Daily Roshni News

مردانہ بانجھ پن!۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر شاہد عرفان

مردانہ بانجھ پن!

مردوں میں باپ بننے کی صلاحیت میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟

تحریر۔۔۔ڈاکٹر شاہد عرفان

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر شاہد عرفان)’مسئلہ مجھ میں ہو سکتا ہے، یہ سوچا بھی نہ تھا‘

’میں بظاہر صحتمند تھا۔ مجھے تو ذرہ برابر بھی یہ گمان نہیں تھا کہ مسئلہ مجھ میں بھی ہو سکتا ہے اور ایسے میں دو سال تک میں اپنی بیگم کو ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس لے جاتا رہا۔‘

صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارسلان (فرضی نام) کے ہاں شادی کے بعد اولاد نہیں ہو رہی تھی، مگر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنا ٹیسٹ کروانے کے بجائے وہ اپنی اہلیہ کو ہی ڈاکٹروں کے پاس لے جاتے رہے، اُن کی مختلف ٹیسٹ کروائے اور بلآخر ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُن کی اہلیہ بچہ پیدا کرنے کے لیے مکمل طور پر فٹ ہیں۔

’ڈاکٹر نے بتا دیا کہ میری اہلیہ کے ساتھ کوئی طبی مسئلہ نہیں ہے، لہذا مجھ سے کہا گیا کہ اب مجھے اپنے ضروری ٹیسٹ کروانا ہوں گے۔‘

’میں پہلے تو ہچکچایا کہ یہ کیا بات ہوئی، مجھے ٹیسٹ کروانے کا کیوں کہا جا رہا ہے۔ لیکن پھر میں ٹیسٹ کے لیے چلا گیا اور اپنے سیمن (مادہ منویہ) کا سیمپل (نمونہ) دے دیا۔ اس کے بعد جب رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ مسئلہ تو مجھ میں ہے۔‘

ارسلان بتاتے ہیں کہ ’وہ وقت میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ میرے سر پر جیسے آسمان گر گیا ہو۔ میں بتا نہیں سکتا، میں ڈاکٹر کے سامنے روتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے یہ خبر اپنی اہلیہ کو سنائی تو چند لمحوں کے لیے ’وہ جیسے سکتے میں چلی گئی تھی۔ بالکل ایسی صورتحال تھی جیسے کوئی بڑی آفت آن پڑی ہو۔‘

تاہم میرے مشورے پر ارسلان نے علاج کا آغاز کیا اور اب ان کے مطابق ’حالات بہتر ہوئے ہیں۔ زندگی بہت ہنسی خوشی گزر رہی ہے۔ پہلے مالی حالات بھی بہتر نہیں تھے اس لیے علاج نہیں کر پا رہے تھے، جب کچھ حالات بہتر ہوئے تو علاج شروع کیا اور اب امید جاگ اٹھی ہے۔‘

مردوں کے سپرم کاؤنٹ میں کمی!

یہ مسئلہ صرف ارسلان کا نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں مردوں کا سپرم کاؤنٹ کم ہوا ہے۔

آکسفورڈ پریس کی جانب سے مردانہ تولیدی نظام کے بارے میں جاری ایک سٹڈی میں سپرم کی گنتی (سپرم کاؤنٹ) میں وقتی رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس تحقیق میں 20ویں اور 21ویں صدی کے دوران عالمی سطح پر جمع کیے گئے سیمنز کے نمونوں کا جائزہ لیا گیا۔

’ہیومن ریپروڈکشن اپڈیٹ‘ نامی جرنل میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق 1972 سے 2022 تک عالمی سطح پر اوسطاً سپرم کاؤنٹ میں ہونے والی کمی 62 فیصد سے بھی زیادہ ہے اور عالمی سطح پر سپرم کاؤنٹ میں ہونے والی اس کمی نے 21ویں صدی میں مزید رفتار پکڑی ہے۔

تحقیق کے مطابق 70 کی دہائی میں سپرم کنسنٹریشن ہر سال 1.6 فیصد سے گر رہی تھی لیکن سنہ 2000 کے بعد 2.64 فیصد کے ریٹ سے اس میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

ان سٹڈیز کا جائزہ 1973 سے 2018 تک 16258 مردوں کے سپرم کے نمونوں پر مبنی تھا۔

سپرم کی تعداد میں کمی باعث فکر کیوں؟

 اگر سپرم کنسنٹریشن 40 ملین فی مِلی لیٹر سے کم ہو جائے تو اِس کا اثر بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت پر پڑ سکتا ہے۔ مگر آپ سوچ رہے ہوں گے اگر ایک ایگ (بیضے) کو فرٹیلائز (ذرخیز) کرنے کے لیے فقط ایک سپرم کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر حمل ٹھہرانے کے عمل کے لیے کروڑوں سپرمز کا ہونا کیوں ضروری ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد اور عورت میں جنسی تعلق قائم ہونے پر خواتین کے جسم میں تقریباً 30 کروڑ سپرم داخل ہوتے ہیں، لیکن اُن میں سے لاکھوں سپرم ضائع ہو جاتے ہیں یا خاتون کے جسم میں موجود تیزابیت کا شکار ہو کر ابتدا ہی میں مر جاتے ہیں۔

کیا یہ غلط فہمی ہے کہ جنسی تعلق کے نتیجے میں سپرم بیضہ کی جانب دوڑ لگاتا ہے؟

باقی رہ جانے والے سپرم، بیضے کی جانب دوڑ لگا دیتے ہیں لیکن اُن میں سے بھی لاکھوں بچہ دانی میں داخل ہونے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ جو بچے کھچے سپرم بچہ دانی تک پہنچ جاتے ہیں اُن میں سے کچھ ہزار سپرم ہی اُس فیلوپیئن ٹیوب کی طرف بڑھتے ہیں جس میں بیضہ موجود ہوتا ہے۔

بہت سے سپرمز کو خواتین کا قدرتی دفاعی نظام سسٹم غیر ضروری بیرونی عناصر سمجھ کر بھی مار دیتا ہے۔

آخر کار کروڑوں میں سے محض کچھ درجن سپرمز ہی ایگ تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں اور ضروری ہے کہ اِن میں سے ایک سپرم اتنا طاقتور ہو جو بیضے کی باہری پرت کو توڑ کر اندر داخل ہو سکے اور حمل کا امکان پیدا کر سکے۔

پاکستان میں کیا صورتحال ہے؟

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے اسماعیل (فرضی نام) اور محمود (فرضی) کے ساتھ بھی اس نوعیت کا مسئلہ تھا۔ دونوں کی شادی کو لگ بھگ پانچ، پانچ سال ہو چکے تھے مگر اولاد نہیں ہو پا رہی تھی۔

اسماعیل نے اپنے طور پر اپنے ساتھ درپیش مسئلے کا علاج کروایا اور چند ماہ بعد ان کی اہلیہ کا حمل ٹھہر گیا تھا تاہم محمود کے مطابق انھوں نے علاج پر لاکھوں روپے خرچ کیے لیکن ان کے سپرم کاؤنٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ الٹا بقول محمود کے ان کے سپرم کاؤنٹ وقت کے ساتھ اور علاج کے بعد مزید کم ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں سپرم کاؤنٹ کا فارمولا ہی تبدیل ہو گیا ہے۔

1980 کی دہائی میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق مردوں کے سپرم کاؤنٹ 65 ملین سے 150 ملین تک تھا لیکن اس کے بعد کم ہوتے ہوتے یہ چھٹے ایڈیشن میں 15 ملین تک آ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب اگر 15 ملین تک بھی سپرم کاؤنٹ آ جائے تو اسے نارمل قرار دیا جاتا ہے۔

جس طرح یہ شرح دنیا بھر میں کم ہوئی ہے، اسی طرح پاکستان بھی متاثر ہوا ہے۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات، جو سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہیں، وہاں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے مردوں کے سپرم کاؤنٹ پر بھی اثر پڑتا ہے۔

دنیا میں شادی شدہ جوڑوں میں 15 سے 20 فیصد شادی شدہ جوڑوں میں بانجھ پن پایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے۔

لگ بھگ 20 فیصد کیسز میں مرد اور 15 فیصد کیسز میں خواتین کا مسئلہ ہوتا ہے جبکہ 40 فیصد کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں میاں اور بیوی دونوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی حمل نہیں ٹھہر پاتا۔

تاہم علاج ممکن ہے۔ میری یہ تجویز ہے کہ بچہ پیدا نہ ہونے کی صورت میں کسی ایک فریق کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے دونوں کو اپنے ٹیسٹ کروانے چاہیں اور ٹیسٹ کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹرز کے مشورے سے علاج کا آغاز کر دینا چاہیے۔

بانجھ پن کی وجوہات؟

بانجھ پن کی وجوہات میں پیدائشی وجوہات یا جینیاتی مسئلے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کے خصیے چھوٹے رہ جاتے ہیں جن میں مطلوبہ تعداد میں سپرم نہیں بن پاتے۔ یا ایزو سپرمیا کا عارضہ ہو سکتا ہے جس میں یا تو سپرم بنتے ہی نہیں یا بہت کم بنتے ہیں۔‘

لوگوں کی خوراک، رہن سہن اور آج کل تو جنک فوڈ بھی اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔

سائنسی تحقیق کے مطابق جسمانی، جینیاتی اور جنسی عوامل کے علاوہ کئی دوسری چیزیں بھی مردوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

اِن میں ہمارے ارد گرد کے ماحول میں پائے جانے والے مصنوعی کیمیائی مادّے بھی شامل ہیں۔

پلاسٹک، کیڑے مار ادویات، بھاری دھاتیں اور زہریلی گیسیں اور سِنتھیٹِک مادّے جسم کے اندر ہارمونز کا توازن بگاڑ دیتے ہیں جس سے مردوں میں صحت مند سپرم پیدا کرنے کی صلاحیت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔

تمباکو نوشی، شراب نوشی، بعض ادویات، پروسیسڈ فوڈ، موٹاپا اور ورزش کی کمی بھی مردانہ صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔ ’لیکن سائنسدان اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ وجوہات کے بارے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘

تولیدی صحت کے لیے غذا کا خاص خیال رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے فاسٹ فوڈ اور پروسیسڈ فوڈ سے دوری اور ورزش کو طرز زندگی میں شامل کیا جانا مردوں کی تولیدی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔۔۔

مردوں میں جنسی کمزوری ، بانجھ پن کے بارے میں کوئی بھی سوال تو آپ پوچھ سکتے ہیں

شکریہ

ڈاکٹر شاہد عرفان…

Loading