محبت میں محبوب کے چہرے کے نقوش دیکھے نہیں جاتے حفظ کئیے جاتے ہیں۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )محبت میں انسان تمام اعصاب اور کل اعضاء کے ساتھ بھوک کاٹتا ہے سہتا اور برداشت کرتا ہے۔۔۔محبت میں محبوب کے چہرے کے نقوش دیکھے نہیں جاتے حفظ کئیے جاتے ہیں۔۔۔اسکی آواز ازان جیسی ہوتی ہے سنتے ہی ہم سچے مومن کیطرح دوڑتے چلے جاتے ہیں۔۔۔اسکا لہجہ اک منادی جیسا ہوتا ہے وہ پکارے ہم لبیک کی صدائیں دیتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔بھلاہو محبت کا۔۔۔محبت بھی ماں جیسی ہوتی ہے۔۔۔ناتو اسکو محبوب کی غزالی آنکھوں سے سروکار ہوتا ہے نا ہی فعال کے ترکش سے نکلے تیر جیسے ابرو سے مطلب۔۔۔نا گورے سپید رنگ کی ضرورت نا ہی حسن میں تمغہ امتیاز سے واسطہ۔۔۔۔ یہ تو ہر عیب کو نظر انداز کردیتی ہے۔۔۔ یہ اندھی نہیں ہوتی بلکل اندھی نہیں ہوتی بس یہ ممتا والی نظر رکھتی ہے ماں کو بس اپنی اولاد سب سے خوب صورت اور خوب رو لگتی ہے۔۔۔ پتا ماں کو بھی ہر عیب ہر نقص ہوتا ہے مگر اسکی ممتا کی آنکھ ہی الگ ہوتی ہے اسکا دیکھنے کا انداز ہی نرالا ہوتا ہے۔۔۔میں اتفاق نہیں کرتی کہ محبت میں چہرہ معنی نہیں رکھتا بلکل رکھتا ہے مگر۔۔۔۔میں اس بات پر آنکھ بند کر کے متفق ہوں کہ محبت ہوجائے تو عام چہرے بھی حجر اسود بن جاتے ہیں انکو بھی بوسے دئیے جاتے ہیں انکے بھی صدقے اتارے جاتے ہیں۔۔۔۔
سنو!!!میں نے بھی تمہاری محبت کو کعبہ سمجھ کر صبح شام تمہاری زات کے طواف کئیے ہیں۔۔۔تمہارے چہرے کو معتبر سمجھ کر اسکو ثواب سمجھ کر بوسے دئیے ہیں۔۔۔
میری آنکھوں نے بھی کسی بھوکے کی طرح تمہارے چہرے کے نقوش کو دیکھ دیکھ روزہ افطار کیا ہے۔۔۔میرے کانوں کے لئیے بھی تمہاری آواز ازان جیسی رہی ہے اور میری سماعت پکی مومنہ۔۔۔تمہاری ایک پکار مجھے مناسک حج جیسی لگی جسکو ادا کرنا جس پر لبیک کہنا لازم ہوتا ہے۔۔۔۔۔اللّٰہ شرک سے بچائے مجھے۔۔۔۔ اگر اللّٰہ اپنے اور اپنے حبیبﷺ کے بعد سجدے کی اجازت کسی کو دیتا تو۔۔۔۔میں تمہیں اس رتبے پر فائز کرتی۔۔۔۔
مگر سوال یہ کہ کیا تم اس رتبے کے اس درجے کے مستحق قرار پاتے؟؟؟؟
سیدہ حورین شاہ