محبت اک تبسم
ازقلم۔۔۔فرواخالد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ محبت اک تبسم۔۔۔ ازقلم۔۔۔فرواخالد)رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔۔۔ کئی گھنٹوں کی مسلسل ہوتی بارش نے ہر جانب جل تھل کررکھا تھا۔۔۔ اس کے باوجود ابھی تک بارش کے رکنے کے کوئی امکانات نہیں تھے۔۔
بادلوں کی گھن گرج نے ماحول کو مزید خوفناک بنا دیا تھا۔۔ اس طوفانی رات میں جہاں سب لوگ اپنے گھروں میں پناہ گزیں تھے۔۔ ایسے میں وہ بھی تھی جو اپنے گھر سے بے گھر ہوگئی تھی۔۔۔ اپنے آپ کو بچانے کی خاطر اس کو عروسی لباس میں اپنے گھر کی دہلیز پار کرنی پڑی تھی۔۔۔
چند ہفتے پہلے جو اپنے گھر کی شہزادی تھی۔۔ آج وہ رات کی تاریکی میں بے سرو ساماں سڑکوں پر بھٹک رہی تھی۔۔۔
بارش کے قطروں نے اس کے چہرے پر بکھرے آنسوؤں کی نمی کو اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔۔۔ نجانے کتنی دیر سے وہ ایسے ہی بھاگ رہی تھی۔۔۔ وہ اس جگہ سے بہت دور نکل جانا چاہتی تھی۔۔
مسلسل بھاگنے کی وجہ سے اس کے گداز پیر سوج چکے تھے۔۔۔ ہونٹ بھی زخمی تھا۔۔۔
گلابی گالوں پر سفاک انگلیوں کے نشان واضح تھے۔۔۔ وہ بری طرح سے تھک چکی تھی۔۔۔
بارش میں مسلسل بھیگنے کی وجہ سے وہ اب ٹھنڈ سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔۔ اس کی ہمت بہت بار ٹوٹی تھی۔۔۔ مگر وہ واپس اس جگہ نہیں جانا چاہتی تھی جہاں سے وہ بھاگ کر آئی تھی۔۔ یہی وجہ تھی کہ زخمی پیر اور کانپتے وجود کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔۔۔
وہ بہت دور نکل آئی تھی۔۔۔ مگر اس کا خوف ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔۔۔ اسے اب بھی لگ رہا تھا کہ وہ اس تک پہنچ جائیں گے۔۔۔ وہ پھر سے ان کے ہاتھ لگ جائے گی۔۔۔
اس کا سرخ بھاری لباس مٹی سے بھر چکا تھا۔۔۔ وہ بہت بار ٹھوکر کھا کر گری تھی۔۔
اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا یہیں کھڑے ہوکر دھاڑیں مار مار کر رونے لگ جائے۔۔۔
جو دھوکا اور فریب اس کے ساتھ ہوا تھا۔۔ وہ ساری زندگی نہیں بھول سکتی تھی۔۔۔ اور نہ اب کبھی کسی پر اعتبار کر سکتی تھی۔۔۔ وہ پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی۔۔۔
“بابا۔۔۔۔ بابا کہاں چلے گئے آپ۔۔۔ پلیز واپس آجائیں میرے پاس۔۔۔۔ آپ کے بغیر اس دنیا میں کوئی نہیں ہے میرا۔۔۔ کیوں چھوڑ کر گئے مجھے۔۔۔ اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئے۔۔۔ میں تو آپ کی پرنسز تھی نا بابا۔۔۔ اپنی پرنسز کے ساتھ ایسا کون کرتا ہے۔۔۔”
اس کی ٹانگوں سے مزید چلنے کی سکت اب ختم ہوچکی تھی۔۔۔
روڈ کے کنارے وہ درخت کے سہارے کھڑی بارش سے بچنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔ اس کے لباس سے پانی نچوڑ رہا تھا۔۔۔
وہ سکڑی سمٹی اپنے رب سے مدد مانگ رہی تھی جب کچھ لمحوں بعد اسے دور سے کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس روشن ہوتی دکھائی دی تھیں۔۔ یہ علاقہ بالکل سنسان تھا۔۔۔
بارش کی وجہ سے یہ راستہ خطرناک تھا۔۔ اسی لیے کوئی اس راستے کا استعمال نہیں کررہا تھا۔۔۔
یہ پہلی گاڑی تھی جو اس راستے پر آتی دکھائی دی تھی اسے۔۔۔
وہاں دور دور تک کوئی زی روح موجود نہیں تھا۔۔ خوف سے ویسے ہی اس کی جان نکلی جارہی تھی۔۔
اس کے پاس سوچنے کا زیادہ وقت نہیں تھا۔۔ بارش کا زور مزید بڑھ رہا تھا۔۔۔
ہوا کی رفتار میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔۔
اسے محسوس ہوا تھا اس گاڑی کو بھیج کر شاید اس کے رب نے اس کے لیے کوئی مدد بھیجی ہو۔۔۔
اس نے آگے بڑھنے کا رسک لینا چاہا تھا۔۔۔ کیونکہ اب تک اس کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا۔۔ اسے نہیں لگتا تھا کہ اس سے بھی برا کچھ ہو سکتا تھا۔۔۔
یہی سوچتے وہ آگے بڑی تھی اور روڈ کے بالکل سینٹر میں آتے اس نے گاڑی والے کو رکنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
سرخ لباس میں دلہناپے کے روپ میں رات کی گہری تاریکی اور برستی بارش میں وہ سنسان روڈ پر کھڑی دیکھنے والے کو پر اسرار ہی معلوم ہورہی تھی۔۔۔
گاڑی بہت تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔۔ اس کے ایک دم سے سامنے آجانے کی وجہ سے گاڑی چلانے والے نے بہت مشکل سے بروقت بریک لگائی تھی۔۔۔ وہ بال بال بچی تھی۔۔
گاڑی کے ٹائر روڈ پر چڑچڑائے تھے۔۔۔۔ بارش کے ساتھ ساتھ ٹائروں کی آواز ماحول کو مزید خوفناک بنا گئی تھی۔۔۔
اس نے خوف سے لرزتے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔ اسے لگا تھا وہ گاڑی سے ٹکرا جائے گی اور ابھی اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔۔۔
خوف کے مارے اس کی جان نکل گئی تھی۔۔ اسے کچھ وقت لگا تھا یہ سمجھنے میں کہ وہ بچ گئی ہے۔۔۔
گاڑی کی ہیڈ لائٹس اسے اپنی آنکھوں میں چبھتی محسوس ہوئی تھیں۔۔ جن سے بچنے کے لیے اس نے اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے تھے۔۔۔
اتنی دیر میں اندر بیٹھا شخص انتہائی غصے کے عالم میں گاڑی کا دروازہ بند کرتا باہر آیا تھا۔۔۔
“اندھی ہوگئی ہو۔۔۔ دکھائی نہیں دیتا تمہیں۔۔۔ مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کہیں اور جاکر مرو۔۔۔ “
اس کے قریب آتا مقابل اتنے زور سے دھاڑا تھا کہ ہالہ کو جو تھوڑی بہت مدد کی امید لگی تھی وہ بھی جاتی رہی تھی۔۔۔
اپنے خوف کو اندر چھپاتے وہ تیزی سے اس شخص کی جانب آئی تھی۔۔۔
سیاہ ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس وہ رف سے حلیے میں پیشانی پر بکھرے سیاہ بالوں کے ساتھ دیکھنے میں جس قدر شاندار تھا اس کا لہجہ اتنا ہی غیر مہذب تھا۔۔۔
#محبت_اک_تبسم_ازقلم_فرواخالد