ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انترنیشنل ۔۔۔۔ مال کی محبت اور غیر سے دوستی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )کشمیر، چین، عراق، افغانسان،لبنان، شام اور فلسطین ۔جب بھی کسی ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی ہے یا ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں تو ایک خیال ذہن میں ضرور آتا تھا کہ 57 مسلم ممالک کے حکمران جن میں سے کئی ایک دنیا کے امر ترین لوگوں کی لسٹ میں بھی ہیں۔کئی ممالک تو ایٹمی طاقت بھی ہیں اور بہترین فوج بھی رکھتے ہیں۔پھر ایسا کیوں ہے کہ وہ سب مل کر 1۔2 ارب مسلمانوں کے ساتھ ان چند کروڑ ظالموں کا ہاتھ روکنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے؟ٹرمپ کے حالیہ اعلان سے اندازہ ہوا کہ صلاحیت تو ان سب میں ہے لیکن جرات نہیں۔اور اس جرات کی وجہ وہی ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے حب مال و جاہ دنیا۔
ٹرمپ کا کہنا ہے:”عراقی سیاستدانوں نے جن بھاری رقوم کو امریکی بینکوں میں جمع کر رکھا تھا، اب وہ رقوم امریکی عوام کی ملکیت ہوں گی۔ یہ قیمت ہے اُن جانوں کی، جو امریکی فوجیوں نے عراق میں قربان کیں۔”
یہ جملے صرف ایک اعلان نہیں تھےیہ ایک تاریخی فیصلے کا کربناک آغاز تھے۔
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ مبینہ فہرست کے مطابق:
نوری المالکی: 66 ارب ڈالر
عدنان الاسدی: 25 ارب ڈالر
صالح المطلق: 28 ارب ڈالر
باقر الزبیدی: 30 ارب ڈالر
بہاء الاعرجی: 37 ارب ڈالر
محمد الدراجي: 19 ارب ڈالر
ہوشیار زیباری: 21 ارب ڈالر
مسعود بارزانی: 59 ارب ڈالر
سلیم الجبوری: 15 ارب ڈالر
سعدون الدلیمی: 18 ارب ڈالر
فاروق الاعرجی: 16 ارب ڈالر
عادل عبدالمہدی: 31 ارب ڈالر
اسامہ النجیفی: 28 ارب ڈالر
حیدر العبادی: 17 ارب ڈالر
محمد الکربولی: 20 ارب ڈالر
احمد نوری المالکی: 14 ارب ڈالر
طارق نجم: 7 ارب ڈالر
علی العلاق: 19 ارب ڈالر
علی الیاسری: 12 ارب ڈالر
حسن العنبری: 7 ارب ڈالر
ایاد علاوی: 44 ارب ڈالر
جلال طالبانی: 35 ارب ڈالر
رافع العیساوی: 29 ارب ڈالر
کل رقم: 597 ارب ڈالر
یقینا عراقیوں نے بھی ہمارے حکمرانوں اور مخیر حضرات کی طرح یہ رقوم عوام کا خون چوس کر ان پرظالمانہ ٹیکس لگا کر، مہنگائی کر کے، آئی ایم ایف سے اپنی عیاشیوں کے لیے قرضے لے کر اپنے فارن اکاوئنٹس اور آف شور کمپنیز میں اضافہ کرنےاور اتارنے کی ذمہ داری عوام پر ڈال کر، عوام کو بھوک اور بلز کی وجہ سے خودکشی پر مجبور کر کے ہی اکھٹی کی ہو گی۔ اور دیکھ لیجئے ایزی کم ایزی گو کے مصداق جیسے یہ مال ناجائز طریقوں سےاکھٹا کیا گیا تھا ویسے ہی ان سے لے لیا گیا۔ورنہ آج سے پہلے اس دلیل کے ساتھ کسی ملک نے دوسروں کا سرمایہ ہڑپ نہیں کیا۔
یہ خبر صرف عراق تک محدود نہ رہی۔ سعودی عرب، امارات، کویت، بحرین کے حکمرانوں کے ایوان لرز گئے۔ اُن کی نیندیں اڑ گئیں۔ بینکنگ سسٹم سے رقوم نکالنے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے — نقصان ہو یا نہ ہو، دولت کو بچانے کی آخری کوشش جاری ہے۔
یہ زلزلہ سوئٹزرلینڈ کی گہرائیوں تک پہنچا، جہاں رازداری کا قلعہ اب پگھلتے ہوئے برف کی مانند ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی نظام کی چادر تار تار ہو چکی ہے۔
نبیﷺکی پیشگوئی بھی ہوری ہو گئی۔
“عنقریب شام، عراق اور مصر کی فَے (یعنی مال و غلہ) بند ہو جائے گی، اور تم وہیں لوٹ جاؤ گے جہاں سے تم پہلے آئے تھے، وہیں لوٹ جاؤ گے، وہیں لوٹ جاؤ گے۔”
صحیح مسلم، کتاب الفتن، حدیث نمبر: 2887
یہاں ان مسلمان حکمرانوں اور امراء کے لیے ایک عبرتناک سبق بھی ہے جنہوں نے اپنے ممالک یا اپنے مسلم برادر ممالک میں سرمایہ کاری اور اپنا مال رکھنے کی بجائے ک ف ا ر کو ترجیح دی۔انہیں دلی دوست بنایا جب کہ قرآن بالکل واضح الفاظ میں بتا چکا ہے کہ اہل کتاب یہود و نصاری اور مشرکین ہمارے دوست تو کیا خیرخواہ بھی نہیں ہو سکتے۔
اور اپنے مال کی وجہ سے اپنے مظلوم بہن بھائیوں کا قتل عام ہوتے دیکھ کر اندھے بہرے اور گونگے بن گئے۔اپنی مشرکین کے ساتھ شراکت داری کی وجہ سے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اخوت کو بھول گئے۔امید ہے اب ان کی آنکھیں ضرور کھلیں گی اور انہیں مظلوموں کی آہیں سنائی دیں گی۔کیونکہ اب وہ خود تکلیف کا شکار ہوں گے۔