ہیں اور ٹھنڈے مالٹے کھانے ہیں۔۔
باغ کی چاروں اطراف میں گلاب گھنے پودے لگا لگا کے باڑ بنائی گئی تھی ، باغ کے اندر جانے کا راستہ نہیں تھا بس ایک ہی راستہ تھا جہاں پہ مالی کی جھونپڑی تھی۔۔
میں نے گھوم پھر کے دیکھا اور ایک جگہ سے مجھے گلاب کے پودے کمزور نظر آئے تو میں چھلانگ لگا کے باغ کے اندر کود گیا۔۔
مالٹے واقعی بہت بڑے بڑے تھے ، دھند اور رات کی تاریکی میں نظر تو آتے نہیں تھے بس ہاتھ لگانے سے محسوس ہوتے تھے ، میں اندھیرے میں مالٹے کو ہاتھ میں پکڑتا اور پھر محسوس کرتا کہ بڑا ہے کہ چھوٹا ، بڑا توڑ لیتا چھوٹا چھوڑ دیتا، میں نے دس پندرہ منٹ مالٹے ہاتھوں میں پکڑ پکڑ کر چیک کئے ، بڑے بڑے مالٹے مجھے اچھے لگے اور بڑے ہی توڑتا رہا پھر ایکدم خیال آیا کہ مالی جھونپڑی میں سو رہا ہے اور اسے پاؤں کی آہٹ سنائی دے گئی تو وہ اپنے گاؤں سے مزید آدمی منگوا کر مجھے پکڑ بھی سکتا ہے ، میں ڈرا نہیں لیکن خیال آیا کہ خاندانی لوگ ہیں اور مالٹوں کی چوری میں پکڑے کھڑے ہونگے تو خاندان کا نام بہت روشن ہوگا، میں نے پھر کھیل ختم کرنے کا سوچا اور دونوں ہاتھوں سے مالٹے توڑنے شروع کر دئیے اور قمیض کی جھولی بھر لی ، میں نے سوچا اب آ تو گیا ہوں جھولی اچھی طرح سے بھر لوں ، میں نے توڑ توڑ کر مالٹوں سے جھولی سر تک بھر لی ، کوئی مالٹا ادھر سے گر جاتا کوئی ادھر سے۔۔
بڑی مشکل سے گلابوں کی باڑ واپس پھلانگی مجھے گلاب کے کئی کانٹے بھی لگے لیکن میں بھری جھولی سمیت واپس پہنچ گیا ۔۔
سب مرد و خواتین نے دیکھا کہ اتنے مالٹے ، میں بھی تو آدھی بوری جتنے مالٹے جھولی میں ڈال کے لے آیا تھا۔۔
دسمبر کی یخ بستہ رات کے بارہ بجے سب مالٹے کھا رہے تھے اور دانت پہ دانت بج رہا تھا۔۔۔
مرد مجھے ڈرا رہے تھے کہ پکڑے جاتے تو آپکو باندھ لینا تھا انہوں نے ، میں نے کہا ، دھند میں ہاتھ کو ہاتھ تو دکھائی نہیں دیتا تو بندہ کیسے نظر آتا ۔۔
جس عورت نے مجھے بھیجا تھا ، میں نے اس سے پوچھا!! سناو!! مالٹے میٹھے ہیں ? کہتی بہت میٹھے، “چوری کے جو تھے۔”
خیر بھوسہ گھر میں پھینک لیا اور میری مالٹوں کی چوری والی بات کئی دن تک موضوع بنی رہی کہ ڈاکوؤں کے ڈر سے جو سیکورٹی گارڈ ساتھ گیا تھا وہ خود مالٹوں کی چوری کرتا رہا تھا۔۔۔۔۔,!!!