Daily Roshni News

مرشدِ کامل اور ضرورت مرشد

مرشدِ کامل اور ضرورت مرشد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں جس نے اپنی رحمت و کرم سے ہم پر یہ احسانِ عظیم فرمایا کہ ہمیں اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت میں پیدا کیا جس کا امتی بننے کےلیے انبیاۓ کرام علیہم السلام بھی دعائیں مانگتے گئے اور تمام تعریفیں اس مالکِ حقیقی کی ہیں جس نے انسان کو اپنی نیابت عطا فرمائی یعنی اس کو خلافتِ الٰہیہ کا تاج پہنایا اور تمام تعریفیں اس ذات وحدہ ، لاشریک کی ہیں کہ جس نے اپنا جلوہ ظاہر کرنے کے لئے اور ہمیں اپنی معرفت و پہچان کے لئے اس کمرہ امتحان یعنی اس عالمِ رنگ و بو میں اتارا ۔ اور کروڑوں ، اربوں درود ہوں اس محبوبِ ذاتِ حق صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کہ جس کا مقام ہر کسی کی سوچ اور ہر کسی کے علم و عقل ہر کسی کے خرد و فہم سے بہت بالا تر ہے اور اربوں ، کھربوں سلام ہوں ان کی ذات پر جس کے روئے والضحیٰ میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا ظہور فرما کر اس کائناتِ ارض و سما کے درمیان ہی نہیں بلکہ کائناتِ الٰہی کی جہاں جہان تک وسعت ہے ۔ اس جگہ کو ان کے رخِ انور سے منور فرمایا اورکائنات کی تمام خوبصورتیاں کائنات کے تمام حسن اور کائنات کے تمام خزانے فداہوں ان پائے اقدس پر کہ جن کے اس کائنات لگتے ہی ظلمت و تاریکی کی یہ نگری خالصتاً اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات سے جگمگا اٹھی کیوں کہ اس ذات محبوب میں خود ذاتِ باری تعالیٰ عیاں ہے ۔ یوں تو اس دنیا میں علم کی کوئی کمی نہیں ہے جابجا تعلیمی مراکز (چاہے کسی بھی شعبہ کی تعلیم) کھل چکے ہیں لیکن جو چیز انسان کی روح کو تقویت پہنچاتی ہے اس دنیا میں ۔ دیکھنا یہ ہے میں اِسی طرف آپ کی توجہ کرانے کی کوشش کروں گا کہ وہ تعلیم ہم کو کہاں سے مل رہی ہے اور آج امتِ مسلمہ کے زوال کا سبب کیا چیز بن رہی ہے اور کس چیز کی کمی ہے اس کو پورا کیسے کیا جائے ۔

پیر و مرشد کون ہوتا ہے ؟ اس میں کن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ؟ اور کیا دورِ حاضر میں ایسے اوصاف کی حامل کوئی شخصیت موجود ہے جس کے دامنِ کرم سے وابستہ ہو کر ہم حفاظتِ ایمان کا نسخۂ کیمیا پا سکیں ۔

شیخ کی تعریف :

حضرت عبد الغنی نابلسی حنفی رحمۃ اللّٰہ علیہ حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیرومرشد کی تعریف کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ احکامِ شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال وافعال کے ذریعے مریدوں کے حالات اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتبِ کمال کی طرف متوجہ رہے ۔ (الحدیقۃ الندیۃ، الباب الاول، فمرجع الاحکام  ومثبتھا الکتاب والسنۃ ۔ ۔ الخ، ج۱، ص۱۵۹،)

پیر و مرشد کا مرتبہ

حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب میں اور حضرت سیدنا علامہ علی قاری رحمۃ اللّٰہ علیہ مرقاۃ المفاتیح میں نقل فرماتے ہیں کہ اَلشَّیخُ فِی قَومِہ کَالنَّبِیِّ فی اُمَّتِہ یعنی شیخ اپنی قوم میں ایسے ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمت میں ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب فضائل القرآن، باب آداب التلاوۃ تحت الحدیث : ۲۱۹۷، ج۴، ص۶۹۶)(کشف المحجوب، باب لبس المرقعات، ص۵۲)

مرشد کامل جو عالم ربانی ہی ہوتا ہے ، کی صحبت اور تربیت کیوں ضروری ہے اس موضوع پر حضرت امام ربانی مجدّد و منوّر الف ثانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں : اے محترم! انسانی زندگی کا مقصد اعلیٰ بارگاہ قدس میں ہی پہنچنا ہے، لیکن چونکہ مرید شروع میں بہت سے تعلقات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے انتہائی میلے پن اور پستی میں ہوتا ہے، جبکہ ذات باری تعالیٰ انتہائی پاکیزہ اور بہت بلند ہے ۔ اس لیے فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے طالب اور مطلوب کے درمیان جو مناسبت چاہیے وہ موجود نہیں ، لہٰذا اسکے راستہ سے باخبر اور راستہ کو صحیح دیکھنے والے پیرِ کامل کے سوا کوئی چارہ نہیں جو درمیان میں واسطہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے قرب اور عام انسانوں سے رابطہ رکھتا ہو تاکہ وہ مطلوب کے ساتھ طالب کے وصول کا ذریعہ بنے ۔ (مکتوب ۱۶۹ دفتر اول حصہ سوم)

حضرت با یزید بسطامی علیہ الرحمہ کا قول ہے : جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کا مرشد شیطان ہوتا ہے ۔ (الرسالۃ القشیریہ ، باب الوصیۃ للمریدین)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے حوالے سے مذکورہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہاں شیخ سے مراد ہادیانِ راہِ خدا ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی راہ کی جانب ہدایت دینے والے ہیں اور قرآنِ کریم میں ایسے لوگوں کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ – (پ۵، النساء : ۵۹)

ترجمہ : حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔

یہاں اولی الامر سے مراد علمائے شریعت و طریقت دونوں ہیں ۔ (فتاوی رضویہ، جلد نبر ۲۱ صفحہ نمبر ۴۸۳،)

پیری مُریدی کا ثُبوت

فرمانِ باری تعالیٰ ہے : یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ – (پ۱۵، بنی اسرائیل : ۷۱)

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے ۔

حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نورُ العِرفان میں اس آیتِ مبارَکہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کسی صالح کو اپنا امام بنا لینا چاہئے شَرِیعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حَشْر اچھوں کے ساتھ ہو ۔ اگر صالح اِمام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہو گا ۔ اس آیت میں تقلید، بیعت اور مُریدی سب کا ثبوت ہے ۔

مرید ہونے کا مقصد

پیر اُمورِ آخِرت کے لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اُس کی رہنمائی اور باطنی توجّہ کی بَرَکت سے مُرید اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضی والے کاموں سے بچے اور رِضائے رَبُّ الانام کے دینی کاموں کے مطابق اپنے شب و روز گزار سکے ۔

موجودہ دور میں بیشتر لوگوں نے پیری مُریدی جیسے اَہم منصب کو حُصولِ دنیا کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔ بیشمار بد عقیدہ اور گمراہ لوگ بھی تَصَوُّف کا ظاہری لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو گمراہ اور ان کے دین و ایمان کو برباد کر رہے ہیں ۔ انہی غَلَط کار لوگوں کو بنیاد بنا کر پیری مریدی کے مخالفین اس پاکیزہ رشتے سے لوگوں کو بدگمان کررہے ہیں ۔ دورِ حاضر میں چونکہ کامل و ناقص پیر کا امتیاز انتہائی مشکل ہے ۔ لہٰذا مرید ہوتے وقت امام اَحمد رضا خان قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پیر و مرشد کی جن شرائط و اَوصا ف کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے اور مرشِدِ کامل کی پہچان کا جو طریقہ ارشاد فرما کر اُمّت کو صحیح رَہنمائی عطا کی ہے اُسے پیشِ نظر رکھنا ضَروری ہے ۔

مرشِد کامل کےلیے شرائط

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں : شیخ اتصال یعنی جس کے ہاتھ پر بَیْعَتْ کرنے سے انسان کا سلسلہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک مُتَّصِل ہوجائے ، اس کےلیے چار شرطیں ہیں : (1) شیخ کا سلسلہ بَاِتّصالِ صحیح (یعنی دُرُست واسطوں کیساتھ) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک پہنچا ہو ۔ (2) شیخ سُنّی العقیدہ ہو ۔ (3) عالم ہو ۔ (4) فاسِق مُعْلِن (یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا) نہ ہو ۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج۲۱، ص۵۰۵، ۵۰۶)

مرشِد کامل کے 26 اوصاف

حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کامل مرشِد کے اوصاف یوں بیان فرماتے ہیں کہ : شیخ (پیرو مرشد) کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نائب ہونے کےلیے یہ شرط ہے کہ وہ عالم ہو لیکن ہر عالم بھی مرشِدِ کامل نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا ہم یہاں اِجمالی طور پر مرشد کامل کی بعض علامات بیان کرتے ہیں تاکہ ہر شخص مرشِد و رَہبر بننے کا دعویٰ نہ کر سکے ۔

(1) ۔ پیرکامل وہی ہے جس کے دل میں دنیا کی محبت اور عزّت و مرتبے کی چاہت نہ ہو ۔ (2) ۔ وہ ایسے مرشد ِ کامل سے بیعت ہو جو نورِ بصیرت سے مالا مال ہو ۔ (3) ۔ اس کا سلسلہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک متّصل ہو ۔ (4) ۔ نیک اَعمال بجا لانے والا ہو ۔ (5) ۔ ریاضت ِ نفس کا عادی ہو ۔ (6) ۔ کم کھانے ۔ (7) ۔ کم سونے (8) ۔ کم بولنے ۔ (9) ۔ کثرتِ نوافل ۔ (10) ۔ زیادہ روزے رکھنے اور (11) ۔ خوب صدقہ وخیرات کرنے جیسے نیک اَعمال کرنے والا ہو ۔ (12) ۔ نیز وہ پیرکامل اپنے شیخ کی کامل اِتباع کے سبب صبر ۔ (13) ۔ نماز ۔ (14) ۔ شکر ۔ (15) ۔ تَوَّکُل  (16) ۔ یقین ۔ (17) ۔ سخاوت ۔ (18) ۔ قناعت (19) ۔ طمانیت نفس ۔ (20) ۔ حِلْم ۔ (21) ۔ تواضع ۔ (22) ۔ علم  (23) ۔ صدق ۔ (24) ۔ وفا  (25) ۔ حیا اور (26) ۔ وقارو سکون جیسے پسندیدہ اَوصاف کا پیکر ہو ۔ پس جو پیرکامل ان اَوصاف سے متصف ہو وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے انوارِ مبارکہ میں سے ایک نور بن جاتا ہے اور اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کی اِقتدا کی جائے ۔ ایسے پیرومرشد کا ملنا بہت ہی مشکل ہے … اور اگر (اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی رحمت اور) خوش قسمتی و سعادت مندی ساتھ دے اور ان اَوصاف کے حامل پیرکامل تک رسائی ہو جائے اور وہ پیرکامل بھی اسے اپنے مریدوں میں قبول فرما لے ۔ تو اب اس مرید کے لئے لازمی اور ضروری ہے کہ اپنے پیرکامل کا ظاہری اور باطنی ہر طرح سے اَدب واِحترام بجا لائے ۔ (مجموعۃ رسائل الامام الغزالی، ایھا الولد، ص۲۶۲،)

موجودہ دور میں ایمان کو جس قدر خَطَرات لاحِق ہیں اس کوہر ذی شُعور مَحسوس کر سکتا ہے ۔ چنانچہ حفاظتِ ایمان کے لیے کسی ایسے کامل پیر و مرشد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو نہ صرف اپنے مریدوں پر بادل کی طرح سایہ فگن رہے بلکہ ان پر آنے والی ہر آفت و مصیبت کے وقت ڈھال بھی بن جائے ۔ مگر افسوس صد افسوس ! آج کل علم دین سے نابلد ہونے یا فکر آخرت پیش نظر نہ ہونے کے سبب بعض ناعاقبت اندیشوں نے پیری مریدی کو حصولِ دنیا کا ذریعہ بنا لیا ہے اور موجودہ دور میں کسی کامل پیر کو تلاش کرنے کی سوچ تو کجا اس کے متعلق معلومات بھی مثل عنقا ۔ عنقا کے متعلق مختلف اقوال ہیں ، یہ ایک فرضی افسانوی پرندہ ہے جس کے متعلق فلا سفہ کا خیال ہے کہ اسکے دو بازو اور چار پاؤں ہیں اور اس کے بازو مشرق و مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں ، ایسے پرندے کا پایا جانا ممکن تو ہے لیکن پایا نہیں جاتا ۔ (نصاب المنطق صفحہ نمبر 41)

مرشد کامل یا مربی کوئی خود بخود بنی ہوئی شخصیت کا نام نہیں بلکہ جس طرح آپ قرآن کی ساری عبارت کو صرف سند متصل کی وجہ سے اللہ کا کلام جانتے چلے آتے ہیں جس طرح آپ بخاری و مسلم کی کسی روایت کو محض اس لیے حدیث یعنی کلام رسول تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ معتبر اور مسلسل اسناد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہیں ، ٹھیک اسی طرح اس مرشد کامل کا قلب بھی ایسے ہی مضبوط واسطوں کے ساتھ قلب رسول سے ملا ہوا ہوتا ہے ، اس کا رابطۂ روحانی بھی ایسی ہی زنجیر کی مضبوط کڑیوں کی طرح سر چشمۂ روحانیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و مسلم رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اور اقوال کو اپنی کتابوں میں ضبط و نظم کے ساتھ محفوظ کرتے رہے اسی طرح حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ انوارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آثار صحابہ رضی اللہ عنھم سے اپنے سینوں کو منور کرتے رہے ، اُدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول بذریعہ حدیث ایک سینے سے دوسرے سینے میں نقل ہوتا رہا اِدھر نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتا رہا دونوں شعبوں کی تکمیل صحابہ کے زمانے میں بھی کئی شخصیات کے حصے میں آئی ہیں جن میں ابو بکر صدیق، عمر، عثمان، علی المرتضیٰ، ابوذر، سلمان فارسی، ابو عبیدہ، ابودرداء، ابوہریرہ رضی اللہ عنھم وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں ۔ ان کی محبت سے تابعین کی جماعت تیار ہوئی ، تابعین سے تبع تابعین نے فیض حاصل کیا اور اسی طرح سینہ بہ سینہ یہ روحانیت اور مرتبہ احسان کی کيفیت منتقل ہوتی رہی، لہٰذا آج بھی اگر کوئی مرتبہ احسان تک پہنچنا چاہے تو یہ کسی کامل شخصیت سے وابستہ ہوئے بغیر ممکن نہیں ۔

شریعت وطریقت اور حقیقت و معرفت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی نظر میں آپ لکھتے ہیں : شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معر فت ’’شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت میں باہم اصلا کوئی تخالف نہیں،اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تونرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ، بددین، شریعت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال ہیں، اور طریقت حضور کے افعال، اور حقیقت حضور کے احوال ، اور معرفت حضور کے علوم بے مثال ۔ (فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص:۴۶۰)

اے عزیز من شریعت قال ہے اور طریقت فعل، حقیقت حال ہے ۔ معرفت اس حال کا انجام ہے

جو خدا کا فضل اور احسان ہے ۔ (نغمات الاسرار فی مقامات الابرار.ص:۶۶. مطبوعہ شاہ صفی اکیڈمی.الہ آباد،)

بیعت کی اہمیت وضرورت

کسی نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت کے دن ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گروہ میں اٹھیں گے، تو پھر بیعت کرنے اور کسی سلسلے میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟

اس سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا :

’’قرآن و حدیث میں شریعت ، طریقت ، حقیقت سب کچھ ہے ،ان میں سے سب سے زیادہ ظاہر وآسان مسائل شریعت ہیں ، ان کی تو یہ حالت ہے کہ اگر ائمہ مجتہدین ان کی شرح نہ فرماتے ، تو علما کچھ نہ سمجھتے ، اور علمائے کرام ، اقوال ائمہ مجتہدین کی تشریح و توضیح نہ کرتے ، توہم لوگ ارشادات ائمہ کے سمجھنے سے بھی عاجز رہتے اور اب اگر اہل علم ،عوام کے سامنے مطالب کتب کی تفصیل اور صورت خاصہ پر حکم کی تطبیق نہ کریں،تو عام لوگ ہرگزہرگز کتابوںسے احکام نکال لینے پر قادر نہیں ، ہزار جگہ غلطی کریں گے اور کچھ کا کچھ سمجھیں گے،اس لیے یہ سلسلہ مقررہے کہ عوام، آج کل کے اہل علم ودین کادامن تھامیں، اور وہ تصانیف علمائے ماہرین کا،اوروہ مشائخ فتاویٰ کا اور وہ ائمہ ہدیٰ کا، اوروہ قرآن وحدیث کا، جس شخص نے اس سلسلے کو توڑا، وہ اندھا ہے، جس نے دامن ہادی ہاتھ سے چھوڑا،عنقریب کسی عمیق کنویں میں گراچاہتاہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، ج: ۲۱، صفحہ  ۶۲۔ ۴۶۱،)

اس کے بعد مزیدگفتگو کرتے ہوئے صاحب فتاوی نے احکام شریعت کے توارث اور ائمہ مجتہدین کی ضرورت کو ثابت کیا اور پھر آگے یوں تحریر فرمایا:جب احکام شریعت میں یہ حال ہے، تو صاف روشن ،کہ دقائق سلوک اور حقائق معرفت، بے مرشد کامل، خود بخود قرآن وحدیث سے نکال لینا کس قدر محال ہے۔ یہ راہ سخت باریک اور بے شمع مرشد نہایت تاریک ہے، بڑے بڑوں کو شیطان لعین نے اس راہ میں ایسا مارا ،کہ تحت الثرٰی تک پہنچادیا ، تیری کیا حقیقت کہ بے رہبر کامل، اس راہ میں چلے اور سلامت نکل جانے کا ادعا کرے، ائمہ کرام فرماتے ہیں: آدمی اگر چہ کتنا ہی بڑا عالم، زاہد، کامل ہو اس پر واجب ہے کہ(وہ کسی ) ولی عارف کو اپنا مرشد بنائے، بغیر اس کے ہرگز چارہ نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ،ج:۲۱،ص:۴۶۳)

مزید اپنے موقف کی تائید میں امام شعرانی قدس سرہ کی تصنیف میزان الشریعہ۔۔۔ کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا ہے : فعلم من جمیع ماقررناہ وجوب اتخاذ الشیخ لکل عالم طلب الوصول الی شہود عین الشریعۃ الکبرٰی ولواجمع جمیع اقرانہ علی علمہ وعملہ وزہدہ و ورعہ ولقبوہ بالقطبیۃ الکبرٰی فان لطریق القوم شروطا لایعرفہا الا المحققون منہم ….الخ ۔

ترجمہ: معلوم ہواان تمام بحثوں سے جس کو ہم نے ثابت کیاہے، کہ شیخ کا پکڑناواجب ہے، ہراس عالم کے لیےجس کو عین شریعت کبریٰ کے مشاہدہ تک پہنچنا مطلوب ہے، اگر چہ اس کے تمام ہم عصر، اس کے علم وعمل او رزہد و ورع پر جمع ہو جائیں اور اس کو قطبیت کبریٰ کا لقب دیں ،اس لیے کہ اس قوم (یعنی صوفیہ) کے طریق کی کچھ شرطیں ہیں، جن کو سوائے محققین صوفیہ کےکوئی نہیں پہچان سکتا ۔ (المیزان الکبریٰ، فصل: ان القائل کیف الوصول الخ مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۲، بحوالہ فتاوی رضویہ ،ج:۲۱ ،ص: ۶۴، ۴۶۳) ۔

Loading